• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مزید ترقیاں و کام یابیاں

سنڈے میگزین کے تمام مضامین، بالخصوص محمّد سعید بلوچ کی تحریر ’’زنگی ناوڑ‘‘، انجینئر محمّد پرویز کی کاوش ’’ہم بھی چلے امریکا‘‘، ڈاکٹر معین الدین کی ’’فکرِ اقبالِ اور ملک و ملت کے تعلیمی ونصابی تقاضے‘‘ جیسی تحریریں دل چُھولینے والی تھیں۔ علاوہ ازیں، سلمیٰ اعوان کے افسانے ’’آپشن‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ 

مزید براں، ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام ‘‘ میں اپنی تحریر ’’ماں کے نام‘‘ شائع ہونے پر دلی تسکین میسّر آئی۔ منور مرزا کی تحریر کافی معلوماتی تھی۔ دُعاہے کہ اللہ تعالیٰ سنڈے میگزین کے تمام لکھاریوں اور آپ کی پُوری ٹیم کو اِسی حوصلے اور جذبے سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ نیز، ’’روزنامہ جنگ‘‘ کو، جو کہ پہلے ہی اُردو اخبارات کی دُنیا میں صفِ اول کا اخبار ہے، مزید ترقیاں و کام یابیاں میسّر آئیں، ثُمّ آمین۔ (بابر سلیم خان، سلامت پوہ، لاہور)

ج: حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔

اچھا مرتّب کرتی ہیں

شمارہ موصول ہوا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، ’’خارجہ پالیسی میں معیشت کی اہمیت‘‘ کا احساس دلا رہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں  رؤف ظفر مُلک کے کسانوں کی بربادی کا نوحہ لائے۔ غضب خدا کا، جب مُلک میں گندم کی فصل تیار تھی، تو70 ارب کی گندم یوکرین سے درآمد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صرف اپنے کمیشن کے لیے مُلک کے محنت کشوں کی محنت پر پانی پھیردیا۔ اب فلور ملز مالکان باہر سے درآمد کردہ خراب گندم لینے سے انکار کررہے ہیں، تو کیا غلط کررہے ہیں۔ 75 برس سے ہم یہی تماشے دیکھ رہے ہیں۔ 

مختلف کمیٹیوں کی کرپشن کے خلاف تیار کردہ رپورٹس کو الماریوں  میں دیمک چاٹ رہی ہے۔ اگرکسی ایک پر عمل درآمد ہوجاتا، مجرموں کو سزا ملتی، تو آج مُلک و قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔ بہت سے ممالک میں کرپشن پر سزائے موت دے دی جاتی ہے، جب کہ ہمارے یہاں تو ’’کرپشن‘‘ گویا بنیادی ضروریاتِ زندگی کے مثل ہوگئی ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ ہی میں عبدالباسط علوی، بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کا حقیقی چہرہ دکھارہے تھے۔

گجرات کے قسائی، مودی نے تو برسوں پہلے سیکولرازم کو گنگا، جمنا میں غرق کر دیا تھا۔ اب بھی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کر کے ہندوؤں کے ووٹ سمیٹے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ قسط وار پڑھ رہے ہیں۔ کافی معلوماتی سلسلہ ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے حجاب متعارف کروائے۔ بلاشبہ، مشرقی عورت کا اصل وصف ہی اس کی حیا، عفّت و عصمت ہے۔ 

