• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیارہ ستمبر کے بعد کی بن لادن کی دنیا اور تہذیبوں کے تصادم کی دنیا میں یہ بات ناقابلِ یقین ہے۔‘‘ رومی کی سوانح ’’سیکرٹس آف رومی‘‘ کے مصنّف بریڈ گوچ کا کہنا ہے،’’اُن کی شخصیت صدیوں سے اسی قدر بلند و بالا اور جاذبِ نظر ہے۔‘‘ ناروپا یونی ورسٹی میں شعریات کی پروفیسر اور شاعرہ اینی والڈمین کہتی ہیں،’’رومی ہمارے زمانے کی بہت پُراسرار شخصیت اور اشتعال انگیز شاعر ہیں، کیوں کہ جب ہم صوفی روایت، و جد و سرمستی، عقیدت کی نوعیت اور شاعری کی طاقت کو سمجھنے کے لیے نکلتے ہیں، تو وہ ہمیں جکڑ لیتے ہیں۔‘‘

پوئٹس ہائوس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور امریکا میں نیشنل لائبریری سیریز کی مشترک اسپانسر لی برائیسیٹی کا کہنا ہے کہ،’’وقت، جگہ اور ثقافت کی قیود سے باہر رومی کی شاعری اپنی جاودانی کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ وہ ہمیں ہماری محبت تلاشنے اور روزمرّہ زندگی کی خوشی سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔‘‘ قونیا انجمن برائے ترک صوفی موسیقی کے منیجر، فخری اوز چاکل کا کہنا ہے،’’جلال الدین رومی نے صدیوں قبل موجودہ حالات کا اندازہ کرلیا تھا، دُنیا میں افراتفری اور جنگوں کا ماحول آپ کے شہہ پاروں کے ذریعے ہی دُور ہوگا۔ فی زمانہ، مسلمانوں کو بُرا دکھانے کی مُہمّات زور پکڑ چکی ہیں، جنہیں قبول کرنا ناممکن ہے۔ 

دینِ اسلام خوف کھانے والا مذہب نہیں، یہ امن، صراطِ مستقیم اور بھائی چارے کا پرچار کرتا ہے۔ سو، اسلام فوبیا کے خلاف ہمیں جلال الدین رومی کے طرزِ زندگی اور ان کی تعلیمات پیش کرنی چاہئیں۔‘‘ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے،شاہ رام شیوا کے مطابق،’’رومی صاحب میں دس خوبیاں ہیں۔ عام آدمی سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ تہہ دار گفتگو کرتے ہیں۔ یگانگت کی بات کرتے ہیں، دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر سازی کو مہمیز دیتے ہیں۔ اُن کے کلام کے ہر بار نئے معنی و مفہوم کُھلتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان پُل کا کام کرتے ہیں۔ 

شاعری کو ناپسند کرنے والے لوگ بھی رومی کو نظر انداز نہیں کر پاتے۔ رومی بہت اعلیٰ روحانی رہنما ہیں۔ اُن کے کلام کی خُوبی یہ ہے کہ اسے سُن کر انسان اپنی کایا پلٹتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔‘‘ڈاکٹر افضل اقبال کی کتاب ’’مولانا رومی، حیات و افکار‘‘ کے دیباچے میں بشیر محمود اختر لکھتے ہیں،’’رومی محض فرد اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے معلّم و مبلّغ نہیں، بلکہ انفرادی زندگی اور معاشرتی نظام سے گزر کر ارتقائے انسانی کے شارح اور علَم بردار ہیں۔ ان ہی اقدار کے سبب وہ قدیم و جدید کی تفریق سے ماورا ٹھہرتے ہیں، بلکہ جدیدترین انسانی ترقی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ 

رومی آج بھی زندگی کے وقیق اور اُلجھے معاملات و مسائل کی عقدہ کشائی کا اعجاز دکھا سکتے ہیں۔ اُن کے یہاں ناکامی اور مایوسی کے اندھیرے نہیں، اُمید اور کام رانی کی تاب ناک کرنیں جِھلملا رہی ہیں۔ وہ جس قدر ماضی و حال کے شاعر سمجھے جاتے ہیں، اس سے بڑھ کر مستقبل کے شاعر اور مبشر کہے جاسکتے ہیں۔ ایسا صاحبِ بصیرت شاعر کسی خاص مُلک یا زبان کا فن کار یا مفکّر نہیں ہوتا، وہ تو بنی نوع انسان کا شاعر ہوتا ہے۔ ایک کائناتی فن کار، ایک ابدی صاحبِ فکر و نظر، ایک آفاقی دانش وَر۔‘‘

مولانا جلال الدین رومی کی شاعری کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ ان کی شاعری میں موجود انسانیت سے محبّت کا پیغام ہے۔ یہ محبّت رنگ، نسل اور عقیدت سے بالاتر اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اب یورپ میں بھی ان کا کلام شادی بیاہ کی تقاریب میں سنایا جاتا ہے، متعدد موسیقار اور گلوکار یہ کلام گاتے ہیں۔ ایوارڈ یافتہ فلم ساز، اولیورا سٹون، رومی پر فلم بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ 

