• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان تمام معروضات کے باوجود شمس دل برداشتہ ہو کر قونیہ رخصت ہوگئے اور اِدھر رومی کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ ماہئ بے آب کی طرح تڑپنے لگے۔ اپنے والد کی یہ حالت دیکھ کر اُن کا بیٹا سلطان ولاد قونیہ چلاگیا اور منّت سماجت کرکے شمس کو دوبارہ اپنے ساتھ لے آیا۔ واپسی پربیٹا اپنے والد، رومی کی ہدایت کے مطابق پیدل ساتھ آیا اور شمس گھوڑے پر سوار رہے۔ شمس تبریز کو اپنے سامنے دیکھ کر رومی کو وہ مسّرت حاصل ہوئی، جیسے گویاپیاسے کو ٹھنڈے پانی کا چشمہ مل گیا ہو۔ شمس کو جو لوگ اپنی راہ کا کانٹا سمجھتے تھے، وہ پھر پیچ و تاب کھانے لگے اور ان سازشوں میں شریک ہوگئے، جو آگے چل کر شمس کی موت کا سبب بنیں۔

اُن افرادمیں رومی کا اپنا بیٹا علاؤ الدین محمد سب سے زیادہ متحرک تھا۔ مولانا کو اس بات کا علم تھا، اسی لیے وہ اپنے بیٹے کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ شمس دوبارہ پُراسرار طور پر غائب ہو گئے تھے۔ رومی کا گمان تھا کہ وہ پھر قونیہ چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر افضل اپنی کتاب ’’مولانا رومی،حیات و افکار‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’رومی، قونیہ سے آنے والے مسافروں سے شمس کے متعلق دریافت کرتے، کوئی یہ بتاتا کہ شمس زندہ ہیں، تو وہ فوری شکریے اور انعام کا مستحق قرار پاتا۔ ایک روز ایک مسافر نے بتایا کہ ’’مَیں نے شمس کو دمشق میں دیکھا ہے۔‘‘ رومی اس مژدے سے اس قدر مسرور ہوئے کہ اُسی وقت اپنا چغہ اُتار کر مسافر کو نوازدیا۔ 

قریب ہی موجود ایک شکی دوست بول اُٹھا کہ ’’ممکن ہے، مسافر رومی کا دل خوش کرنے کے لیے جھوٹ بول رہا ہو۔‘‘ رومی نے چمک کر جواب دیا،’’اگر مجھے اس خبر کی صداقت کا یقین ہوتا، تو مَیں چغے کی بجائے اُسے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا۔‘‘شمس تبریز سے مولانا رومی کی بے پناہ عقیدت و محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رومی کی زندگی میں اگر حضرت شمس تبریز نہ آتے، تو رومی کبھی اپنی شہرۂ آفاق مثنوی نہ لکھ پاتے۔ 

حضر ت شمس تبریز اُن کے پیرو مرشد تھے، جنھوں نے رومی کو ظاہری کے بجائے باطنی علوم کی طرف راغب کیا۔ حضرت شمس تبریز اور مولانا رومی کی صحبت عشق ِالٰہی،معرفتِ الٰہی اور تصوّف کے سمندر میں چُھپے موتی سامنے لاتی ہے کہ رومی دنیا سے بیگانہ ہوکر صرف اپنے مرشد کے ہوکر رہ گئے تھے۔

رومی کے سوانح نگار، بریڈ گوچ لکھتے ہیں،’’رومی نے شاعری، موسیقی اور رقص کو مذہبی عمل میں شامل کردیا۔ وہ جب مراقبے میں جاتے یا شعر کہتے تو ایک خاص انداز میں رقص کرتے اور گھوم کر اُسے لکھواتے۔‘‘ خود رومی نے اپنی غزل میں اس کا ذکر کیا ہے،’’پہلے میں دُعائیں کرتا تھا، اب میں شعر نظم کرتا اور گیت پڑھتا ہوں۔‘‘ بہرحال، رومی نے شمس تبریز کی جدائی کا دُکھ کم کرنے کے لیے سماع و رقص میں پناہ ڈھونڈلی تھی، مگر یہ روحانی دُکھوں سے فرار کا راستہ نہیں تھا، بلکہ اُن کی شخصیت کے ارتفاع کا روحانی سفر تھا۔ 

