• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالباً آٹھ، دس سال ادھر کی بات ہے۔ کے الیکٹرک کو نہ جانے کیا ہوگیا تھا۔ انہوں نے ملک کے ایسے اداروں سے ہم سری کی ٹھان لی جو ملک کے شاعروں، ادیبوں، محققوں اور کھلاڑیوں کو انعاموں، اکراموں سے نوازکر خود بھی سرخرو ہوتے تھے اور نام کماتے تھے۔ کے الیکٹرک نے پہلے اس نوعیت کا کبھی کوئی کام نہیں کیاتھا۔ بات کچھ یوںتھی کہ انگریز کے دور کی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی KESC نے اپنی کارکردگی کے ایک سو سال مکمل کرلیے تھے۔ نئی مینجمنٹ نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو کے الیکٹرک K.Electric کا نام دیا۔ نئی مینجمنٹ نے ڈھائی، تین کروڑ کے شہر کراچی سے بیس،پچیس اشخاص کا انتخاب کیا، جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نام کمایا تھا۔ ان کو لقب دیا Pride of karachi کراچی کی شان، فخر کراچی، ملنے والی خوب صورت شیلڈ یا ملنے والے انعام پر آپ کا کام اور نام کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔ Pride of karachi ۔ان اشخاص میں کچھ اس قدر نامور لوگ تھے کہ انعاموں، اکراموں سے بالاتر تھے۔ ان کا وجود کراچی کی شان تھا، کچھ نام میں آپ کو گنوا دیتا ہوں، سب سے پہلے حنیف محمد، انیس سو پچاس کے غیر معمولی اوپننگ بیٹس مین، سندھ مدرسہ اسکول میں میٹرک اسٹوڈنٹ تھے۔ تب کہا جاتا تھا کہ جب تک حنیف محمد سے بیٹنگ کرتے ہوئےغلطی نہ ہوجائے، دنیا کے اچھے سے اچھے فاسٹ اور سلو بالر ان کو آئوٹ کرنے کے تمام گر آزماتے تھے، مگر حنیف محمد کو آئوٹ نہیں کرسکتے تھے۔ ان ہی دنوں میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں پانچ سو رنز کی اننگ مکمل کرنے کیلئےحنیف محمد چار سو ننانوے کے اسکور پر رن آئوٹ ہوگئے تھے۔ کچھ برس بعد حنیف محمد نے ویسٹ انڈیز میں پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران ویسٹ انڈیز کے خلاف کرشمہ کرکے دکھایا تھا۔ حنیف نے ایک ایسی غیر معمولی اننگ کھیلی، جس کی مثال نہیں ملتی۔ ویسٹ انڈیز نے اپنی پہلی اننگ میں پانچ سو رنز بنائے تھے۔ دوسرے روز پاکستان کی پوری ٹیم ایک سو چھ رنز پر آئوٹ ہوگئی تھی۔ اننگ کی شکست سے بچنے کیلئے پاکستان کو تین سو چورانوے رنز کی ضرورت تھی اور چھ روزہ ٹیسٹ میں چار دن ابھی باقی تھے۔ تب حنیف محمد نے کرشماتی اننگ کھیلی تھی۔ حنیف محمد ویسٹ انڈیز کے تیز ترین بالرز کے خلاف لگا تار چار روز تک بیٹنگ کرتے رہے۔ انہوں نے تین سو سینتیس337رنز بنائے اور پاکستان کو یقینی شکست سے بچالیا تھا۔ کے الیکٹرک کی Pride of karachi کی فہرست میں حنیف محمد کا نام سب سے نمایاں تھا۔ میں خواہ مخواہ کسی قسم کی کانٹراورسی میں پڑنا نہیں چاہتا۔ بصداحترام اور عزت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ قائداعظم کے بعد کراچی کی سب سے نمایاں شخصیت حنیف محمد کی تھی، ہے اور رہے گی۔ وہ پرائیڈ آف کراچی تھے۔ پرائیڈ آف کراچی ہیں اور صدیوں تک پرائیڈ آف کراچی رہیں گے۔ کے الیکٹرک کی طرف سے اعزاز دینا اور دینے کے بعد اعزاز واپس لینے سے حنیف محمد کا کچھ نہیں بگڑے گا۔

مہدی حسن کے بارے میں لتا منگیشکر نے کیا کہا تھا؟ نوشاد نے کیا کہا تھا؟ استاد بڑے اور استاد چھوٹے غلام علی خان نے ان کے بارے میں کیا کہا تھا؟ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے، وہ شہنشاہ غزل تھے۔ جس، جس شاعر کو انہوں نے گایا، اس شاعر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ کے الیکٹرک کی پرائیڈ آف کراچی کی فہرست میں مہدی حسن کا نام شامل تھا۔ فہرست میں معین اختر کا نام شامل تھا۔ فہرست میں مشتاق احمد یوسفی بھی تھے۔ کراچی کے علاوہ ملک بھر میں لوگوں کی خدمت کرنے والے عبدالستار ایدھی بھی پرائیڈ آف کراچی کی فہرست میں شامل تھے۔ بہت ہی نامور اشخاص کو پرائیڈ آف کراچی کا خطاب دیا گیا تھا۔ حکیم محمد سعید، جون ایلیا، زہرا نگاہ، اختر حمیدخان، ڈاکٹر عابد رضوی اور جہانگیر خان جیسے لوگوں کو فخر کراچی، یعنی پرائیڈ آف کراچی کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ فہرست میں چوبیس اشخاص کے نام تھے۔

کراچی کی سب سے دلکش عمارت موہٹہ پیلس میں صدسالہ تقریب کا عالی شان اہتمام کیا گیا تھا۔ گورنر سندھ عشرت العباد مہمانِ خصوصی تھے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو نیا نام کے الیکٹرک دیا گیا۔ اسی حوالے سے چوبیس اشخاص کو پرائیڈ آف کراچی کا خطاب دیا گیا۔ دیگر اداروں کے برعکس کے الیکٹرک نے انعام یافتہ اشخاص کو تحریری اقرار نامہ دیا۔ اقرار نامہ کے مطابق’’ پرائیڈ آف کراچی‘‘ پانے والوں کو زندگی بھرکیلئے مفت بجلی فراہم کی جائے گی۔دس برس تک معاملہ خوش اسلوبی سے چلتا رہا۔ پھر اچانک نہ جانے کیاہوا کہ کے الیکٹرک نے پاکستان کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز باب کا اضافہ کردیا۔ مختلف اداروں کو اپنی حکمت عملی سے حیران کردیا۔ کے الیکٹرک نے پرائیڈ آف کراچی کو کالعدم قرار دے دیا۔ پرائیڈ آف کراچی کا ٹائٹل نامور لوگوں سے واپس لے لیا۔

پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ا دارے نے دینے کے بعد اپنا انعام، اعزاز، عزت، فضلیت واپس لے لی ہو۔ پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کے بعد آج تک کسی سے واپس نہیں لیا گیا۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور معتبر ادبی انعام، کمال فن دے کر کسی سے آج تک واپس نہیں لیا گیا۔ کے الیکٹرک نے پرائیڈ آف کراچی کا اعزاز واپس لے کر پاکستان کی تاریخ میں منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اعزازات دینے والے کسی ادارے نے ایسا کمال آج تک کرکے نہیں دکھایا۔

تازہ ترین