الیکشن کمیشن نے خصوصی نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فل بینچ میں شامل پانچ کے مقابلے میں آٹھ ججوں کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں عدالتی حکم پر عمل درآمد کا اعلان تو کردیا ہے لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے کمیشن کے اقدامات پر کیے گئے اعتراضات کی جو تشریحات کی ہیں ان کی رو سے کمیشن کے نزدیک خصوصی نشستوں اور دیگر حوالوں سے اس کے تمام فیصلے اور اقدامات آئین اور قانون کے مطابق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلامیے میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمدمیں رکاوٹیں پیش آئیں تو رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔یوں کمیشن اور عدالت کے موقف کا اختلاف بظاہر برقرار ہے جو عمل درآمد کے مرحلے میں کھل کر سامنے آئے گا ۔ کمیشن کے اعلامیے میں کسی دبائو میں آئے بغیرآئین کے مطابق کام کرتے رہنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ غیرمبہم الفاظ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی۔ کمیشن نے اپنے فیصلوں اور اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرارنہیں دیا جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی لیکن فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بیٹ کا نشان واپس لیا گیا لہٰذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔ کمیشن کے مطابق جن 39 افراد اسمبلی کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی تو ظاہر کی تھی مگر پارٹی ٹکٹ اورڈکلیریشن جمع نہیں کرایاجبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کیلئے پارٹی ٹکٹ اور ڈکلیریشن ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے۔ اس لیے ریٹرننگ افسروں کیلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار تسلیم کرتے۔ سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل میں آئی لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔پی ٹی آئی کے 41 آزاد ارکان نے تحریک انصاف سے وابستگی ظاہر نہیں کی۔ اعلامیے میں ان ہی وضاحتوں کی بنیاد پرچیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن پر تنقید کی شدید مذمت کرتے ہوئے کمیشن سے استعفیٰ دینے کے مطالبے کو مضحکہ قرار دیا گیا ہے۔اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ عملدرآمد کے حوالےسے کسی قسم کی مشکل ہو تو مزید رہنمائی کے لیے فوری طورپر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں اختیار کیا گیا موقف اس وجہ سے بے وزن اور بلاجواز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ خصوصی نشستوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو متعدد ماہرین قانون نے ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح تحریک انصاف کو وہ ریلیف دے دیا گیا جو اس نے مانگاہی نہیں تھا جبکہ خود تحریک انصاف کے رہنماؤں اور وکلاء نے بھی تسلیم کیا ہے کہ عدالتی فیصلے سے انہیں وہ کچھ مل گیا جس کی وہ کوئی توقع نہیں رکھتے تھے کیونکہ خصوصی نشستوں کیلئے سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی نے نہیں سنی اتحاد کونسل نے رجوع کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قانونی حلقوں میں سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ خاصا متنازع سمجھا جارہا ہے حتیٰ کہ بعض قانونی تجزیہ کاروں نے اسے آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ امر یقینی نظر آتا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے دوران الیکشن کمیشن کے اندازے کے عین مطابق آئینی و قانونی رکاوٹیں پیش آئیں گی اور معاملات پھر سپریم کورٹ میں جائیں گے ۔ امید ہے کہ عدالت عظمیٰ کے معزز ارکان آئین اور قانون کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی رہنمائی کریں گے اور عدالتی فیصلے کی ان کمزوریوں کا بھی ازالہ کریں گے جن کی نشاندہی ماہرین قانون کی جانب سے کی جارہی ہے ۔