شورش، تخریب اور ریاست مخالف سیاست کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ان تینوں انداز سیاست اور ان سے وابستہ نظریات دیرپا نہیں ہو سکتے، جلد یا بدیر زوال ان کا مقدر ہوتا ہے کیونکہ یہ غیر فطری، جمہور دشمن اورجمہوریت کے بنیادی تصورات کے منافی ہے۔ ایک بے لاگ تجزیہ کے مطابق ’’عمران خان کا ماضی قوم کیلئے ایک ڈراؤنا خواب تھا، حال، ماضی کی سازشوں کے احتساب اور سروائیول کی جنگ اور مستقبل منفی سیاست کی گہری دلدل، جہاں سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں‘‘۔یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ملک کے خلاف منظم عالمی سازش کا تسلسل ہوسکتا ہے جس کے تحت اس بار پاکستان پر دو اطراف سے حملے ہو رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسی عالمی سازش پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تو پاکستان دشمن ممالک کی خواہش پر دنیا کا ایک ایسا نقشہ جاری کیا گیا جس میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان کا حصہ نہیں تھے۔شاید یہ معمہ سمجھ میں آجائے اور سانحۂ مشرقی پاکستان کے اسباب اور وجوہات کا بغور مطالعہ کریں تو منظر تمام جواب طلب سوالوں کے ساتھ واضح ہوسکتا ہے جس میں یہ عالمی سازشیں کھل کر سامنے آسکتی ہیں کہ کیسے مشرقی پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے سازشیں تیار کی گئیں حالانکہ شیخ مجیب الرحمن سمیت عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔اب جبکہ حالات اسی جانب جاتے نظر آ رہے ہیں جب مشرقی پاکستان مقامی سیاستدانوں کے تعاون سے عالمی سازشوں کی جکڑ میں تھا۔آج بھی بلوچستان انڈین ایجنسیوں اور خیبر پختونخوا عمران خان کے قبضہ میں ہے۔دونوں کے پیچھے نظام عدل کی Protected walls گھڑی ہیں جس نے قومی سلامتی کی ترجیح کو مسترد کرتے ہوئے ملک میں سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرتیں پیدا کرنے اور ملک کو تقسیم کرنے کا نظریہ رکھنے والے گروہوں کے لئے راستے ہموار کرنے اور جانے انجانے میں ملک دشمنی کے ایجنڈے کو مضبوط کرنے میں میں حصہ دار بن رہے ہیں۔کیا نظام عدل کے نزدیک قومی سلامتی کی اہمیت ضروری نہیں بلکہ ملک دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے والوں کو ’’یکطرفہ ریلیف‘‘ دینا مقدم ہے؟عمران خان کے ایک حالیہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ’’ہم نے فوج پر الزام نہیں، تنقید کی تھی!‘‘ کیا فوج میں پیدا کرنے کی تحریک فوج پر تنقید تھی یا انہیں دہشتگرد فوج ثابت کرنے کی عالمی سازش کا آلہٴ کار بن کر جھوٹے بیانیوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کے اداروں کودنیا میں متنازع بناکر پیش کرنا تھا۔فوج پر الزام نہ لگانے کے دعویدار عمران خان شاید دزیرآباد فائرنگ واقعہ بھول گئے جب انہوں نے فوج کے اعلیٰ آفیسرز کو ایک نوجوان کے قتل میں ملوث کرکے ایف-آئی-آر میں انہیں نامزد کرانے کی کوشش کی تاکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ر‘‘ کی خواہش کے مطابق اس دستاویز کی بنیاد پر پاکستان کی فوج کو دہشتگرد قرار دلایا جاسکے۔آئین کی دھجیاں بکھیرنے والا آج جی-ایچ-کیو پر حملہ کو’’آئینی‘‘ قرار دیتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ جی-ایچ-کیو کے سامنے احتجاج کرنا جرم ہے؟ لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور سلامتی کے اداروں کو تاراج کرنا آئینی عمل ہے؟ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جی-ایچ-کیو کے سامنے احتجاج کرنا آئین پاکستان کے عین مطابق تھا لیکن کیا واقعتاً یہ صرف احتجاج تھا یا حساس اداروں اور شہداء کی یادگاریں مٹانے کے لئے جارحانہ حملے؟ کیا کورکمانڈر ہاؤس، جی-ایچ-کیو، آئی ایس آئی کی عمارتوں کوبے توقیر کرنا اور توڑپھوڑ کرنا آئین کے عین مطابق تھا؟ کیا آئین میں یہ شق موجود ہے عمران خان کے حکم پرشہداء کی یادگاروں کی توہین کرنا، مجسموں کو توڑ کر اس کے ٹکڑے سڑکوں پر پھینک کر اس ملک کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنا عین عبادت ہے؟ یا یہ کہ عمران خان اور ان پارٹی کو آئین میں اس ملک کو تباہ کرنے کی اجازت کی شق رکھی گئی ہے؟یہ تاثر عوامی اور سیاسی حلقوں میں جڑیں پکڑ رہا ہےکہ عمران خان نے جہاں اپنی ملک دشمن پالیسیوں کی بدولت قومی سلامتی اور سلامتی کےاداروں کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا اس سے کہیں زیادہ سیاست کو تعمیر کی بجائے جھوٹ، جبر اور تخریب کی سیاست کا نظریہ متعارف کرا کر کیا جس میں کسی قسم کی شرمندگی یا ندامت محسوس کئے بغیر’’سیاسی قلابازیاں‘‘ لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، سیاست کو پراگندہ کرنے اور اسے خدمت کی بجائے گالی بنانے میں عمران خان کے منفی کردار کا کلیدی رول ہےاور جب حالات پر گرفت کمزور ہوئی تو ایک نئی قلابازی لیتے ہوئےفوج سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی لیکن دوسرے ہی لمحے ان کے خلاف بدزبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اسماعیل ہنیہ کے قتل کی بازگشت پوری دنیا کے کونے کونے سے سنی جاسکتی ہے لیکن ہمارے’’قومی ہیرو‘‘ کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اظہار مذمت کی کوئی آواز سنائی نہیں دی۔