• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ گزشتہ ماہ کی اُنّیس تاریخ کی بات ہے۔ پشاور کے علاقے یکہ توت میں سوشل میڈیا پر پوسٹنگ کے معاملے پرتین افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دو فریقوں کے درمیان فائرنگ سےپانچ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف مضحکہ خیز مواد شیئر کرنے پر پیش آیا۔

گزشتہ برس مئی کی 28 تاریخ کو ٹک ٹاک پر لائیو اسٹریمنگ کے دوران سوشل میڈیا چیلنج نےایک چینی نوجوان کی جان لے لی تھی۔چینی سوشل میڈیا انفلوئنسر سنکیانگ ’’پی کے‘ ‘نامی ایک آن لائن چیلنج کے دوران اپنے چیلنجر کو ہرانےکے لیے30سے60 فی صد الکوحل پر مشتمل چینی ساختہ اسپرٹ’ ’بیجیو‘‘ کی کئی بوتلیں پی گیا تھا۔

یہ سوشل میڈیا کے صرف دو ’’کمالات‘‘ہیں، ورنہ یہ ’’جِن‘‘روزانہ ایسے متعدد ’’کمالات‘‘ دکھاتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سے افراد اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا دراصل دنیا بھر کے لوگوں کے دماغ کنٹرول کرنے کی ایک عالمی سازش ہے۔ لیکن یہاں ہم ایسے سازشی نظریات کی صحت کی جانچ پڑتال کرنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتے ،تاہم سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے انسان اور اس کے اردگرد کے حالات و واقعات پر اثرات کے ضمن میں ضرور ایک مختصر سا جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔

بہت کچھ بدل دیا

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تیرہ، چودہ برسوں میں ایک شئے جو دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں، معاشرتی رویوں، سرکاری پالیسیز اور سیاست پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی ہے، وہ ہے سوشل میڈیا۔ عرب اسپرنگ کے نام سے مشہور مشرقِ وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے لے کر روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی تک، شام کی خانہ جنگی سے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عروج و زوال تک اور امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات سے لے کر کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل تک، جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں ہونے والے بڑے واقعات سامنے آئے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئیں، وہیں سوشل میڈیا خود بھی ان برسوں میں ارتقا کے مراحل سے گزرا۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بڑی تبدیلی سنہ 2010 کے بعد سے دیکھنے میں آئی، جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔اس سے پہلے تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے بجائے روایتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی اپنے پیغامات کا پرچار کرتی تھیں لیکن مذکورہ برسوں نے سب کچھ بدل دیا۔

’’جِن ‘‘پو قابو پانے کی کوشش

اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا کہ اس کامثبت کرداربھی ہے، لیکن یہ بھی ٹھوس حقیقت ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس دنیا بھر میں بہت سےسماجی، اخلاقی، سیاسی، طبّی اور اقتصادی مسائل کا سبب بھی بن چکی ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ دنیا کے مختلف خِطّوں میں اس کے اثرات مختلف اقسام کے ہیں ۔تاہم بعض اثرات پوری دنیا میں ایک ہی طرح کے ہیں، مثلا سماجی اورطبّی نوعیّت کے۔

آج دنیا کی تقریباً نصف آبادی سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ مغربی اور شمالی یورپ میں دس میں سے نو افراد فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، وی چیٹ یا ملتے جلتے نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن دوستوں اور مشہور شخصیات کو آن لائن فالو کرنا اور ان کے ساتھ اپنی زندگی کا موازنہ ہمیں زیادہ پریشان کر رہا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا بہت زیادہ استعمال کرنے والے اضطراب اور ڈپریشن جیسی دماغی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان خواتین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انہیں زیادہ محتاط کر دیتا ہے کہ وہ کس طرح دکھائی دیتی ہیں۔ 

