انٹرویو: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ
پوری دنیا ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زَد میں ہے، لیکن پاکستان متاثرہ ممالک میں سرِفہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس مُلک کے کئی ٹھنڈے اضلاع میں بھی، جہاں مارچ، اپریل اور مئی میں موسم معتدل رہتا ہے، غیرمعمولی گرمی پڑی۔ جب کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں تو گرمی اپنے عروج پر رہی اور سورج آگ برساتا رہا۔ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی شہروں میں درجۂ حرارت51ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ مُلک کے سب سے بڑے شہر، کراچی سمیت کئی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث سیکڑوں افراد اور ہزاروں مویشی لقمۂ اجل بن گئے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ذرائع کے مطابق، کراچی میں گزشتہ ماہ(جون میں) سرد خانوں میں 900سے زائد لاشیں لائی گئیں، جن کا ہیٹ اسٹروک کے باعث انتقال ہوا۔ ان میں زیادہ تر مزدور، خاکروب اور نشے کے عادی افراد شامل تھے، تاہم سرکاری سطح پر تاحال اموات سے متعلق واضح اعداد و شمار سامنے نہیں آ سکے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ہیٹ اسٹروک سے30ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ پسنی میں11، سبّی میں 10، تربت (کیچ) میں 6، ڈھاڈر، ڈیرہ اللہ یار اور گوادر میں ایک، ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔
موسمیاتی تبدیلی اور شدید گرمی کے ستائے عوام آنے والے برسوں میں صُورتِ حال کی سنگینی کے تصوّر ہی سے خوف زدہ ہیں اور وہ جاننا چاہتے ہیں کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے گرمی کی شدّت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس ضمن میں گزشتہ دنوں ممتاز طبّی ماہر اور فاطمہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیزز، کوئٹہ کے ڈائریکٹر ایڈمن، ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر مقبول احمد لانگو کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مقبول احمد لانگو کا شمار بلوچستان کے ممتاز طبّی ماہرین میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ سے 2007ء میں ایم بی بی ایس اور 2014ء میں ایف سی پی ایس اِن پلمونولوجی کیا۔ بعدازاں، میڈیکل افسر تعیّنات ہوئے اور مختلف طبّی مراکز میں خدمات انجام دے چُکے ہیں۔
س: ہیٹ ویو کیا ہے اور زیادہ تر کس عُمر کے افراد اِس سے متاثر ہوتے ہیں؟
ج: جب کسی علاقے میں درجۂ حرارت طویل عرصے کے لیے زیادہ رہے، تو وہاں کی آب و ہوا میں نمایاں تبدیلیاں رُونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جس کے انسانی صحت پر نہایت منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ اِن دنوں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہیٹ ویو، یعنی شدید گرم لہروں کا راج ہے، جس کے باعث عوام شدید پریشانی سے دوچار ہیں،خاص طور پر چھوٹے بچّے، حاملہ خواتین، بزرگ اور مختلف طبّی عوارض میں مبتلا افراد گرمی کی لہر سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
جب شدید گرمی کی وجہ سے انسانی جسم کا درجۂ حرارت کنٹرول کرنے کے قابل نہ رہے، تو اسے’’ ہیٹ اسٹروک‘‘ کہتے ہیں۔ اِس کیفیت میں جسم کا درجۂ حرارت بہت زیادہ ہو جاتا ہے، جِلد خشک اور گرم ہوجاتی ہے، آخر میں متاثرہ فرد بے ہوش ہو جاتا ہے اور بعض اوقات جان تک چلی جاتی ہے۔ اِن حالات میں متاثرہ شخص کو فوری طبّی امداد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
ہیٹ اسٹروک سے پہلے کے مراحل کو’’ ہیٹ ایگزاشن‘‘ کہتے ہیں، جس میں بہت زیادہ پسینہ آنا، کم زوری اور غنودگی جیسی علامات شامل ہیں۔ اگر اِس مرحلے میں مناسب علاج معالجہ نہ کیا جائے، تو پھر متاثرہ شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو جائے گا، جو گرمی کی لہر کا سب سے خطرناک نتیجہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، جب بدن میں پانی کی کمی ہو جائے، تو اُس حالت کو’’ ڈی ہائیڈریشن‘‘ کہتے ہیں۔ اس کیفیت میں منہ بہت خشک اور پیشاب کا رنگ گہرے سے گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ ڈی ہائیڈریشن زیادہ دیر تک رہے، تو گُردے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ عموماً پسینہ زیادہ آنے کے باعث جسم سے پانی کے ساتھ نمکیات کا بھی اخراج ہوتا ہے اور اِن نمکیات کی کمی سے بازوؤں، ٹانگوں کے پٹّھوں میں شدید درد محسوس ہوتا ہے۔ ایسی صُورت میں نمکیات کی فوری فراہمی ناگزیر ہوتی ہے۔
