لاتعداد ہستیاں شہرت و عظمت کی بلندیاں چھونے، کچھ عرصہ ستاروں کی مانند چمکنے کے بعد معدوم ہوکر خاک نشیں ہو گئیں، ماضی کی گرد میں ایسی گُم ہوئیں کہ نشاں تک نہ رہا، لیکن اِن ہی میں کئی ایسے نام وَر بھی ہوئے، جن کی شہرت زندگی میں بھی چاردانگِ عالم تھی، تو بعد ازمرگ بھی نام و مقام بلند رہا۔ یہاں تک کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی انھیں دوام حاصل ہے۔ ان ہی ہستیوں میں ایک نام، ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری کا بھی ہے، جنھیں دنیا ’’عمرخیّام‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ عمرخیّام ایران کے شہر نیشا پورمیں1048ء میں پیدا ہوئے اور4دسمبر 1131ء میں اُن کا انتقال ہوا۔
وہ اپنے دَور کے نام وَر فلسفی، ریاضی دان، ماہرِ علمِ نجوم، عالم، طبیب اور کئی دیگر علوم میں یگانۂ روزگارتھے۔ ان علوم کے علاوہ شعر و سخن میں بھی بہت بلند مقام رکھتے تھے اور بلاشبہ اُن کا شمار دنیا کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے عِلم وفضل کا اعتراف اہل ِایران سے بڑھ کر اہل ِیورپ نے کیا۔ فارسی زبان میں اُن کی رباعیات آج بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
بے پناہ خوبیوں کے حامل، خیّام، عہدِ سلجوقی میں سلجوقی سلطنت سے وابستہ تھے اور ان کی ہمہ گیر شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے 1970ء میں چاند کے ایک گڑھےاور1980ء میں ایک سیارچے کا نام، اُن کے نام پر رکھا گیا۔ یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی اور اسٹیون کنگ جیسے مشہور ادیبوں نے اپنی کتابوں کے نام عمرخیّام کے اقتباسات پر رکھے۔
عمرخیّام کو اگرچہ زیادہ شہرت شاعری کی بدولت ملی۔ تاہم، وہ اسے انتہائی غیرسنجیدہ اور فراغت کا مشغلہ سمجھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے زندگی بھر اپنا کلام مرتّب نہیں کیا، لیکن، مشرق و مغرب میں انھیں اصل شہرت اُن کی شاعری ہی کی وجہ سے ملی۔ اُن کی رباعیات نے جنہیں وہ ’’وقتے خوش گزرے‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے، اُنھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ کہتے ہیں، عمر خیّام جب پیچیدہ علوم کے مسائل سے فارغ ہوتے، تو تفریحِ طبع اور دل جوئی کے لیے شعر کہتے۔
اُن کی شاعری کا حاصل اُن کی فارسی رباعیات ہیں، جن کے سبب آج ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی اُن کی شہرت میں کوئی کمی نہیںآئی۔یہ رباعیات اگرچہ سادہ، سہل اور رواں ہیں، تاہم ان میں جا بہ جا فلسفیانہ رموز بھی ملتےہیں، جو اُن کی علمیت و قابلیت کا مظہر ہیں۔ ان رباعیوں میں انسانی زندگی کے آغاز وانجام پر غور وخوض نمایاں نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی متعدد رباعیوں میں معاد، جزا اور سزا کا ذکر کیا اور نیکوکاری کی ہدایت ، جب کہ برائیوں سے بچنے کی بات کی۔ ان کی اخلاقی تعلیم میں ریاکاری سب سے بڑا جرم تھا۔