گرل گائیڈنگ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ سات سے دس سالہ بچوں کی ایک تہائی تعداد کا کہنا ہے کہ جب وہ آن لائن ہوتے ہیں تو اوروں کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ کس طرح نظر آتے ہیں۔ تقریباً ایک چوتھائی کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر بےعیب نظر آنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب دنیا بھر کے لوگ سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ویب سائٹس انہیں رائےکے اظہار کا موقع فراہم کرتی اور تنہائی کے شکار لوگوں کو جذباتی سہارا تلاش کرنے کا راستہ مہیا کرتی ہیں۔وہیں بہت سے افراد یہ شکایت کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ سوشل میڈیا زندگی کا حصہ توبن چکا ہے، لیکن یہ عام زندگیوں پربری طرح اثر انداز ہورہا ہے۔اس کے بے جا استعمال سے نہ صرف ڈپریشن میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ احساس تنہائی بڑھتا جارہا ہے۔

یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کے ہزاروں کی تعداد میں دوست ہوتے ہیں، ان سے مباحث ہوتے ہیں، تصاویر کا تبادلہ ہوتا ہے، تاہم کیا یہ رابطے یا رشتے ان دوستیوں یا رشتہ داریوں کا نعم البدل ہو سکتے ہیں جو ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ہم ان کا وقت بھی سوشل میڈیا کو دیے جا رہے ہیں؟

ہر روز مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر روزانہ کی بنیاد پرسیکڑوں گالیاں، اخلاق باختہ کمنٹس اور پوسٹس کی جاتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ سوشل میڈیا پرعام ہے۔ ماں بہن کی گالی یا اس کا مخفف تو اب عام زبان کا حصہ بن چکا ہے جس پر کسی کو حیرت ہی نہیں ہوتی۔

ان حالات میں دنیا بھر میں ادارے ایک دہائی سے سوشل میڈیا کے بارے میں اپنی پالیسیز مرتب کر رہے ہیں اور اس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں۔ اس کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے جن کو قابو کرنےکے بارے میں مباحث جاری ہیں اور حکومتیں اپنے طورپر اسے قابو کرنےکےلیے اقدامات اٹھانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے کافی کام ہو رہا ہے۔

سب اچھا، ڈپریشن، غلط خبریں

دماغی صحت پر سوشل میڈیا کے طویل مدتی اثرات کا جائزہ لینے والی تحقیق سے عیاں ہے کہ اس پر بہت زیادہ وقت گزارنے والے ڈپریشن، اضطراب، تنہائی اور دوسری منفی چیزوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو تصاویر دکھائی دیتی ہیں ضروری نہیں کہ وہ حقیقی ہوں اور ان کے لیے فلٹر وغیرہ استعمال نہ کیے گئے ہوں، اس لیے کسی کا اپنے ساتھ موازنہ نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ اسی طرح سب لوگ اپنی زندگی کی جھلکیوں میں زیادہ تر روشن پہلو ہی نمایاں رکھتے ہیں اور منفی چیزوں کو شیئر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جس سے صارف کو لگتا ہے کہ ساری پریشانیاں صرف اسی کے مقدّر میں ہیں اور باقی دنیابہت خوش اور خوش حال ہے،فکر کا یہ انداز آگے چل کر مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ پنسلوانیا یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک،ا سنیپ چیٹ اور انسٹاگرام کا زیادہ استعمال کسی حد تک ’’تنہائی‘‘ کے احساس کو بڑھاتا ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسانوں کے ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے بالمشافہ رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ شخص، جس سے آپ کی ملاقات اور بات چیت آپ کے لیے اطمینان کا باعث ہے، اس سے آن لائن چیٹ یا اس کا کوئی میسیج پڑھنا ،آپ کے لیے وہ کام نہیں دے سکتا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ہر وقت بہت سی پوسٹس گردش میں رہتی ہیں جن میں ادھورے سچ ، توڑ مروڑ کر پیش کی گئی باتیں اور خبریں اور افواہیں بھی شامل ہوتی ہیں اور بعض اوقات کسی بات یا خبر کو اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے بھی شیئر یا پوسٹ کیا جارہا ہوتا ہے۔ایکس یا ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز پر بھی تکلیف دہ افواہیں پھیلائی اور جھوٹے ٹرینڈزچلائے جاتے ہیں جن کے جذباتی و نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔

خطرات اور خواتین

ویسے تو سوشل میڈیا کے عادی افراد سارا دن ہی اس سے جڑے رہتے ہیں، تاہم رات کے وقت دیر تک آن لائن رہنا پڑتا ہے، جس سے نیند متاثر ہوتی ہے اورلیپ ٹاپ اور فون کی ا سکرین کو دیر تک دیکھنے سےبصارت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ماہرین ہر وقت سوشل میڈیا سے جڑے رہنے کو منفی قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے وقت مخصوص کرنے پر زور دیتے ہوئے مناسب استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ویسے تو خواتین کو دنیا بھر میں ہی انٹرنیٹ کی دنیا میں دھمکی آمیز رویوں کا سامنا ہے، لیکن پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں انہیں ایک انفرادی خطرے کابھی سامنا ہے۔یہ ایک ایسا معاشرہ ہے، جہاں مردوں کی جانب سے خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں اورتوہین مذہب کے الزامات بھی تلوار کی طرح لٹکتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انٹرنیٹ پر چلائی جانے والی مہمات کے ذریعے پیدا ہونے والے تشدد کے خلاف قانون کا نفاذ انتہائی کم زور ہے۔ 

ان حالات میں انٹرنیٹ کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بڑی انٹرنیٹ کمپنیز کو اپنے صارفین کے تحفظ کے لیے وسیع تر اقدامات اٹھانے چاہییں۔

دوسری جانب ایک انٹرنیٹ رائٹس گروپ کے مطابق فیس بُک اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیز خواتین کے خلاف انٹرنیٹ پر دھمکی آمیز رویوں کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے میں سست روی سے کام لے رہی ہیں۔

مذکورہ گروپ کے مطابق تیکنیکی دُنیا کی یہ جدتیں خواتین کے خلاف تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ آج ہم جتنے جرائم دیکھ رہے ہیں، ان میں سے بیش تر ان تیکنیکی طریقوں کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے ہیں۔ خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے بہت کم واقعات رپورٹ کیے جاتے ہیں ۔ ایسے کیس رپورٹ کر بھی دیے جائیں تو پولیس شاذ و نادر ہی کارروائی کرتی ہے۔

منفی اور مثبت اثرات

سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں الیکٹرانکس کے شعبے میں زیرِ تعلیم احمد جہاں زیب کے مطابق، سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ بہت سے نئے سوالات نے سر اٹھایا ہے۔ اس کے مثبت اور منفی اثرات نوجوانوں میں اب واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں۔ یہ عمل ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ بلاگز نے بہت سے افراد، بالخصوص نوجوانوں کو لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کیا ہے اور بہت سے نوجوان بلین بائٹس کے مصنف بن چکے ہیں۔ لیکن اس کا منفی اثر یہ ہے کہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں، اسے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے خیالات لوگوں پر منفی اور مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ 

آج انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر شخص ایک ذاتی شناخت رکھتا ہے اور ویب کی دنیا کی بہت سی شناختیں رکھ سکتا ہے۔ شناخت کے خانے بڑھنے کے ساتھ ذہنی خلجان بھی بڑھ رہا ہے۔ پھر یہ پریشانی بھی لاحق رہتی ہے کہ اپنی ڈیجیٹل شناخت کی بہتر انتظام کاری کرنی ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، لِنکڈ اِن، بلاگز اور گروپ کے صفحات بہتر بنائے رکھنے ہیں۔ یوٹیوب چینل کو اپ ڈیٹ رکھنا ہے اور نہ جانے کیا کیا کرنا ہوتا ہے۔ 