’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر نام وَر ہدایت کار و اداکار، سمیع سارنگ سے زندگی کے نشیب فراز پر بات چیت کررہے تھے۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کی کہانیاں بھی دل میں اُتر گئیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ناز جعفری ، عندلیب زہرا کے مضامین اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹی کا افسانہ ’’ماواں، ٹھنڈیاں چھاواں‘‘ لائقِ مطالعہ رہے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ اب طلعت عمران صاحبہ مرتّب کررہی ہیں، اچھا انداز ہے اُن کا بھی۔ اور ہمارے صفحے پر ہمیں اعزازی چٹھی سے نوازنے کا شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج : اطلاعاً عرض ہے، طلعت عمران کوئی خاتون نہیں ہیں۔ یہ برسوں سے ہمارے ٹیم ممبر ہیں اور اُن کی متعدّد نگارشات کے ساتھ اُن کی باقاعدہ تصویر بھی شائع ہوتی ہے، جس پر کسی خاتون کا رتّی بھر شائبہ ہونا بھی ناممکن ہے۔ اورآپ تو برسوں سے ہمارے اِک اِک صفحے پر مفصّل تبصرہ فرمارہے ہیں، تو حیرت ہے، آپ نے کبھی طلعت عمران کی تصویر پرغور ہی نہیں کیا۔

محبِ وطن، عوام کے ہم درد

ٹک ٹاک پر پابندی پہ منوّر مرزا اظہارِ خیال فرمارہے تھے۔ میری رائے میں تو بالکل صحیح تجاویز ہیں اُن کی۔ موسمیاتی تبدیلی کے شکار صوبہ بلوچستان پر سیّد خلیل الرحمٰن نے اچھی ’’رپورٹ‘‘ تیار کی۔ ’’فیچر‘‘ پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا۔ طلعت عمران کی زبانی، غزہ کی دو ماؤں کا احوال پڑھ کر دل کٹ سا گیا۔ خصوصاً رحمان فارس کی نظم نے توبس خُون ہی کے آنسو رُلا دیا۔ ’’مدرز ڈے‘‘ کی مناسبت سے فرحی نعیم کا مضمون بہت عمدہ تھا۔ 

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ بےحد معلوماتی سلسلہ ہے اورخطوط میں نازلی فیصل کا خط پسند آیا۔ اگلے جریدے میں منور مرزا مُلکی حالات پر خاصے افسردہ دکھائی دیئے۔ درحقیقت ایسے ہی چند ایک لوگ اصل محبِ وطن اور عوام کے ہم درد ہیں۔ عبدالباسط علوی بھارتی انتخابات پر اچھی ’’رپورٹ‘‘ لائے۔ وحید زُہیر بلوچستان کا خُوب حق ادا کررہے ہیں۔ آپ نے’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا رائٹ اَپ بھی خُوب ہی لکھا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج: جی، جی، منور مرزا صاحب سے متعلق آپ کے خیالات سےتو ہم بھی سو فی صد متّفق ہیں۔

کہاں سے تلاش کرلیا؟

تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں  منور مرزا نے چابہار پورٹ اور گوادر پورٹ پربہت ہی عُمدہ تحریر تیار کی، خصوصاً ایوب خان دَور کے ترقی کے جو جھوٹے، سچّے قصّے بیان کیے، پڑھ کے بہت لطف آیا۔ ایک مزے کی بات اور لکھی کہ افغانستان ایک پائی کی تجارت نہیں کرتا اور یومیہ پچاس لاکھ ڈالرز پاکستان سے اسمگل ہوکر وہاں جارہے ہیں۔ سچ تویہ ہے کہ ایسی دلیرانہ، بے جھجک، بے دھڑک تحریر کوئی صاحبِ علم و دانش ہی لکھ سکتاہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سلمیٰ اعوان کی ’’آپشن‘‘ پڑھی، پسند آئی۔ 

نئی کتابوں پر منور راجپوت کاتبصرہ اچھا تھا،خصوصاً ظفر محمود کے ناول ’’فرار‘‘ پر تبصرہ پسند آیا۔’’ایک پیغام، پیاروں کے نام ‘‘ کی آخری اشاعت بھی پڑھ لی۔ پیغامات عُمدگی سے مرتّب کیے گئے۔ اگلے ایڈیشن کے آغاز ہی میں ’’حالات وواقعات‘‘ کا صفحہ پڑھنے کو مل گیا۔ منور مرزا نے ابراہیم رئیسی کی شہادت پر بھی بہت عُمدہ مضمون لکھا ۔ارے ہاں، یہ آپ نے ڈاکٹر قمر عباس کو کہاں سے تلاش کرلیا۔ عرصے بعد وہ ’’ لازم و ملزوم‘‘ میں ضمیرنیازی کے ساتھ موجود تھے اوروہی شان دار اندازِ  نگارش، پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔

مضمون میں لکھا تھا کہ تب سینئر سب ایڈیٹر کی تن خواہ پچاس روپے ہوا کرتی تھی۔ آپ تو ایڈیٹر ہیں، آپ کی تن خواہ کتنی ہے؟ یوں ہی برسبیلِ تذکرہ پوچھ لیا ہے۔ نہ بتانا چاہیں، تو آپ کی مرضی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طلعت نفیس کی تحریر ’’سیلانی‘‘ بھی پسند آئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: قمرعباس خُود ہی گئے تھے، خُود ہی واپس آگئےہیں۔ اگرچہ جنگ گروپ دوبارہ جوائن نہیں کیا، لیکن اُن کے ادارے کی طرف سے اب اُن کے یہاں لکھنے پر پابندی نہیں رہی، تو اُنھوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور ہم بھی چوں کہ اچھےلکھنے والوں کوہمیشہ بہت خوش دلی سے خوش آمدید کہتے ہیں، تو ہم نے بھی ان کی سروسز فوری قبول کرلیں۔ رہی بات، تن خواہ کی، تو سمجھیں، اُس وقت کے50 روپے کی جو وقعت تھی، آج بھی پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے ماہانہ مشاہروں کا وہی حال ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی نسبت آپ اِسے ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

ایک اور مضمون بھیج رہی ہوں

سنڈے میگزین کے جتنے بھی لکھاری ہے، سب ہی قابلِ تعریف ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کا ناول ’’رتی کے جناح‘‘ اپنے سحر انگیز طرزِ نگارش کے سبب آج تک ذہن میں محفوظ ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے سے اسلامی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک گزارش ہے کہ میرے مضامین کے لیے بھی کچھ گنجائش پیدا کریں۔ اگر میرے موضوعات کو قابلِ اشاعت سمجھیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ مَیں نے پہلے بھی دو مضامین ارسال کیے تھے، لیکن تاحال شایع نہیں ہوئے۔ اب ایک اور مضمون بھیج رہی ہوں۔ (شہزادی یاسمین، راول پنڈی)

ج: یہ جو آپ نے اپنے اِس خط ہی کی بیک سائیڈ پرچند بےربط سے جملے قلم بند کیے ہیں، کیا یہی وہ مضمون ہے، جس کی آپ اشاعت کی خواہش مند ہیں اور کیا پہلے بھی اِسی نوعیت کے مضامین ارسال کیے تھے؟؟ تو بھئی! نہ تو یہ کوئی مضمون ہے اور نہ ہی ہمارے یہاں ایسی کسی بھی تحریر کی اشاعت کی کوئی صُورت ممکن ہے۔ سو، آپ تو ناقابلِ اشاعت کی کسی فہرست کا انتظار کیے بغیر یہیں ہماری معذرت قبول فرمائیں۔

ماہِ مئی اور ماں نامے

بندۂ عاجز علیل ہونے کے بعد رُوبصحت ہے، لہٰذا اس دفعہ ماہِ مئی کے جرائد کی چیدہ چیدہ تحریروں پہ تبصرہ کروں گا۔ ’’ماں نامہ‘‘ پڑھا، بھلا لگا، جیسے چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں اچانک سر پر آگئی ہو۔ مئی کا لگ بھگ پورا مہینہ ہی ’’ماں ناموں‘‘ سے مرصّع ہوتا ہے۔ اس دفعہ توپیغامات بھی تین اقساط میں شائع ہوئے اور اگر آپ کا سندیسہ اتنی تاخیر سے نہ آتا، تو اب تک پیغامات شائع ہو رہے ہوتے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اپنا نامہ ’’چولائی کا ساگ‘‘ پڑھا۔ اشاعت پرممنون ہوں، لیکن خط خاصے سے زیادہ ایڈیٹنگ کی نذر ہوگیا۔ گداگری، وہ بھی بیرونِ مُلک، سخت حیرت بلکہ افسوس ہوا۔ کیا اِسی کو ’’وسیلۂ ظفر‘‘ کہتے ہیں؟ مُلک کا وقار تو خاک ہی میں مل گیا۔