جب انہوں نے ایران کا دورہ کیا، تو اُن کے صاحب زادے، شاں اولیور نے اسلام قبول کر لیا۔ شاں، ماں کی طرف سے مسیحی جب کہ والد کی طرف سے یہودی تھے۔ معروف امریکی گلوکارہ میڈونا نے دیپک چوپڑا کی 1988ء کی سی ڈی ’’A gift of Love‘‘کی موسیقی، رومی کے حمدیہ اشعار کے ترجمے پر ترتیب دی، جب کہ امریکی فیشن ڈیزائنر، ڈونا کرن نے ان کی شاعری کو اپنے فیشن شوز کے پس منظر کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے یوگا سینٹرز میں رومی کے کلام پر مبنی گیتوں کو روحانی تربیت کے لیے پس منظر میں موسیقی کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

معرکتہ الآرا تصنیف.....’’مثنوی مولانا روم‘‘

مثنوی کے چھے دفاتر ہیں، جن میں فلسفیانہ اور صوفیانہ رنگ میں زندگی سے متعلق ہر موضوع کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ لالہ صحرائی اپنے ایک مضمون میں مثنوی کی تعریف کچھ اس انداز میں کرتے ہیں،’’مثنوی وجد آفرین کلام ہے، یہ علم و حکمت کا ایک منفرد سمندر ہے۔ ندرتِ خیال کی ایک سحر خیز وادی ہے، تخلیقی ادب کا کوہِ گراں ہے۔ اشارات، تشبیہات اور استعاروں کا وسیع و عریض جہاں ہے۔ آفاقی حقائق کا موجزن چشمہ، باطنی علوم کی آب شار اور لطافت کی سلسبیل ہے۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ آسمانی کتب کے بعد’’ مثنوی مولانا روم‘‘ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ صاحب ’’مجمع الفصحا‘‘ نے لکھا ہے کہ،’’ایران میں چار کتابوں کے علاوہ کوئی اور کتاب مقبول نہیں ہوئی۔ 1۔ شاہ نامہ 2۔ گلستان 3۔مثنوی روم، اور4۔ دیوانِ حافظ۔ 

اگر ان چاروں کتب کا موازنہ کیا جائے، تو مقبولیت کے لحاظ سے مثنوی کو ترجیح حاصل ہوگی۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’مثنوی روم‘‘ فارسی زبان میں دین اور عشق و معرفت کی سحر انگیز تشریح ہے، جو مولانا نے اپنے خلیفہ حسّام الدین کی فرمائش پر لکھی کہ انہوں نے ہی رومی کو خواجہ فرید الدین عطّار کی ’’منطق الطیر‘‘ کی طرز پر مثنوی لکھنے کی ترغیب دی تھی۔ 

مثنوی میں مولانا روم نے مختلف حکایات کے ذریعے علم و حکمت کا ایسا نادر خزانہ آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ہے، جس سے صدیوں تک رہنمائی حاصل ہوتی رہے گی۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی،’’مثنوی مولانا روم‘‘ نے عالمِ اسلام کے افکار و ادبیات پر گہرا اور دیرپا اثر ڈالا، اسلامی ادب میں ایسی کتابیں شاذ و نادر ہی ملیں گی، جنہوں نے عالمِ اسلام کے اتنے وسیع حلقے کو اتنی طویل مدت تک متاثر رکھا ہو۔ چھے صدیوں سے مسلسل دُنیائے اسلام کے عقلی، علمی اور ادبی حلقے اس کے نغموں سے گونج رہے ہیں اور وہ دماغ کو نئی روشنی اور دلوں کو نئی حرارت بخش رہی ہے۔‘‘

مولانا روم اور علّامہ اقبال

شاعرِ مشرق،علّامہ محمد اقبال اپنی شاعری میں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مولانا جلال الدین رومی سے متاثر تھے۔ رومی، اُن کے لیے روحانی اور ادبی نقطۂ نظر سے اجنبی نہیں تھے۔ علامہ اقبالؒ نے امّتِ مسلمہ، بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مولانا جلال الدین رومیؒ کی تعلیمات سے استفادہ کیا۔ انھوں نے امّتِ مسلمہ کے مرض کی تشخیص کی اور ان کے حل کے طور پر مولانا جلال الدین رومیؒ کی تعلیمات پیش کیں اور ان کے فلسفے سے مستفید ہوئے۔ 

ایک رباعی میں اقبالؒ کہتے ہیں ؎ چو رومی در حرم دادم اذان من.....ازو آموختم اسرار جان من.....بہ دور فتنۂ عصر کہن، او.....بہ دور فتنۂ عصر روان من (مولانا رومیؒ کی طرح مَیں نے بھی حرم میں اذان دی اور لوگوں کو تقویٰ کی طرف بلایا، ان ہی سے مَیں نے زندگی کے اسرار و رموز سیکھے۔ پرانے زمانے میں جب مصیبت آتی تھی تو وہ وہاں ہوتے تھے۔ موجودہ دَور میں مشکلات سے نمٹنے کے لیے میں یہاں ہوں)۔ علّامہ اقبال کا مقدمہ بھی عقل پر رُوح کی فوقیت کا مقدمہ ہے اور یہی فکرِ رومی بھی ہے۔ 

مولانا رومی نے اپنے زمانے میں فطری فلاسفہ کی عقلِ محض پر تنقید کی اور علّامہ اقبال نے اپنے زمانے میں جدیدیت اور مادّیت پرستی پر تنقید کی اور باور کروایا کہ انسانی معاشرے کی بنیاد روحانیت ہے- دونوں کی فکر واضح کرتی ہے کہ مسلم تہذیب میں قومیت کی بنیاد روحانی اصولوں پر ہے، نہ کہ رنگ، نسل، جغرافیے یا زبان پر۔ رومی، شاعر سے زیادہ صوفی تصوّر کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب سے پہلے مشرق میں انتہائی مقبول رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمّد علامہ اقبال خود کو ان کا ’’مریدِ ہندی‘‘ اور مولانا کو ’’پیرِ رومی‘‘ کہتے ہیں۔ بقول اقبال ؎ نہ اُٹھا پھر کوئی رومی، عجم کے لالہ زاروں سے.....وہی آب و گِل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی۔ رومی، شاعر سے زیادہ صوفی تصوّر کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب سے پہلے مشرق میں انتہائی مقبول رہے ہیں۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراکِ حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبتِ تمام محبوبِ حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ 

رومی نے جوہرِ عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں؎ آدمی دید است باقی پوست است......دید آں باشد کہ دید دوست است۔؎ جملہ تن را در گداز اندر بصر.....در نظر رو در نظر رو در نظر۔علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے؎ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں.....ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں.....وادیِ عشق بسی دور و درازست ولی.....طی شود جادۂ صد سالہ بہ آہی گاہی ۔یاد رہے، 1960ء کی دہائی میں حکومتِ ترکی (اب ترکیہ) نے علّامہ اقبال کی اس گہری محبت کے اعتراف کے طور پر مولانا رومی کی قبر کے قریب علامہ اقبال کی ایک علامتی قبر بھی تعمیر کی، جس پر یہ الفاظ کندہ ہیں،’’یہ مقام پاکستان کے قومی شاعر علّامہ محمد اقبال کو دیا گیا ہے۔‘‘

قونیہ ، ترکی میں مولانا روم کا مزار اور میوزیم

مولانا روم ،تقریباً 68 برس کی عمر میں 1273ء میںراہئ ملکِ عدم ہوئے۔اُن کے مزار کی عمارت کے مرکزی دروازے پر حضرت ابو سعید ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کی ایک فارسی رُباعی کنندہ ہے؎ باز آ باز آ مہر آنچہ ہستی باز آ.....گر کافر و گر و بُت پرستی باز آ.....ایں در گہہ مادر گہ نومیدی نیست.....صد بار اگر توبہ شکستی باز آ۔ ترجمہ (تُو واپس آ، تُو واپس آ، تُو جو کچھ بھی ہے، واپس آ۔ اگر تُو کافر ہے، اگر تُو آتش پرست ہے اور اگر تُو بُت پرست ہے، تو بھی واپس آ جا۔ ہماری یہ درگاہ نااُمیدی کی درگاہ نہیں ہے۔ اگر تُونے سو بار بھی توبہ توڑی ہے، تو پھر بھی تُو واپس آ جا۔ ‘‘

مولانا روم کا مزار قونیہ میں ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے، جس کا رقبہ18000مربع میٹر ہے اور جو درگاہِ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمروں، لائبریری، تبرّکات کے کمروں، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچے اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ میوزیم، روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفے کے کُھلا رہتاہے۔ مولانا رومی نے ترکی کے شہر، قونیہ کو اپنا دائمی مسکن بناتے ہوئے فرمایا تھاکہ ’’قونیہ شہر کو ہم نے ’’مدينۃ الاولياء، کا لقب دے دیا ہے، اس شہر میں ولی پیداہوتے رہیں گے۔‘‘ 

ترکی کے اِسی خُوب صُورت و دل کش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار خُوب صُورت و دل کش تعمیر اور ڈیزائن کے لحاظ سے ایک منفرد مزار ہے۔ ظاہری خُوب صُورتی اور جاہ وجلال کے علاوہ انوار ِتجلّیات کے بھی کیا کہنے، حضرت مولانا روم کے مزار کے ایک حصّے میں اُن کے تبرّکات محفوظ ہیں، جن میں اُن کا لباس، جائے نماز، رومال، ٹوپیاں اور دو عدد جبّے سرِفہرست ہیں۔ واضح رہے قونیہ میں موجود اُن کا یہ مزار ہزاروں عقیدت مندوں سے بَھرا رہتا ہے۔

مولانا رومی..... بین الاقوامی سال: 2007ء میں ان کے 800ویں جشن ولادت پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس، یونیسکو نے بین الاقوامی سطح پر اس سال کو رومی کا سال قرار دیا اور اس موقعے پرایک تمغا بھی جاری کیا۔