آج نوجوان اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان کی کوئی بھی سرگرمی ویب پر تحریر یا تصویر کی صورت میں آنے سے رہ نہ جائے۔ اس صورت حال کی وجہ سے بہت سے نوجوان غیر مفید سرگرمیوں میں روزانہ کافی وقت صرف کردیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات گھر کے ضروری کام اور تعلیم تک سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں۔ 

ان تمام سرگرمیوں کے دوران وہ عملی سماجی رابطوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر یا سیل فون ہاتھ میں لیے مصروف نظر آتے ہیں۔ اس طرح ان کی جسمانی سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے صحت کے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ 

ترقی یافتہ دنیا میں ان مسائل پر شدومد کے ساتھ مباحثے جاری ہیں، جو ذرایع ابلاغ کی زینت بھی بنتے رہتے ہیں۔ وہاں بہت سی جامعات میں ان مسائل پر کافی تحقیقی کام بھی ہوا ہے، لیکن ہمارے ہاں ابھی اس بارے میں زیادہ کام نہیں ہوا ہے اور انفرادی سطح پر لوگ ان مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے بعض دیگر مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ بہت سے نوجوان برسوں سے جھوٹی شناخت کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ یہ جھوٹی شناخت ان کے ذہنوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ وہ شناخت کے تصادم کی کیفیت میں جی رہے ہیں، جو بہت خطرناک بات ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے ہمیں بہ یک وقت کئی کشتیوں کا سوار بنا دیاہے۔ ایک جانب ہماری اسلامی اور مشرقی شناخت، روایات، آداب اور سماجی تقاضے ہیں اور دوسری جانب مغرب کی شناخت، روایات، آداب اور ترقی کی چکا چوند ہے۔ 

ہم جسمانی طور پر پاکستان میں رہتے ہیں اور دوستیاں دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کی باتوں کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کا اثرہمارے قلب و ذہن پر تیزی سے مرتب ہو رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے بہت سے نوجوان مختلف اقسام کے مخمصوں کا شکار ہیں۔ جب وہ اپنا مقابلہ ترقی یافتہ دنیا کے نوجوانوں سے کرتے ہیں تو ان میں سے کچھ مثبت انداز میں سوچتے ہوئے اپنے آپ کو اور معاشرے کو بہتر بنانے کی فکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

تاہم زیادہ تر نوجوان مایوسیوں اور پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض باغیانہ فکر اپنالیتے ہیں۔ ہم سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ کی دیگر سائٹس کی بدولت دنیا بھر میں سیکڑوں دوست بنا لیتے ہیں، لیکن پاکستان میں اپنے دوستوں کو بھولتے جارہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب بہت سے ہم وطن انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم، تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی اور کاروبار کے میدان میں بہت کچھ حاصل بھی کررہے ہیں۔

احمد جہاں زیب کے مطابق سوشل میڈیا ایسی دکان ہے،جہاں آپ کو اچھا،برا، سستا،منہگا، ہر قسم کا سامان ملتا ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس قسم کا سامان لیتے ہیں۔ اچھا سامان تو خیراچھا ہوتا ہی ہے، مگر برے سامان کی چمک بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور ہم خوشی خوشی اسے لے لیتے ہیں جس کا اندازہ ہمیں بعد میں ہوتا ہے۔

آج کا سچ یہ ہے کہ پہلے لوگ سونے سے قبل گیٹ، صحن اور چھت کا چکر لگاتے تھے ،اب فیس بک،واٹس اپ اور انسٹاگرام کا چکر لگاتے ہیں۔ دراصل کوئی بھی چیز تب تک بری نہیں ہوتی جب تک وہ حد سے نہ بڑھے۔ کسی بھی قسم کی زیادتی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا کا استعمال اس طرح کرنا چاہیے کہ اس سے ہماری سوچ کو مثبت پہلو ملے،ہماری اخلاقی اور مادّی ترقی کی راہی کھلیں اوراس کے استعمال سےہمارے مزاج پر اچھا پڑے۔