’’حالات و واقعات‘‘ جیسے بھی ہوں، بھارت نے وہی سیاست کرنی ہے، جو اُس کا ازل سے وتیرہ ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں یہودی ریاست کے قیام سے متعلق مضامین بےحد معلوماتی ثابت ہوئے۔ اور لو جناب، ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ڈاکٹرز کے بعد اب انجینئرز بھی کُود پڑے ہیں۔ جمیل احمد کُرد کہہ رہے ہیں کہ آفات کوتاہیوں کا شاخسانہ ہیں ’’لاکٹ‘‘ محفوظ رکھنے کی ترکیب خُوب کا رگر ثابت ہوئی، حتیٰ کہ دل کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ویسے یہ کیا واقعی’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعہ تھا؟ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پڑھا کہ نصیب میں ہو تو ثمرضرورملتا ہے۔ اور’’اسٹائل‘‘ میں آپ کا ’’ماں نامہ‘‘ پڑھا۔

بہت ہی لُطف آیا۔ واہ، کیا خُوب لکھا ؎ تمام لفظوں میں روشن، ہرایک باب میں ماں … جُنوں کے شیلف میں ہے، عشق کی کتاب میں ماں۔ آزادئ رائے اور قومی سلامتی ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کی ایک منوّر تحریر تھی۔ طلعت عمران میاں کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ اوراس دفعہ ’’’پیارا گھر‘‘ بھی ٹھنڈی چھاؤں کا سائبان بنا ہواتھا۔ 

ماہِ مئی کے آخر میں بھی ہماے مُلک کے’’حالات و واقعات‘‘ جُوں کے تُوں تھے، البتہ منورمرزا کی تحریر ’’خارجہ پالیسی اورمعیشت‘‘ ایک لاجواب تجزیہ تھا۔ بلوچستان سے ’’زنگی ناوڑ‘‘ کو بھی خُوب متعارف کروایا گیا۔ ’’امہات الغزہ‘‘ میں پی ایچ ڈی ماں کا واقعہ پڑھا، تو دلی افسوس ہوا۔ جاوید اقبال اور بشیر محمّد نے دو دو بار مسند سنبھالی۔ بھئی بہت ہی خُوب! (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: ’’پیغامات‘‘ کے لیے سندیسہ تاخیر سے دینے کا سبب ہی یہ ہےکہ پھر پیغامات اتنی تعداد میں موصول ہوتے ہیں کہ ہمیں کئی صفحات مختص کرنے پڑجاتے ہیں، جب کہ ہم پہلے ہی صفحات کی کمی کے شکار ہیں۔ اور آپ خط مختصر و جامع لکھنے کی عادت ڈالیں، ہمیں ناحق ایڈیٹنگ کا قطعاً کوئی شوق نہیں۔ ہاں، مگربلاوجہ کی رام کہانیوں کے لیے بھی ہمارے پاس قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔

اس ہفتے کی چٹھی

ایک طرف سورج آگ اُگل رہا ہے، دوسری طرف لوڈشیڈنگ کا عذاب ہے۔ منہگائی نے الگ کمر توڑ رکھی ہے۔ لوگوں میں اپنائیت تو جیسے مفقود ہی ہوگئی ہے، دِلوں سے محبّتوں کی مہک تک غائب ہو چُکی ہے۔ یاخدا! یہ زندگی کیا سے کیا ہوگئی۔ اور یہ صرف ایک ہمارے شہر، جھڈو کا نوحہ نہیں، بلکہ ہمارے پورے مُلک کا نوحہ ہے۔ بہارِ زندگی کو پتا نہیں کس کی نظر کھا گئی؟ بخدا شدید گرمی نے یہ حال کردیا ہے کہ آج قریباً مہینے بھر بعد قلم کو ہاتھ لگایا ہے۔ خیر، اب جریدے کی بات کیے لیتے ہیں۔ ’’خارجہ پالیسی میں معیشت کی اہمیت…؟؟‘‘ پرمعیشت پہ بہت گہری نظر رکھنے والے نام وَر لکھاری، منور مرزا پتے کی بات بتارہے تھے کہ سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری سے تب ہی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے کہ جب ہماری اپنی صفیں درست ہوں۔ 

رؤف ظفر کا کہنا بھی صد فی صد سچ کہ کسان، جو ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، افسوس صدافسوس کہ اُس کی خوش حالی کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسی زرعی پالیسیز بنائی جائیں کہ ایک زرعی مُلک کم از کم اپنی خوراک کے معاملے میں تو خُود کفیل ہو۔ جب کہ یہ بھی سب کو نظر آرہا ہے کہ آٹے اور گندم کا بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا اور اگر آج اس کے ذمّے داران کا احتساب نہ کیا گیا، تو پھر اللہ نہ کرے کہ مُلک میں ایسا طوفان اُٹھے گا، جو سب کوہلا کررکھ دے گا۔ عبدالباسط علوی بھارتی انتخابات اور نام نہاد سیکولرازم کے حوالے سے نریندر مودی کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے لائے۔ 

ویسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا ڈھونگ رچانے والے کو اب دنیا بھر ہی کی تنقید کاسامنا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ کی چوتھی قسط بھی انتہائی معلومات افزا تھی۔ فلسطینی بھائیوں کی مسلسل نسل کُشی کا احوال پڑھ کردل خون کے آنسو روتا ہے، جب کہ ہمارے حُکم ران محض زبانی بیان بازی ہی پر اکتفا کیےہوئے ہیں۔ 

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل رابی چوہدری کے دوپٹے بہت جچ رہے تھے کہ درحقیقت ایک مسلمان عورت کی پہچان ہی اُس کی ’’اوڑھنی‘‘ ہے۔ وحید زہیرکی بلوچستان کے اداکار، فلم ڈائریکٹر سمیع سارنگ سے بات چیت کا نچوڑ یہ رہا کہ فنونِ لطیفہ اور کھیلوں کے ذریعےجسمانی و روحانی صحت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ؎ بس اِک خدا نہیں ہوتی… ورنہ ماں کیا نہیں ہوتی۔

پروفیسر فرحانہ حمید کا اپنی ماں ’’سعیدہ خاتون‘‘ سے متعلق قلمی شہ پارہ دل چُھوگیا۔ جب کہ ڈاکٹر راجا امجد حسین، کوثر بنتِ اقبال اورمنصورعلی خان کی بھی اپنے پیارے رشتوں سےمتعلق کاوشیں اپنی اپنی جگہ لاجواب تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک دِلوں میں ایک دوجے کے لیے محبّت و اُلفت کے جذبات و احساسات موجود ہیں، یہ دنیا قائم ہے، وگرنہ تو زندگی میں کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عندلیب زہرا اورنازجعفری نے بھی گویا محبّتوں کی سیاہی میں قلم ڈبو کر مائوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ جب کہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹی کی بھی ماں کے حوالے سے نگارش کا جواب نہ تھا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ چلتی پِھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے… مَیں نے جنّت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے۔ 

سلسلہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ بلاشبہ ہم سب کے دل کی آواز ہے۔ اپنی پیاری، عظیم مائوں کے نام پیغامات کی دوسری اشاعت بھی اَن مول تھی اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کرسیٔ صدارت ایک بار پھر میرپور خاص کے شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی نے سنبھالی۔ بہت خُوب بھئی، زبردست، مبارکاں۔ آخر میں آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کوسیلوٹ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اِس دورِابتلا میں بھی آپ لوگ محبّتوں کے پھول بانٹنے میں آگے، آگے، سب سے آگے ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: آپ کی ذرّہ نوازی ہے، وگرنہ ہم تو بس اپنی ذمّے داریاں ہی بحسن وخُوبی نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* 28 اپریل کا میگزین پارک میں، وائلڈ فلاورز کے جھرمٹ اور ٹھنڈی ہوائوں کی چھائوں میں بیٹھ کے پڑھا، ساتھ اپنی پسندیدہ چائے کے گھونٹ بھی لیتی رہی، توبس، مزہ دوبالا ہی ہوگیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں سُرخ پھلیوں کی ترکیب بہت ہی پسند آئی، محفوظ کرلی ہے، ضرور ٹرائی کروں گی۔ ’’ اسٹائل‘‘ میں تین سہیلیوں کی میل ملاقات دیکھ کے اپنے بچپن کی ساری سہیلیاں یاد آگئیں۔ 

اب تو سب شادی شُدہ، بال بچّوں والی ہوں گی،جہاں رہیں، خوش رہیں۔ یہاں تو سب گوری فرینڈز ہیں، مگر اُن میں وہ بات نہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے قصّے ”شوہروں کو بھٹکتےدیر نہیں لگتی“ میں دوسری شادی کو اس قدر بُرے انداز سے پیش کیا گیا ہے، جیسے یہ کوئی غیرشرعی عمل ہو، جب اسلام نےمرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے، تواِسےایک انتہائی برا فعل بنا کر پیش کرنا غلط ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی “رشتے ناتے” پڑھتی رہی اور آنکھیں بھیگتی رہیں۔ 

چشمِ تصوّر سے خُودکواپنی پرانی گلیوں، مُحلےمیں محسوس کیا۔ شاید اگر کبھی مَیں بھی لوٹ کے پاکستان گئی، تو میرےبھی یہی احساسات ہوں گے۔ میری شادی کو12سال ہوگئےہیں اورمَیں ایک بار بھی میکے نہیں جاسکی۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نواب ملک آپ کےکومے، فل اسٹاپ کی درستی پہ اعتراض کر رہے تھے، تو بھائی! ایک اُردو جریدے میں اگر اردو قواعد کی اصلاح نہیں ہوگی، تو پھرکہاں ہوگی؟ (قرات نقوی،ٹیکساس، امریکا)

ج: جس انداز میں آپ پاکستان اور یہاں بسنے والے اپنے پیاروں سے محبّت کا اظہار کرتی ہیں، پڑھ کے ہمارا دل بَھر آتا ہے، تو پتا نہیں، خُود آپ کی کیا حالت ہوتی ہوگی۔ دُعا ہے کہ اللہ پاک جلد آپ کی،آپ کےسب پیاروں سے ملاقات کروا دے۔ اور رہے، نواب ملک توہماری طرح، آپ بھی اُنھیں زیادہ سیریس نہ لیا کریں۔

* آج ایک طویل عرصے بعد ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ کیا، بہت پسند آیا۔ جریدے کا معیار تو کافی بلند ہوگیا ہے۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اِس ہفتے کی چٹھی بہت شان دار تھی۔ گوادر اور چابہار پورٹ پر مضمون بےحد معلوماتی لگا۔ مجموعی طور پر میگزین بہت خُوب صُورت، شان دار تحریروں سے مزیّن نظر آیا۔ (رانا علی رضا بلو، پاک پتن شریف)

ج: مگرآپ نے میگزین طویل عرصے بعد کیوں دیکھا، آپ توغالباً ہمارے مستقل قارئین میں شامل نہیں تھے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk