روزنامہ جنگ کے کالم نگار وجاہت مسعود کے ساتھ نظریاتی وفکری اختلافات کے باوجود باہمی احترام کا ایک تعلق ہے جسے ہم نے ٹاک شوز اور مذاکرات ومجالس میں ہمیشہ مدنظر رکھا ہے، اگرچہ روزنامہ جنگ نے کبھی پاکستان کی نظریاتی اساس کے محافظ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی اسے کسی خاص فکرکا ترجمان اخبار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم صحافتی وعلمی حلقوں میں اس کے کالم نگاروں کو جو حوالہ جاتی مقام حاصل ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس کا کوئی بھی کالم نگار علمی بددیانتی پر مبنی یک طرفہ پروپیگنڈے کیلئے اپنے کالم کو مستقل استعمال نہ کرے لیکن ایک عرصہ سے پاکستان کی جغرافیائی ونظریاتی اساس کو کھوکھلا کرنے کیلئے ایک کالم نگار کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔اب تک وجاہت مسعود نے مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ۔ قرارداد مقاصد اور بانیان پاکستان کے بارے میں صریحاً جھوٹ پر مبنی جو کالم لکھے ہیں ان کی سطر سطر اور حرف حرف سیکولر طبقہ کی اپنی نظریاتی ہزیمت پر شدید جھنجھلاہٹ اور احساس شکست کی عکاس ہے۔ روزنامہ جنگ نے اپنے کالم نگاروں پر ایک ہزار الفاظ کی پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن فاضل کالم نگار کو اس سے آزاد کر رکھا ہے کہ وہ گزشتہ سے پیوستہ لکھ کر کالم نہیں مقالہ لکھ رہے ہیں۔ صحافت کے اساتذہ کرام محترم الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر مجاہد منصوری، محترم سہیل وڑائچ، محترم محمود شام صاحب ودیگر ہم جیسے طالبان(علم) کی رہنمائی فرمائیں۔ کیا یہ کالم ہے؟ اور کیاقصہ گل بکاؤلی جیسی ان تحریروں پر کالم ہونے کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔میں آغاز 22 جولائی 2024ء کے محترم وجاہت مسعود کے کالم سے کروں گا اور اگر روزنامہ جنگ کا پیمانہ صبر لبریز نہ ہوا تو ہماری طرف سے ان شاء اللہ یہ قلمی جنگ مسلسل جاری رہے گی۔مقالہ میں بھی لکھ سکتا ہوں بلکہ میرے پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضوع بھی مولانا مودودیؒ کے سیاسی افکار ہے۔ اپنے موجودہ کالم کے اختتامی حصہ میں انہوں نے لکھا ’’قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں پاکستان کے بارے میں مودودی صاحب کے افکار تاریخ کا حصہ ہیں‘‘ ملاحظہ فرمایئے۔ مسلم لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے (ترجمان القرآن جلد 28 صفحہ نمبر145)اور اس کے بعد انہوں نے اسی طرح کے آٹھ دس جملے اور ان کے حوالے بھی لکھے ہیں، پڑھنے والا متاثر ہوتا ہے کہ فاضل کالم نگار نے بڑی تحقیق کی ہے، حالانکہ یہ پچاس کی دہائی میں شائع ہونے والا ایک یک ورقہ ہے جس پر نہ کسی تنظیم کانام ہے نہ کوئی پرنٹ لائن۔وجاہت مسعود صاحب کا مبلغ علم وہ ایک پوسٹر نما یک ورقہ ہے جس کا ایک بھی حوالہ درست نہیں۔ یہ پوسٹر جس نے بھی تیار کیا اس نے یوں ہی شمارہ نمبر، صفحہ نمبر درج کر دیئے کہ کس نے دیکھنا اور کس نے چیک کرنا ہے۔ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک سیکولر دانشور اور صحافت کے استاد (نام نہیں لکھ رہا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں) نے پورے طمطراق سے کہا کہ مولانا مودودیؒ نے قائد اعظم کو کافر اعظم لکھا ہے اور میرے پاس وہ اصل حوالہ موجود ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ آئندہ ٹاک شو میں وہ حوالہ لے آئیں اور ناظرین کو دکھائیں۔ ٹی وی والوں سے تاریخ طے ہو گئی کہ اس تاریخ پر ہم دونوں آئیں گے اور دانشور صاحب اصل کتاب لے آئیں گے۔ مقررہ تاریخ سے پہلے مجھے ٹی وی والوں کا فون آیا کہ آپ فلاں تاریخ پر آ جائیں۔ میں نے کہا کہ ہم دونوں لاہور میں ہیں۔ آپ اسلام آباد کی بجائے لاہور میں پروگرام رکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ پروگرام اسلام آباد سٹوڈیو کا ہے آپ یہاں ہی آئیں۔ میں نے کہا کہ آپ دانشور صاحب سےپوچھ لیں کہ وہ لازماً آئیں میرا سفر رائیگاں نہ جائے۔ ٹی وی والوں نے یقین دلایا کہ ہماری ان سے پکی بات ہو چکی ہے وہ لازماً آئیں گے اور کتاب ہمراہ لائیں گے۔ میں ریکارڈنگ کے وقت مقررہ پر پہنچ گیا۔ اب وہ دانشور صاحب کو فون کر رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنا فون بند کر رکھا ہے۔ میں ایک گھنٹہ انتظار کرتا رہا۔ نہ وہ آئے، نہ انہوں نے فون کھولا، کتاب ہوتی تو وہ لاتے۔یہی معاملہ وجاہت مسعودکا ہے، میں ان کو بھی یہی چیلنج کرتا ہوں کہ انہوں نے علمی بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہوئے ترجمان القرآن کے حوالے دیئے ہیں اگر ان کے پاس اصل رسائل ہیں تو وہ لے آئیں اور پھر ہم جیو ٹی وی سے اس علمی مناظرےکی درخواست کریں۔ میں بھی حاضر ہو جاؤں گا تا کہ پمفلٹوں سے پڑھے ہوئے حوالہ جات کے ذریعہ علمی رعب جمانے کا یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند ہو سکے۔اپنے 22 جولائی والے کالم میں محترم وجاہت مسعود نے مولانا مودودیؒ کے تعارف کے ضمن میں میاں محمد شفیع(م ش) کے حوالے سے دو تین سطور تحریر کی ہیں لیکن ان کی تحریر کو ادھورا چھوڑ کر پھر خضر حیات خان صاحب کے حوالہ سے غلام احمد پرویز کو بوجوہ سارے معاملے کی مرکزی شخصیت قراردے دیا ہے لیکن اس معاملہ کاکوئی حوالہ نہ وجاہت مسعود صاحب نے دیا، نہ خضرحیات نے۔جبکہ میاں محمد شفیع (م ش) تو تحریک پاکستان کیلئے سرگرم عمل نوجوان صحافی تھے انہوں نے ’’ہفت روزہ‘‘ اقدام ’’لاہور (9 جون 1963) میں ’’لاہور کی ڈائری‘‘ میں تحریر کیا’’مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوں کی ضد تھے اور میں یہاں پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علامہ اقبالؒ کی زبان سے کم وبیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی ان کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے‘‘ جہاں علامہ اقبالؒ بالکل واضح طور سے آزاد اور مدنی کے نقّاد تھے وہاں وہ مولانا کا ’’ترجمان القرآن‘‘ جستہ جستہ مقامات سے پڑھوا کر سننے کے عادی تھے اور اس امر کے متعلق تو میں سو فیصدی ذمّہ داری سے یہ بات کہہ سکتاہوں کہ علامہ نے مولانامودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدرآباد(دکن) کے بجائے پنجاب کو اپنی سر گرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی بلکہ وہ خط اُنہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا‘‘۔ (جاری ہے)