وہ بلاشبہ ’’دیوانے‘‘ ہوچکے تھے، مگر ان کے معاصرین کہتے ہیں، ’’ان کی دیوانگی میں بھی ایک فرزانگی تھی اور اُن کے سودا میں بھی ایک سلیقہ تھا، جسے اُس وقت کوئی نہ سمجھ سکا۔ رومی نے شاعری کے ذریعے اس جان لیوا ہجر کا مقابلہ کیا۔ وہ اپنی غزلوں کو شمس تبریز کا دیوان کہتے ہیں اورشمس کا نام یوں استعمال کرتے ہیں، جیسے وہ اور شمس ایک ہی ہوں ؎ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم.....تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد۔ (میں فقط مولوی تھا،مگر جب حضرت شمس تبریز کا غلام ہوا، تو روم کا سردار ہو گیا)۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر رومی نہ ہوتے تو شمس تبریز کو بھی کوئی نہ جانتا۔ 

بہرکیف، رومی کے شب و روز اسی دیوانگی میں گزر رہے تھے کہ ایک روز گلی سے گزرتے ہوئے ایک زرکوب کی ہتھوڑی کی ضربوں کی مسلسل آواز اور اس کے ردھم نے رومی پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۔ اُن کی یہ حالت دیکھ کر زرکوب نے بھی ہتھوڑی کی رفتار بڑھادی اور سونے کے ورق کُوٹتا چلا گیا۔ افلاکی نے لکھا ہے، جب ہتھوڑی کی لَے میں ڈوبی ہوئی آواز پر رومی وجد میں آگئے، تو شیخ صلاح الدین خود باہر نکل آئے اور رومی کے ساتھ اس وجد و رقص میں شریک ہوگئے اور اپنے شاگردوں اور کاری گروں کو اشارہ کیا کہ اپنے ہاتھ نہ روکیں، چاہے اس میں کتنا ہی سونا کیوں نہ ضائع ہوجائے۔ 

اس موقعے پر رومی عالمِ وجد میں یہ شعر مسلسل دُہراتے رہے؎ یکے گنجے پدید آمد ازیں دکانِ زرکوبی.....زہے صورت زہے معنی، زہے خوبی زہے خوبی۔ (اس زرکوبی کی دُکان سے ایک خزانہ مل گیا..... عجب صورت، عجب معنی، عجب خوبی، عجب خوبی)۔ رومی گھنٹوں محوِ رقص رہے۔ زرکوب کا اگرچہ بہت سا سونا ضائع ہوگیا، مگر بدلے میں رومی کی دوستی کا قیمتی سرمایہ ہاتھ آگیا۔ 

رومی کو بھی اِک ایسے ہی دوست کی ضرورت تھی، جس سے اُن کی اپنی بحالی ممکن ہو۔ یوں رفتہ رفتہ صلاح الدین زرکوب اور رومی اتنے قریب آ گئے کہ رومی کی کم از کم 71غزلوں میں صلاح الدین زرکوب کا ذکر ملتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ’’رومی کو خطرہ تھا کہ دوستوں کی رقابت انہیں نئے رفیق سے بھی جدا نہ کردے، جس سے وہ اپنا تعلق کسی صُورت منقطع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی صلاح الدین کی بیٹی سے کردی۔‘‘

شیخ صلاح الدین زرکوب نے بھی ایک لمحے میں سب مال و اسباب لٹا دیا اور خالی ہاتھ مولانا کے ساتھ چل پڑے۔ اگرچہ پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر صاحبِ حال تھے اور رومی کے اُستاد برہان الدین محقّق سے بیعت تھے۔ رومی سے اُن کی صحبت کا عرصہ9سال پر محیط ہے۔ رومی کو وہی گرم جوشی اور وہی تسلّی صلاح الدین زرکوب سے حاصل ہوئی، جو وہ شمس تبریز کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ حسبِ روایت رفیقوں نے اس تعلق پر بھی ویسا ہی کہرام برپا کیا، مگر نہ تو رومی نے اسے درخورِ اعتنا سمجھا اور نہ ہی صلاح الدین زرکوب نے اس کا کوئی اثر لیا۔ 

صلاح الدین کی وفات کے بعد چوتھی شخصیت، حسام الدین چلپی کی ہے، ان کا بھی مولانا کی زن دگی میں بڑا عمل دخل رہا۔ ان ہی کی درخواست پر مولانا نے مثنوی لکھنے کا آغاز کیا۔ مولانا رومی، حسّام الدین چلپی سے اس طرح پیش آتے، جیسے اُن کے مرید ہوں، جب کہ حسّام الدین بھی مولانا کا بہت ادب اور احترام کرتے تھے۔ شبلی نعمانی، ’’سوانحِ مولانا روم‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’حسّام الدین چلپی نے پورے دس برس میں ایک دن بھی مولانا کے وضو خانے میں وضو نہیں کیا۔ شدید ترین سردی میں بھی اپنے گھر جا کر وضو کرتے۔‘‘ مثنوی کی ’’تصنیف‘‘ میں حسّام الدین چلپی کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ 

یہ علم و حکمت کا خزانہ اُن کی تحریک اور کاوشوں کا مرہونِ منّت ہے۔ مثنوی کے چھے دفاتر ہیں اور بجز اوّل، ہر دفتر اُن کے نام سے مزیّن ہے۔ وہ اکٹھے شب و روز گزارتے اور کئی کئی گھنٹے لگاتار مثنوی پر کام کرتے۔ مولانا وجد میں اشعار کہتے جاتے۔ چلپی انہیں قلم بند کرتے جاتے اور ساتھ ساتھ اپنی سُریلی آواز میں گاتے جاتے۔ آخری دَور میں حسّام الدین چلپی، مولانا کے دل کے اس قدر قریب آگئے کہ جو کچھ کہیں سے بھی آتا، وہ چلپی کو بھیج دیتے۔ 

ڈاکٹر افضل اقبال’’مولانا رومی، حیات و افکار‘‘ میں لکھتے ہیں،’’ایک بار امیر تاج الدین معتبر نے رومی کے لیے ستّر ہزار درہم کا عطیہ بھیجا۔ انہوں نے اُسی وقت ساری رقم چلپی کو بھیج دی۔ سلطان ولاد نے اپنے والد سے شکایت کی کہ ’’گھر میں خورو نوش کا کوئی سامان موجود نہیں، مگر آپ کو گھریلو ضروریات کا کوئی احساس نہیں۔‘‘ رومی نے جواب دیا، ’’اگر لاکھوں درویش اور ولی میرے سامنے بھوکے بیٹھے ہوں اور میرے پاس ایک ہی روٹی ہو، تو بہ خدا وہ روٹی بھی مَیں چلپی کو بھجوا دوں۔‘‘

مولانا کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالیں، تو عالمانہ جاہ و جلال کے حامل، علم و فضل میں کمال درجہ رکھنے والے مولانا رومی نے شمس تبریز سے ملاقات کے بعد صوفیانہ زندگی اختیار کی اور تصوّف کے نشے میں سرشار رہنے لگے۔ سپہ سالار کا بیان ہے،’’مَیں نے کبھی اُنھیں شب خوابی کے لباس میں نہیں دیکھا۔ بچھونا اور تکیہ بالکل نہیں ہوتا تھا۔

نیند غالب ہوتی، تو بیٹھے بیٹھے سو جاتے، نماز کا وقت آتا، تو فوراً قبلے کی طرف مڑ جاتے۔ نماز میں نہایت استغراق ہوتا تھا۔‘‘سپہ سالار لکھتے ہیں کہ ’’مَیں نے بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اوّل عشاء کے وقت نیّت باندھی اور دو رکعت میں صبح ہوگئی۔ مولانا نے اپنی نماز کی کیفیت ایک نظم میں خود بیان کی ہے ؎ بخدا، خبر ندارم چو نماز می گزارم.....کہ تمام شد رکوعے کہ امام شد فلانے۔ (بخدا، جب میں نماز پڑھتا ہوں، تو مجھے یہ خبر نہیں ہوتی کہ رکوع کب ہوا اور امام کون تھا)۔ایک دفعہ سخت سردیوں کے دن تھے۔ 

