ہم ہر سال 14اگست کو بھرپور قومی جوش و جذبے کے ساتھ اپنا’’ جشنِ آزادی‘‘ مناتے ہیں اور کیوں نہ منائیں کہ یہی وہ مُبارک دن ہے کہ جس روز ہم نے اسلام کے نام پرایک آزاد وطن حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے، جس کے بانی سر سیّد احمد خان (17اکتوبر 1817ءتا 27 مارچ 1898ء) ہیں۔
انہوں نے ہی سب سے پہلے مسلمانوں کو ایک قوم قرار دیا تھا۔ پھر آگے چل کر شاعرِ مشرق، حضرت علّامہ اقبالؒ نے 1930ء کے اپنے خُطبۂ الٰہ آباد میں ایک نئی اسلامی مملکت کا جغرافیائی نقشہ پیش کر کے پاکستان کے قیام کی پیش گوئی فرما دی۔ یوں علاّمہ اقبالؒ، پاکستان کے مصوّر ومُبشّر ہیں اور پھر اقبالؒ ہی کے ایما پر قائدِاعظم ؒ نے پاکستان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا۔
ایک زمانے میں یومِ آزادی کے موقعے پر مُلک بَھر میں تقریری اور ملّی نغموں کے مقابلوں سمیت جذبۂ حبّ الوطنی کو فروغ دینے والی دیگر مثبت سرگرمیوں کا انعقاد ہوتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ یومِ آزادی،’’ جشنِ آزادی‘‘ میں تبدیل ہو گیا اور بعدازاں اس جشن میں ایسی خرافات شامل ہو گئیں کہ جو قیامِ پاکستان کی رُوح کے سراسر منافی ہیں۔ اب 14اگست کے روز ہر سُو ایک طوفانِ بد تمیزی دکھائی دیتا ہے۔
بچّے دن بھر کرب انگیز آواز والے باجے بجانے میں مصروف رہتے ہیں۔ مَن چلے نوجوان اپنی بائیکس سے سائلینسر نکال کر ریس لگاتے ہیں اور تفریحی مقامات پر آنے والی خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے، حالاں کہ جشنِ آزادی منانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم پاکستان سے سچّی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ظاہرو باطن کو ہر قسم کی غلاظت سے پاک رکھیں۔
بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت نے 14اگست کا دن محض کھیل تفریح اور آوارہ گردی کے لیے مختص کر لیا ہے اور اس روز ہر جگہ گندگی و غلاظت کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ بہ قول اقبال؎ وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پَلا ہو کرگسوں میں…اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہ بازی۔
ایک طرف ہم پاکستان کو ’’نیا پاکستان‘‘، جدید مُلک بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حالاں کہ اگر ہم اس ضمن میں واقعی سنجیدہ ہیں، تو پھر ہمیں انفرادی و اجتماعی ہر دو اعتبار سے اپنی اصلاح کرنی ہو گی کہ جدید پاکستان کا خواب اُسی وقت ہی شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے کہ جب ہم معاشی طور پر خود مختار ہوں۔
خود انحصاری کے بغیر ہم دُنیا میں اپنا مقام نہیں بنا سکتے، دُنیا کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملا سکتے۔ اور اس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں اپنی تعلیم و تربیّت پر توجّہ دینی ہو گی۔ واضح رہے کہ دینِ اسلام تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی بے حد زور دیتا ہے، لیکن ہم نے تو اپنے نصاب میں تربیت کا خانہ ہی خالی رکھا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے طلبہ ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں کہ جہاں ہر معاملے میں دُہرا معیار اپنایا جاتا ہے۔
لوگ کذب بیانی کو بُرا کہتے ہیں، لیکن جُھوٹ بولنے سے باز بھی نہیں آتے۔ فریب اور دھوکا دہی کو غلط گردانتے ہیں، لیکن خود دھوکے بازی کرتے ہیں اور ایسے ہی ماحول میں ہمارے نوجوان، نسلِ نو اور ہمارے مستقبل کے معمار سخت ذہنی اُلجھن کے شکار نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیش بہا قدرتی وسائل سے نوازا ہے، جنہیں نیک نیّتی سے بروئے کار لا کر مُلک کو معاشی طور پر خود مختار بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹور ازم انڈسٹری ہی میں خاصے مواقع موجود ہیں۔ اگر صرف اس پر ہی توجّہ دی جائے، تو ہم صرف سیّاحت کے شعبے ہی سے ٹھیک ٹھاک زرِمبادلہ کما سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مُلک میں بائی سائیکلز، موٹر سائیکلز، پنکھوں، سولر سسٹمز اور یوپی ایس وغیرہ کے ہُنر مند بھی بڑی تعداد موجود ہیں اور ان انڈسٹریز کے فروغ سے بھی ہم اپنی مصنوعات دوسرے ممالک کو فروخت کر کے اپنی معیشت مضبوط کر سکتے ہیں۔
یاد رہے، جدید پاکستان ایک ایسا پاکستان ہے کہ جہاں جہالت اور انتہا پسندی نہ ہو اور جہاں کسی کو اُس کے مذہب، مسلک، زبان، قوم اور قبیلے کی بنیاد پر قتل نہ کیا جاتا ہوں۔ جہاں تعلیم کو اوّلین ترجیح دی جائے۔ جہاں مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی تعلیم کے یک ساں مواقع میسّر ہوں اور جہاں ایک استاد کی ویسی ہی عزّت ہو، جیسی قرونِ اولیٰ کے اساتذہ کی تکریم کی جاتی تھی۔
جدید پاکستان کا مطلب ہرگز مغرب کی نقّالی نہیں، بلکہ اس سے مُراد ایسا پاکستان ہے کہ جو معتدل، منظّم اور مربوط انداز میں ترقّی کی راہ پر گام زن رہے۔ جہاں کا ہر نوجوان خودی کے جذبے سے لیس ہو اور جو اقوامِ عالم کی قیادت کرے۔ بہ قول علاّمہ اقبالؒ؎ ملّت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ…پیوستہ رہ شجر سے اُمید ِ بہار رکھ ۔ (مضمون نگار، گورنمنٹ سچّل سرمست کالج، حیدر آباد میں بہ طور لیکچرار خدمات انجام دے رہے ہیں )