مرشد نے کمال کردیا،میںتو انکی سحر انگیز شخصیت کا دیوانہ ہوگیا ہوں۔چینی کہاوت سنا کرتے تھے ،کاغذ سے آگ کو نہیں ڈھانپا جاسکتا یا پھر کتے کے منہ میں ہاتھی دانت نہیں اُگتے مگر مرشد نے ان سب فرسودہ تصورات کو باطل ثابت کردیا ۔یہ ان کا اعجاز ہے کہ چاہیں تو پانی میں آگ لگا دیں ۔اب دیکھئے ناں کہاں وہ میر جعفر اور میر صادق والا بیانیہ اور کہاں سپہ سالار کے القابات ۔کہاں وہ قبر تک پیچھا کرنے کی باتیں اور کہاں یہ درخواست کرنے کا دل موہ لینے والا انداز۔
جناب عمران خان نے جیل سے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کو پیغام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ہم آپ سے درخواست ہی کرسکتے ہیں ،براہ کرم نیوٹرل ہو جائیں۔ویسے آپ ’’نیوٹرل‘‘کی اصطلاح کو لیکر متفکر نہ ہوں ،اس کی نئی تفسیر اور تعبیر سامنے آئے گی تو سب عش عش کرتے رہ جائیں گے۔مجھے بھی پرانی باتیں یاد ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر والی کہ جب اچھائی اور برائی کی لڑائی ہو،ملک کے خلاف سازش ہو رہی ہو تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں کسی کے ساتھ نہیں ہوں ،میں تو نیوٹرل ہوں ۔اللہ نے اس موقع پر انسان کو نیوٹرل رہنے کا اختیار ہی نہیں دیا۔نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس شعور نہیں ہوتا،اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی۔جمع خاطر رکھیے ،مرشد کی طرف سے نیوٹرل کی نئی تشریح کا انتظار کیجئے،انہیں موقع دیا گیا تو وہ ثابت کردیں گے کہ موجودہ حالات میںفوج کا نیوٹرل ہوناہی شرعی ،قانونی ،آئینی،اخلاقی اور سماجی تقاضہ ہے۔ویسے اگر آپ نے کیمسٹری پڑھی ہے تو غیر جانبدار مادے کی تعریف ضرور پڑھی ہوگی کہ ’’بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ شے، کو Neutral substanceکہتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے فزکس پڑھی ہے تو یقیناً یہ جانتے ہوں گے کہ حرکی توانائی کے اعتبار سے نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی قسم کی مثبت یا منفی توانائی خرچ نہیں ہو رہی۔لیکن بالفرض آپ نے یہ سب کچھ نہیں پڑھا تو بھی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔کبھی گاڑی تو چلائی ہوگی یا ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔ڈرائیونگ کے دوران نیوٹرل گیئر کا مطلب ہوتا ہے کہ گاڑی رُک گئی ہے اب یہ نہ آگے جائے گی نہ پیچھے۔ ہاں گاڑی کو دھکا لگا کر آگے، پیچھے، دائیں بائیں لڑھکایا جا سکتا ہے لیکن گاڑی کا انجن حرکت میں نہیں آئے گا۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی نے افواج پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنا شروع کیا تو 23جولائی 1993ء کو ایک انگریزی اخبار میں ان کا مضمون شائع ہوا’’In Neutral Gear۔‘‘جنرل (ر)اسد درانی لکھتے ہیں کہ جب سیاستدان کوئی بات کہتے ہیں تو مختلف قسم کے حالات میں ان کی باتوں کا مفہوم بدل جاتا ہے۔مثال کے طور پر جب سیاستدان کہتے ہیں کہ فوج سیاست سے دور رہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اقتدار میں ہیں اور ہماری حکومت کو صرف آپ سے خطرہ ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے کام سے کام رکھیں۔اسی طرح جب کوئی یہ کہتا ہے کہ فوج اپنی قومی اور آئینی ذمہ داریاں نبھائے تو وہ دراصل یہ عرضی پیش کر رہا ہوتا ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں، ہمارے پاس اقتدار حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں، براہِ کرم ہماری مدد کریں۔ جنرل (ر) اسد درانی کے مطابق جب یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ فوج ’’نیوٹرل‘‘ رہے تو اس کی تشریح یہ ہے کہ فی الحال حالات کنٹرول میں ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم آپ کو بلائیں گے۔جنرل (ر)اسد درانی کی بات میں وزن ہے۔اب دیکھئے ناں جب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپوزیشن میں تھیں تو ایک ہی بات کہاکرتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو جائے ،تحریک انصاف کے سر سے سایہ شفقت اُٹھا لے تو عمران خان کی حکومت فوری طور پر گر جائے گی۔اب اسی قسم کی باتیں تحریک انصاف کی طرف سے کی جارہی ہیں۔
بہر حال مرشد کے پیروکار،پرانا بیانیہ بھول جائیں اور بس ایک ہی نعرہ لگائیں ’’تازہ خبر آئی ہے ،عاصم ہمارا بھائی ہے۔‘‘ملک خضر حیات ٹوانہ جو سر سکندر حیات کی1942میں اچانک وفات کے بعد متحدہ پنجاب کے وزیراعظم بن گئے،تادم مرگ تقسیم ہند کے مخالف رہے۔یہاں تک کہ قیام بنگلہ دیش پر بھی اپنے اس موقف کو دہرایا۔قیام پاکستان کی مخالفت کے باعث مسلم لیگ کے جلسوں میں خضر حیات ٹوانہ کے خلاف شدید نعرے بازی ہواکرتی اورانہیں کٹھ پتلی وزیراعظم کہا جاتا۔ خشونت سنگھ سمیت کئی مصنفین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک جلسے کے دوران حسبِ معمول خضر حیات کے خلاف نعرے لگ رہے تھے ’’تازہ خبر،مرگیا خضر‘‘۔اس دوران معلوم ہوا کہ یونینسٹ حکمران خضر حیات ٹوانہ نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے اور ہوائوں کا رُخ دیکھتے ہوئے قیام پاکستان کی مخالفت ترک کردی ہے تو نعروں کا انداز بدل گیا او ر وہی جوشیلے کارکن جو خضر حیات ٹوانہ کے مرنے کی خبر دے رہے تھے، باآوازبلند نعرے لگوانے لگے’’تازہ خبر آئی ہے،خضر ہمارا بھائی ہے‘‘۔تب سے اب تک شاید کچھ نہیں بدلا۔میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر حالات واقعی بدل گئے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ شہبازشریف اسلام آباد میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کریں ،شیروانی کی جیب سے کوئی کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کریںکہ ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے،ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔اور جب اسٹیبلشمنٹ یہ کہہ کر تعاون کرنے سے انکار کردے کہ ہم نیوٹرل ہیں ،ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تووہ کہیں نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ۔خیر و شر اور حق و باطل کے معرکے میں تو اللہ نے نیوٹرل رہنے کی اجازت ہی نہیں دی۔کیا ایسا ممکن ہے؟میرا خیال ہے یہ لوگ چاہیں بھی تو مرشد کو کاپی نہیں کرسکتے۔