مولانا نماز میں اس قدر روئے کہ تمام چہرہ اور داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ جاڑے کی شدّت کی وجہ سے آنسو جم گئے، لیکن وہ اسی طرح نماز میں مشغول رہے۔ درویشی کا یہ عالم تھا کہ جس دن گھر میں کھانے کا کچھ سامان نہ ہوتا، تو بہت خوش ہوتے اور فرماتے ’’آج ہمارے گھر سے درویشی کی بُو آرہی ہے۔‘‘ اس کے برعکس فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کوئی سائل سوال کرتا، تو عبایا، کُرتا جو کچھ بدن پر ہوتا اُتار کراُسے دے دیتے۔ شبلی نعمانی ’’سوانح مولانا روم‘‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں،’’ایک دفعہ دو شخص سرِراہ لڑ رہے تھے، اور ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا ’’او، لعین! تُو ایک کہے گا، تو دس سُنے گا۔‘‘ اتفاق سے مولانا کا اُدھر سے گزر ہوا۔

آپ نے اُس شخص سے فرمایا کہ ’’بھائی! جو کچھ کہنا ہے، مجھے کہہ لو، مجھے اگر ہزار کہو گے تو ایک بھی نہ سنوگے۔‘‘معین الدین پروانہ نے ایک فاضل کو قونیہ کا قاضی مقرر کرنا چاہا۔ اُس نے تین شرطیں پیش کیں۔ ’’رباب (باجا) سرے سے اُٹھا دیا جائے، عدالت کے تمام پرانے چپراسی نکال دیے جائیں اور جو نئے مقرر ہوں، انھیں حکم دیا جائے کسی سے کچھ نہ لیں۔‘‘ معین الدین نے دو شرطیں منظور کرلیں، لیکن پہلی شرط اس وجہ سے قبول نہ کی کہ خود مولانا رباب سنتے تھے۔ فاضل مذکور بھی ضد کے پکّے تھے، قضا قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مولانا نے سُنا تو فرمایا کہ ’’رباب کی ادنیٰ کرامت یہ ہے کہ فاضل صاحب کو قضا کی بلا میں پڑنے سے بچالیا۔

مولانا روم ..... مسلم اور غیر مسلم مشاہیر کی آراء

فی زمانہ، دنیا میں مختلف ممالک اور قوموں کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اسے کچھ مغربی دانش وروں نے تہذیبوں کا تصادم قرار دیا ہے۔ ان میں کچھ صاحبِ بصیرت ایسے بھی ہیں، جنہوں نے نفرت اور تعصّب کے اس ماحول میں دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان محبت و امن کا پیغام ڈھونڈنے کی کوششیں کی ہیں۔ انہوں نے ہی اس ماحول میں شاعرِ امن و محبت جلال الدین رومی کو مغرب میں متعارف کروایا۔

ان دانش وَروں کا خیال ہے،’’مادّہ پرستی کے فاسد اثرات سے نجات کا اگر کوئی راستہ ہے، تو وہ رومی ہے۔‘‘ رومی کا شمار امریکا کی تاریخ کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ امریکا کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے شاعروں میں بھی شامل ہیں۔ مغربی مصنف بریڈ گوچ، جس نے رومی کی سوانح لکھی ہے۔ کہتا ہے،’’رومی کی زندگی کا نقشہ دو ہزار پانچ سو میل پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ محبت اور خوشی کا شاعر ہے۔‘‘ 

گوچ مزید لکھتا ہے ’’مَیں نے ایک بار امریکا میں ایک گاڑی کے بمپر پر ایک اسٹیکر دیکھا، جس پر لکھا تھا، ’’اچھائی اور برائی کے درمیان ایک جگہ ہے، مَیں تمہیں وہاں ملوں گا۔‘‘ (رومی)۔ ان کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے معروف مصنف، ڈالر یمپل کہتے ہیں، ’’اپنی وفات کے سات سو سال بعد مولانا روم، محبّت کا پیغام لے کر اُبھرے اور امریکا اور یورپ کے ایک مقبول شاعر بن گئے۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید