• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: ربیعہ، منال، مسکان

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو (ڈی ایچ اے، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

ادب کا نوبل پرائز حاصل کرنے والے، چلی کے معروف و منفرد شاعر، پابلو نرودا کی ایک خُوب صُورت نظم "You Start Dying Slowly" کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’’آپ آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں، اگر کوئی نیا سفر اختیار نہیں کرتے، اگر کوئی نئی تخلیق نہیں پڑھتے، اگر زندگی کی آوازیں سُننا بند کردیتے ہیں، اگر خُود اپنی تعریف کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں، جب اپنی عزتِ نفس مجروح کردیتے ہیں، جب دوسروں کو اپنی مدد کی اجازت نہیں دیتے۔ 

آپ آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں، اگر اپنی عادات کے غلام بن جاتے ہیں، اگر روزانہ ایک ہی رستے پر چلتے رہتے ہیں، اگر اپنے معمولات میں تبدیلی نہیں لاتے، اگر نئے رنگ پہننا چھوڑ دیتے ہیں، اگراجنبی لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ آپ آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں، اگر اپنے جذبات و احساسات کُچل دیتے ہیں، اپنے اندر کے طوفانوں پر بند باندھ دیتے ہیں، آنکھوں کو روشنی بخشنے، دل کے تار چھیڑ دینے والی باتوں، خوشیوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ آپ آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں،اگراپنی زندگی بدلنےکی کوشش نہیں کرتے، جب کہ آپ اپنے کام، اپنی محبّت سے مطمئن بھی نہ ہوں۔ 

آپ آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں، اگر محض اَن جانے خدشات کے سبب، خطرات مول لینے سے گھبراتے ہیں، خوف کے زیرِ اثر نئے خوابوں کو پلکوں پر اُترنے نہیں دیتے، اگر زندگی میں ایک بار ہی سہی، خُود کو عقل و دانش سے دُور بھاگنے کی اجازت نہیں دیتے، خُود کو مجبور نہیں کرتے۔‘‘ واقعی، کیسی سَچّی سُچّی، سیدھی دِل، رُوح کی گہرائیوں میں اُترتی باتیں ہیں اور شاید یہ ہر دوسرے دل کی کہانی ہو، مگر ایسی باتیں جچتی صرف اُن ہی پر ہیں، جن کے لیے زندگی، محض جیے چلے جانے ہی کا نام نہیں۔ 

ہم جیسے تیسری دنیا کے لوگ، جن کی پوری حیاتی روزی روٹی کی دوڑ دھوپ، دو جمع دو کے حساب کتاب ہی میں خرچ ہوجاتی ہے، وہ تو آہستہ آہستہ ہی نہیں، یک دَم بھی مرجاتے ہیں۔ چلتے چلتے ڈھے سکتے ہیں، بیٹھے بیٹھے لڑھک سکتے ہیں۔ سوتے سوتے مرجاتے ہیں، تو جاگتے جاگتے بھی دارِ فانی سے کُوچ کرجاتے ہیں، جب کہ آہستہ آہستہ مرنا تو گویا اُن کا مقدّر ٹھہرا، وگرنہ کون ہوگا، جو اِس دنیا میں واقعتاً زندہ رہنے، جی بَھرجینے کا خواہش مند نہ ہو۔ وہ خمار بارہ بنکوی کی ایک غزل بھی ہے ناں ؎ ’’اِک پَل میں اِک صدی کا مزہ ہم سے پوچھیے..... دو دن کی زندگی کا مزہ ہم سے پوچھیے..... بُھولے ہیں رفتہ رفتہ اُنہیں مدّتوں میں ہم..... قسطوں میں خود کُشی کا مزہ ہم سے پوچھیے..... آغازِ عاشقی کا مزہ آپ جانیے..... انجامِ عاشقی کا مزہ ہم سے پوچھیے..... جلتے دِیوں میں جلتے گھروں جیسے ضَو کہاں..... سرکار، روشنی کامزہ ہم سے پوچھیے.....ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح..... ہنسیے، مگر ہنسی کا مزہ ہم سے پوچھیے۔‘‘

تو بھئی، ہم سے تو اِس دو دن کی پہاڑ جیسی زندگی، قسطوں میں خود کُشی کا مزہ ہی پوچھیے۔ ہم Suffer سے نکلیں، تو کوئی نیا سفر کریں۔ نئی تخلیقات خریدنے جوگے (کے لائق) ہوں، تو پڑھیں بھی۔ کبھی سحرانگیز ماحول، طمانیتِ قلب میسّر ہو، تو زندگی کی آوازیں بغور سُنیں، اپنی طرف دیکھنے، خُود کو بنانے سنوارنے کی فرصت ملے، تو کوئی اپنے گُن بھی گائے۔ ہم اپنے معمولات میں تبدیلی کس طور لائیں، اپنے رستے کیسے بدلیں کہ جب ہمیں روز کنواں کھودنا، روز پانی نکالنا ہے۔ 

جب اپنے جذبات و احساسات کچلنے، اندر کے طوفانوں پر بند باندھنے، خواہشوں، خوابوں کو مرتے دیکھنے، سُکون آور، سُرور بخش چیزوں سے کنارہ کشی کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو، تو پھر کوئی کیسے یہ سب نہ کر گزرے۔ ہم میں سے چند ایک ہی ہوں گے، جو اپنے کام، اپنی محبتّوں سے سو فی صد مطمئن، راضی ہوں گے، مگر ہم اُن سے دست برداری کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ تو گویا ہمارے لیے توآہستہ آہستہ مرنا لازم ہی ٹھہرا۔ ہاں، یہ ضرور ہےکہ اگرہم بحیثیتِ قوم، مجموعی طور پر کبھی اُٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیں۔ تو کم ازکم ہماری آنے والی نسلیں اِس سِلو پوائزننگ، قسطوں میں خودکُشی، لمحہ لمحہ مرتی زندگی سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔

تو چلیں، پہل کے طور پر آج عقل و دانش سے بہت پَرے، کچھ دل کی سُن، مان کے دیکھتے ہیں۔ وہ اقبال نے بھی کہا تھا ناں کہ ؎ ’’مجنوں نے شہر چھوڑا، تو صحرا بھی چھوڑ دے..... نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے..... تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کُشی..... رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے..... لُطفِ کلام کیا، جو نہ ہو دل میں دردِ عشق..... بسمل نہیں ہے تُو، تو تڑپنا بھی چھوڑ دے..... شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل..... اِس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے..... اچھا ہے، دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل..... لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے۔‘‘ سو، بس آج دماغ کی نہیں، اپنے دل کی سُنتے، مانتے ہیں کہ آج ہماری بزم بھی تو روٹین سے کافی ہٹ کے ہی ہے۔ 

ذرا تین مختلف عُمروں کی ’’ہم جولیوں‘‘ کا گٹھ جوڑ تو دیکھیں۔ تینوں ہی اِس قدر سَج سنور کے کس قدر شاداں و فرحاں، مست مگن ہیں۔ ایک طرف ’’میچنگ سیپریٹس‘‘ کےکیژول سے انداز کو خُوب انجوائے کر رہی ہیں، تو دوسری طرف نسبتاً بھاری تقریباتی پہناووں، سولہ سنگھار کے ساتھ بھی بہت خُوش باش ہیں۔ 

مطلب آج اگر ایک طرف ہماری محفل، جگر مُراد آبادی کے شعر ؎ ’’سبھی اندازِ حُسن پیارے ہیں..... ہم مگر سادگی کے مارے ہیں‘‘ کی عملی تفسیر ہے، تو دوسری طرف فاضل جمیلی کا شعر ؎ ’’خوشی ہوئی ہے آج تم کو دیکھ کر..... بہت نکھر، سنور گئے ہو، خوش رہو‘‘ بھی مجسّم سا دکھائی دے رہا ہے۔