(گزشتہ سے پیوستہ)
دارالاسلام پٹھان کوٹ اور چوہدری نیاز علی صاحب مرحوم کے حوالے سے بھی وجاہت مسعود نے جتنی بات لکھی ہے وہ مبنی بر صداقت نہیں۔ میں ان شاء اللہ اسکی بھی پوری تفصیل فراہم کروں گا۔وجاہت صاحب نے مولانا ظفر احمد انصاری کابھی ادھورا حوالہ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا ظفراحمد انصاری، آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری، اسکی مجلس عمل اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکرٹری کی حیثیت سے حضرت قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے نہایت معتمد رفیق تھے۔ چراغ راہ کے ”نظریہ پاکستان نمبر“ میں ”تحریک پاکستان اور علماء“ کے زیر عنوان انہوں نے لکھا ”اس موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ”مسئلہ قومیت“ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین لکھا جو اپنی دلائل کی محکمی،زورِ استدلال اور زور بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور جسکا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کیساتھ مسلمانوں میں ہو گیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جُداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی کیساتھ پھیلنے لگا۔ قومیت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اسکی ضرب کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوؤں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے اُنکی جداگانہ قومیّت کا احساس کسی طرح ختم کر کے انکے مِلّی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے تا کہ عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں اور ا پنے دین وایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں“۔یہ ہے مولانا ظفراحمد انصاری کی اصل تحریر جو میں نے نقل کی ہے یہ چراغ نظریہ پاکستان میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔اسی طرح وجاہت مسعود نے کے ایم اعظم صاحب کے حوالے سے یہ ثابت کرنا چاہا کہ مولانا مودودیؒ نے پاکستان کے حق میں ووٹ دینے سے منع کیا تھا۔ کے ایم اعظم کون ساحوالہ ہیں؟ انہوں نے جو واقعہ بھی لکھا ہے وہ بھی محض تخیلاتی ہے۔ ورنہ مولانا مودودیؒ نے نہ تو قدرت اللہ شہاب کے کسی کلب میں شرکت کی، نہ وہاں تقریر کی۔ نہ وہاں کے ایم اعظم نے کوئی سوال کیا۔مولانا مودودیؒ کے پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے متعدد حوالہ جات میں سے میں سید شریف الدین پیرزادہ کی کتاب Evolution of Pakistan کا حوالہ دونگا۔ وہ لکھتے ہیں صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں بھی مولانا مودودیؒ نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کی حمایت کی اور کہا ”اگر میں صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا اسلئے کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیّت کی بنیاد پر ہو رہی ہے تو لامحالہ اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو، اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔(سہ روزہ کوثر 5جنوری 1947ء، رسائل ومسائل جلد اوّل ص 363)۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے مسئلہ قومیت کتاب لکھ کر وطن کی بنیاد پر قومیت کے تصور پرکاری ضرب لگائی اور دو قومی نظریہ کو قرآن وسُنت کے استدلال سے واضح کیا جسے یوپی کی مسلم لیگ نے ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی طرف سے قمر الدین خاں نے حضرت قائد اعظمؒ سے ملاقات کی۔قمر الدین خاں اس وقت جماعت اسلامی کے انتظامی امور کے انچارج تھے، انگریزی ہفت روزہ تھنکر 27دسمبر1963 ء کے آرٹیکل The Quaid-e-Azam by Reminson کے مطابق قمر الدین خاں 1941ء میں مولانا مودودیؒ کے ایما پر قائد اعظمؒ سے ملے۔ 45 منٹ کی اس ملاقات میں قائد اعظم بڑے صبر کے ساتھ قمر الدین کی بات سنتے رہے، اس کے جواب میں قائد کا مؤقف تھا کہ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو وہ نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد ریاست کا حصول اس کی زندگی اور کردار کی تطہیر سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت کے پیش نظر یقیناً ایک اعلیٰ مقصد ہے لیکن میرے پیش نظر تو فوری حل طلب مسئلہ یعنی آزادی اور قیام پاکستان ہے، پاکستان بن جائے تو جماعت اسلامی اپنے مقاصد کیلئے بہتر کام کر سکتی ہے۔وجاہت مسعود جیسے سیکولر دانشوروں کا اصل غصہ قرارداد مقاصد پر ہی نہیں خود پاکستان کے وجود پر ہے۔ اسلئے کہ خودپاکستان کا وجود ہی سیکولرازم کی نفی ہے اور یہ کہ سیکولرازم تو بھار ت میں بھی تھا اور ہے صرف اس مقصد کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ اور اس کیلئے حضرت قائد اعظم کی قیادت میں اسلامیان برصغیر کی بے مثال اور لازوال تحریک پاکستان بے معنی اور بے اصل تھی۔ تحریک پاکستان کا مطالبہ نہ علاقہ تھا، نہ زبان اور نہ نسل۔ اگر یہ ہوتا تو مشرقی پنجاب و مغربی پنجاب اور مشرقی بنگال ومغربی بنگال کی تقسیم بھی نہ ہوتی۔ دونوں طرف ایک جیسی زبان ایک جیسا لباس ایک جیسی نسلیں (جاٹ،راجپوت وغیرہ) تھیں۔ اگر پاکستان اسلام کے نظریے پر نہ بنتا تو یو پی سی پی والے پاکستان کے حق میں ووٹ کیوں دیتے کہ ان کے علاقے نے تو کبھی پاکستان میں شامل ہونا ہی نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان پاکستان کا حصہ نہ ہوتا کہ مغربی ومغربی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ اور درمیان میں دشمن ملک تھا۔پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ۔۔ محض نعرہ نہیں تھا، قوم کی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو تھا۔ آزادی وطن کا منشور تھا۔ پاکستان کیلئے گھر بار قربان کرنے اور ہندوؤں سکھوں کی تلواروں کرپانوں سے کٹے ہوئے لاشوں کا جذبہ حریت اور شوق شہادت تھا۔ (جاری ہے)