شناخت کا بحران

ہمارے ہاں بہت سے افراد اب یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجیز مثبت مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، لیکن پاکستان میں ہر نئی ٹیکنالوجی دن بہ دن معاشرے میں مزید خرابیوں کا اضافہ کررہی ہے۔ نوجوان کمپیوٹر اور سیل فون کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں کے پاس کئی کمپنیز کی سیل فون سمز ہیں۔ 

نت نئے سیل فونز رکھنے اور انہیں طرح طرح سے استعمال کرنے کا جنون بڑھتا جارہا ہے۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد اس کے ساتھ مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کی حقیقی سماجی زندگی بہت کم رہ گئی ہے، جسمانی حرکت بہت محدود ہوگئی ہے اور اپنوں کے لیے وقت نکالنا ان کے لیے بہت مشکل کام بن گیا ہے۔ 

آج کے نوجوان دنیا بھرمیں تعلقات بنا رہے ہیں، مگر اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے اجنبی بنتے جارہے ہیں۔ انہیں ہر وقت سیل فون اور لیپ ٹاپ کی بیٹری، انٹرنیٹ کے کنکشن کا لنک ڈاؤن ہوجانے، فیس بک، ٹوئٹر، فون کال یا ایس ایم ایس، ایم ایم ایس وغیرہ کی فکر لاحق رہتی ہے۔ لیکن معاشرے کے مسائل سے وہ بے بہرہ نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اس جانب فوری توجہ نہ دی تو من حیث القوم ہم بہت نقصان اٹھائیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے اور مشکلات ہوتی ہیں ایسی شکایات مغرب سے بھی آرہی ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ الیکٹرانی دور کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ اس دور میں ڈیجیٹل شناخت بنانا اور اس شناخت کو استعمال کرنا دو علیحدہ باتیں ہیں۔ آج دنیا بھر میں شناخت کے یہ نئے حوالے رائج ہیں۔ مگر ساتھ ہی شناخت کے بحران کا مسئلہ بھی زیرِ بحث ہے۔ 

ترقی یافتہ دنیا متعلقہ مسائل پر بروقت بحث مباحثہ اور تحقیق کرکے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمیں بھی یہ ہی طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا، بہ صورتِ دیگر، ہم میں سے بہت سے لوگ ڈیجیٹل دنیا میں اپنی اصل شناخت کھوکر خلاؤں میں گھور رہے ہوں گے۔

شناخت کا بحران

علمِ نفسیات میں شناخت کے بحران (Identity Crisis) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کا نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے، جس کی تعریف یوں کی جاتی ہے: ایک نفسیاتی سماجی کیفیت یا حالت جس میں مبتلا فرد کے رویے تبدیل ہوجاتے ہیں اور وہ مخمصوں کا شکار رہنے لگتا ہے۔ عموماً یہ کیفیت لڑکپن میں ظاہر ہوتی ہے اور اس کی وجوہ، اندرونی اور بیرونی تجربات کے تضادات، تناؤ اور توقعات ہوتی ہیں اور اکثر اس کیفیت کے نتیجے میں شدید اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ 

اس کی دوسری تعریف کے مطابق، یہ کسی سماجی ڈھانچے میں ظاہر ہونے والی مخمصے کی ایسی کیفیت ہے، جس میں اختلافات کے درمیان کچھ مشابہتیں بھی ہوتی ہیں۔ یہاں سماجی ڈھانچےسے مراد کوئی ادارہ بھی ہوسکتا ہے۔ تیسری تعریف کے مطابق، یہ ذاتی نفسیاتی سماجی تضادات کا نام ہے، جو خصوصاً لڑکپن میں ظاہر ہوتا ہے اور اس میں مبتلا فرد اپنے سماجی کردار کے بارے میں مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے اور اسے اکثر اپنی ذاتی شناخت کے تسلسل میں نقصان کا احساس ہوتا ہے۔ ان تمام تعریفوں کو اگر آج کے دور کے انسان کی جدید شناختوں پر منطبق کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم میں سے بہت سے افراد شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