واضح رہے، گرمی کی شدّت بلڈ پریشر، شوگر اور دمے کے مریضوں کے لیے زیادہ بڑی آزمائش ثابت ہوتی ہے، اس سے اِن امراض کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر بچّوں، بوڑھوں اور پہلے سے بیمار افراد میں درجۂ حرارت کنٹرول کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، اِس لیے ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ شدید گرمی کی لہر کے دَوران عوام ڈاکٹرز کی بتائی گئی ہدایات اور سفارشات پر مکمل عمل کریں، تو کئی قیمتی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
شدید گرم موسم میں زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال کرنا چاہیے، الکوحل اور کیفین سے اجتناب ضروری ہے کہ اِن کے استعمال سے ڈی ہائیڈریشن کے چانسز زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ خصوصاً لُو چلنے کے دَوران غیرضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔ زیادہ محنت مشقّت والے کام بھی نہ کیے جائیں۔ اگر ڈی ہائیڈریشن کی کیفیت ہو، تو پانی کے ساتھ نمکیات کی کمی کو بھی مدّنظر رکھنا چاہیے اور اسے متبادل طریقے سے پورا کرنا چاہیے۔
گرمی زیادہ محسوس ہو، تو کولنگ مراکز میں زیادہ وقت گزاریں۔ ہلکے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے ملبوسات پہنیں، اِس طرح جسم درجۂ حرارت برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ جن لوگوں کی قوّتِ مدافعت کم ہے اور جسمانی لحاظ سے کم زور ہیں، اس موسم میں خاص طور پر ان کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز، ہیٹ اسٹروک کی صُورت میں فوری طور پر طبّی مرکز کا رخ کیا جائے تا کہ بروقت علاج ممکن ہو سکے۔
س: ہیٹ اسٹروک کی علامات کیا ہیں اور کس طرح معلوم ہوگا کہ کوئی شخص اس کا شکار ہو چُکا ہے؟
ج: عوام النّاس اور ریسکیو سروسز پر مامور افراد کے لیے ہیٹ اسٹروک کی علامات سے باخبر ہونا بے حد ضروری ہے۔ اِس کی علامات میں دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا، سانس لینے میں دقّت، پسینے کا رُک جانا، متلی، قے، بے ہوشی کے دَورے، سر میں شدید درد، جسم میں پانی کی کمی، جِلد کا گرم اور سُرخ ہو جانا وغیرہ شامل ہیں۔
س: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے فوری احتیاطی تدابیر کیا اختیار کرنی چاہئیں؟
ج: سب سے پہلے تو پانی کا استعمال بڑھا دیں، جسم میں نمکیات کی کمی پوری کرنے کے لیے او آر ایس اور لیموں ملا پانی پیئں۔ چوں کہ پانی جسم کے درجۂ حرارت کو معمول پر رکھتا ہے، تو عمومی طور پر بھی گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔ ایک دن میں کم ازکم6 سے 7 لیٹر پانی پیئں، جب کہ دن 11 سے سہ پہر4 بجے تک دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں۔ حالت بگڑتی ہوئی محسوس ہوتو فوراً نہالیں، پنکھے کا رُخ اپنی طرف رکھیں تاکہ جسم کا درجۂ حرارت کم ہو سکے۔
انتہائی شدید درجۂ حرارت کی صُورت میں گردن، بغلوں، گُھٹنوں اور پیٹھ پر برف کے ٹکڑے رکھیں۔ ہیٹ اسٹروک سے ہونے والا بخار دوا سے ٹھیک نہیں ہوتا، اِس لیے خود سے کوئی دوا نہ لیں۔ علامات دُور نہ ہونے کی صُورت میں فوری طور پر اسپتال یا طبّی مرکز کا رُخ کریں۔ اگر دن کے اوقات میں باہر جانا پڑے، تو زیادہ دیر تک بند گاڑی میں بیٹھنے سے گریز کریں، کبھی بھی بچّوں یا جانوروں کو گاڑی میں نہ چھوڑیں کہ یہ عمل اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ باہر کے کام صبح سویرے یا شام کے وقت نمٹانے کی کوشش کریں۔ گھر سے نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپس کا استعمال کریں۔جس قدر ممکن ہو، سورج کی براہِ راست تپش سے خود کو بچائیں۔ باہر نکلتے وقت سر اور منہ کو گیلے کپڑے سے ڈھانپنا بھی مفید رہتا ہے۔
س: پاکستان میں یک دَم ہیٹ ویو میں اِس قدر اضافے کی وجہ کیا موسمیاتی تبدیلیاں ہی ہیں؟
ج: اصل میں گنجان آبادی والے علاقے ہیٹ ویوز کے زیادہ شکار ہوتے ہیں، جیسا کہ کراچی متاثرہ شہروں میں سرِ فہرست ہے، جو آبادی کے دباؤ کے ساتھ کنکریٹ کا جنگل بھی بن چُکا ہے۔ یہی حالت کوئٹہ کی بھی ہے، جسے ماضی میں’’ لٹل پیرس‘‘ کہا جاتا تھا کہ یہاں مختلف اقسام کے سر سبز درخت اس کی خُوب صُورتی کا سبب تھے، لیکن اب یہ بھی آبادی کے پھیلاؤ کے ساتھ کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہا ہے۔
اسی سبب سے ماضی کے موسمِ گرما کی نسبت چند برس کے دَوران گرمیوں میں درجۂ حرارت بہت زیادہ بڑھ چُکا ہے۔ اگرچہ کوئٹہ میں اب بھی پنجاب اور سندھ کی نسبت کم گرمی پڑتی ہے، لیکن بلوچستان میں سبّی، تربت (کیچ )، گوادر، مکران اور خاران سمیت کئی ایسے اضلاع ہیں، جہاں موسمِ گرما عموماً شدید ہوتا ہے۔اِسی طرح بلوچستان کے کئی اضلاع میں بارشوں کے انداز میں واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے اور مقدار میں بھی اضافہ ہوا ہے، یعنی کم وقت میں شدید اور تیز بارشیں۔
اِسی طرح موسمِ سرما سکڑ کرمحض تین سے چار ماہ کا رہ گیا ہے، جب کہ موسمِ گرما طویل اور شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہیٹ ویوز کے اسباب میں فوسل فیولز کا بے دریغ استعمال بھی شامل ہے۔ نیز، سڑکوں پر بے ہنگم دھواں اُڑاتی گاڑیوں، جلتے کچرے، درختوں کی کٹائی، کوئلے اور گیس سے بجلی کی پیداوار کے باعث پاکستان میں درجۂ حرارت بڑھ گیا ہے۔
دوسری جانب منہگی بجلی سے نجات، فوسل فیولز کے استعمال میں کمی اور یورپی یونین کی جانب سے برآمدات پر پابندیوں کی لٹکتی تلوار سے بچنے کے لیے صنعت کار سولرائزیشن پر توجّہ تو دے رہے ہیں، لیکن محدود مالی وسائل اور جگہ کی کمی کے باعث یہ مکمل طور پر ممکن نہیں۔
پاکستان، بالخصوص کراچی کو موسمی تبدیلیوں کے باعث شدید گرمی کا سامنا ہے، ایسے میں توانائی کے متبادل ذرائع کا استعمال نہ صرف فوسل فیولز میں کمی کا سبب بنے گا، بلکہ موسم کی حدّت میں بھی کمی آئے گی۔ ہیٹ ویوز سے بچاؤ کے لیے ایک مینجمنٹ پلان کی اشد ضرورت ہے، بڑے شہر کنکریٹ کے جنگل بن گئے ہیں، جس سے دن اور رات میں گرمی کی حدّت ایک ہی جیسی محسوس ہوتی ہے۔
پورے مُلک، خاص طور پر گرم علاقوں میں بڑے پیمانے پر درخت لگا کر درجۂ حرارت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جو کہ نہ صرف زمین کے کٹاؤ کو روکنے میں معاون ہوتے ہیں بلکہ بارشوں کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ دنیا بَھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے رُونما ہو رہی ہیں، جن کے براہِ راست منفی اثرات انسانوں پر مرتّب ہو رہے ہیں اور اِن ی تبدیلیوں کے باعث بیماریوں کے ساتھ سیلاب اور قحط کی صُورتِ حال بھی پیدا ہو رہی ہے۔
س: ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کے لیے بلوچستان کے اسپتالوں میں کیا انتظامات ہیں؟ اور کون سے مرض کا ماہر ڈاکٹر ایسے مریضوں کا بہتر انداز میں علاج معالجہ کر سکتا ہے؟
ج: بلوچستان کے کسی بھی سرکاری و نجی اسپتال میں ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ افراد کے لیے خصوصی وارڈ یا انتظامات موجود نہیں ہیں، حالاں کہ جنرل فزیشنز ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ مریضوں کا علاج کر سکتے ہیں۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے اکثر ٹریژری کیئر اسپتالوں کی عمارتیں کثیر المنزلہ ہیں، وارڈز تنگ ہیں اور مریضوں کا بہت زیادہ رش لگا رہتا ہے، جس کے باعث ان اسپتالوں میں بھی لوگ ہیٹ ویوز سے متاثر ہو رہے ہیں، البتہ، فاطمہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیزز، کوئٹہ وسیع و عریض اراضی پر قائم کیا گیا ہے، جہاں بہت زیادہ سبزہ اور کُھلے وارڈز ہیں، جس کے سبب مریض نہ صرف خوش گوار اور صاف ستھرے ماحول میں رہتے ہیں، بلکہ یہاں ہیٹ ویوز سے متاتر ہونے کے خدشات بھی کم ہیں۔
یاد رہے، ہیٹ اسٹروک کوئی متعدّی بیماری نہیں، یعنی ایک سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتی، جس طرح کہ کورونا یا کانگو ہیں، جن کے لیے اسپتالوں میں خصوصی اور علیٰحدہ وارڈز مختص کرنے پڑتے ہیں۔ ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کا علاج، اسپتالوں کے جنرل وارڈز میں بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال، میری اِس ضمن میں یہی تجویز ہے کہ تمام سرکاری اسپتالوں کے عملے کو گرمی کی شدّت سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کی تربیت دی جائے تا کہ وہ متاثرہ شخص کو فوری طبّی امداد مہیا کرسکیں۔