خیّام نے جب نیشاپور میں آنکھ کھولی، تو اُس وقت شہر میں بہت سی درس گاہیں اور علماء کی مجالس موجود تھیں اور اُن ہی کی صحبت و رفاقت میں اُن کی پرورش ہوئی۔ بعدازاں، شافعی کی مجلس سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ امام الحرمین بھی اُس عہد کے بڑے مدّرس تھے اور اُن کی درس گاہ بھی اسی شہر میں قائم تھی، جہاں امام غزالی جیسے شاگرد پیدا ہوئے۔ علاوہ ازیں، خیّام نے حکیم سنائی سے اکتسابِ فیض کے بعد محض سترہ برس کی عُمر میں اپنے ہم عصروں سے بڑھ کر کمال حاصل کیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد تصنیف و تحقیق میں مصروف ہوگئے۔
ریاضیات کی طرف میلان کے باعث ’’جر و مقابلہ‘‘ لکھی۔ ایک رسالہ تصنیف کیا، جس میں ریاضی کے ایسے قواعد دریافت کیے، جو اُس وقت تک دریافت نہیں ہوئے تھے، مگر خیّام کی ان تصنیفات کو خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی، لہٰذا وہ اپنے علم کی قدر و منزلت کے لیے ترکستان چلے گئے۔ وہاں ابو طاہر سمرقندی سے آشنائی ہوئی، جنہوں نے اُن کی خوب قدر اورعزت افزائی کی۔ ابو طاہر کی شمس الملک خاقان بخارا کے دربار تک رسائی تھی، تو انھوں نے خیّام کودربار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور خاقان اُن کے علم و فضل سے اس قدر متاثر ہوا کہ تعظیم کے طور پر اُنھیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھانے لگا۔
جب کہ بیہقی کی ایک روایت کے مطابق،’’مشرقی نشاۃ ثانیہ‘‘ کے بعد خیّام، سلطان ملک شاہ کے دربار کا طبیب مقرر ہوا۔ دراصل ملک شاہ کا بیٹا سنجر، چیچک نکل آنے کے باعث سخت بیمار پڑ گیا تھا، متعدد حکیموں نے علاج کیا، مگر صحت یاب نہ ہوسکا، بالآخر خیّام کے علاج سے رُوبہ صحت ہوا اور طویل عمر پائی۔
پھر ملک شاہ اور اُس کے وزیر نظام الملک نے ایک رصدگاہ تعمیر کی، تودیگر علمائے ہیئت کے ساتھ عمر خیّام کو بھی بلوایا گیا، کیوں کہ وہ لغت، فقہ اور تاریخ کے علاوہ یونانی فلسفے سے بھی آگاہ تھے اور ریاضیات سے بھی گہری واقفیت تھی۔ خیّام کا حافظہ ایسا قوی تھا کہ اصفہان میں ایک کتاب سات بارمطالعے کے بعد زبانی یاد ہوگئی،جسے نیشا پور آکر لکھوا دیا اور جب اُس کتاب کا اصل سے مقابلہ کیا گیا، تو کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ بہرحال، ملک شاہ سلجوقی کے دربار تک رسائی کے بعد خیّام کی شہرت دُور دُور تک پھیل چکی تھی۔
شاہی رصد گاہ کی سربراہی کے دوران انھوں نے شمسی کیلنڈر بنایا، جس کا نام جلال الدین ملک شاہ کے نام پر ’’تقویم ِجلالی‘‘ رکھا۔ اس سے قبل عالمِ اسلام میں شمسی کیلنڈر رائج نہ تھا۔ اس کیلنڈر سے متعلق مشہور مورخ ایڈورڈ گبن لکھتا ہے کہ ’’یہ تقویم اُس تقویم کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے، جو رومن بادشاہ جولیان کے عہد میں روم کے سائنس دان گریگوری نے بنائی تھی۔‘‘تاہم، یہ کیلنڈر عالمِ اسلام میں کہیں رواج نہ پاسکا۔ امام غزالی جیسے جیّد عالمِ دین اور فلسفی نے بھی اس کی مخالفت کی، تو علمائے عصر نے شمسی کیلنڈر کو ایک بدعت قراردے دیا۔
عمر خیّام کو بارہویں صدی میں زمین اور سورج کی درست گردش کا علم ہوگیا تھا، جب کہ اس کا علم، گلیلیو کو خیّام کی وفات کے پانچ سو سال بعد سترہویں صدی میں ہوا۔ بقول عمر خیّام، قدیم مصریوں کو بھی اس حقیقت کا اندازہ تھا۔ خیّام کا زیادہ تر وقت رصدگاہ میں گزرتا تھا اور انھوں نے تاحیات اپنا کوئی گھر نہ بنایا۔
جب دارالعلوم نیشاپور کے تنگ نظر مولویوں نے خیّام کے خلاف فتویٰ دیا، تو شرپسندوں نے جوش میں آکر رصدگاہ اور ان کے ذاتی کتب خانے کو نذرآتش دیا، جس سے وہ اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ شہر چھوڑکر بلخ، بخارا، مکّہ اور مدینے کے سفر پر روانہ ہوگئے۔اس عرصے میں ایک پڑائو کے دوران اُنھیں مصر کے خلیفہ کا ایلچی ملا، جس کے پاس خلیفۂ مصر کا ایک خط تھا۔ اس خط میں خلیفہ نے انھیں قاہرہ آنے کی دعوت دی تھی۔
ایلچی نے جب عمر خیّام کو خط دیا، تو وہ اس وقت اس قدر پُرملال اور دل گرفتہ تھے کہ خلیفہ کا خط کھول کر پڑھنے کی بھی زحمت نہ کی اور بند لفافے کی پشت ہی پر یہ رباعی لکھ کر خط ایلچی کو واپس کردیا ؎ خیّام کہ خیمہ ہای حکمت می دوخت.....در کوزۂ غم فتادہ ناگاہ بسوخت.....مقراضِ اجل طنابِ عمرش بہ برید.....دلال قضا برائے رائیگانش بفروخت۔ترجمہ:’’خیّام، جو فلسفے و حکمت کے خیمے سیتا تھا، غم کی بھٹی میں اچانک گرگیا۔ موت کی قینچی نے جب اُس کی عمر کی ڈور کاٹی، قضا و قدر کے دلال نے جسدِ خاکی کو بے مول ہی فروخت کردیا۔‘‘
عمر خیّام کے عہد کے فلسفی، علماء و فضلا اُن سے ملاقات کے خواہش مند رہتے اورگاہے بہ گاہے اُن کی خدمت میں حاضری دیتے۔ وہ عمر خیّام سے اختلاف کے باوجود اُن کا احترام کرتے تھے۔ ان کے علم و فضل ہی کی بدولت اُنھیں ’’حجۃ الحق‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تاحیات حق و صداقت کے متلاشی رہے۔ حکیم بو علی سینا کے مشہور شاگرد، ابو نصر محمد ابراہیم نے اُن کی مدح میں عربی میں جو قطعہ لکھا ہے، اس سے اُن کی قدر و منزلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ترجمہ:’’اے بادِ صبا! علّامہ خیّام کو ہمارا سلام پہنچادے۔
وہ عالی جناب، جن کے آستانے پر خود زمین یوں سجدہ ریز ہے، جیسے حکمت کی بھیک مانگنے والا۔ وہ ایسے بزرگ ہیں، جن کے سحابِ حکمت سے حکمت کی بوسیدہ ہڈیوں میں حیاتِ جاوداں پیدا ہوئی ہے۔ ’’کون و تکلیف‘‘ کے مسائل پر اُنھوں نے وہ افادات فرمائے، جس کے بعد کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ علم کے متلاشی خیّام کی محفل میں آکر بیٹھتے اور سیکھتے تھے۔
وہ اپنے دَور کے سب سے بڑے عالم، فلسفی، ہیئت دان، حکیم و طبیب، ریاضی دان، ہندسہ، الجبرا، فلکیات اور علمِ نجوم کے ماہر تو تھے ہی، مٹّی کے مجسّمے بنانے اور ظروف سازی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ جب کہ اُن کی عامۃ النّاس میں بے حد مقبولیت کے حاسدین کئی مَن گھڑت باتیں اور اقوال بھی اُن کے نام سے منسوب کردیتے تاکہ انہیں اعتبار کی سند نہ مل سکے۔
عمر خیّام اپنے وقت کے بہت بڑے نجومی ہونے کے باوجود یہ اندازہ نہ کرسکے کہ جن علوم میں وہ شب و روز سر کھپا رہے ہیں، تحقیق و جستجو کر رہے ہیں، ان علوم کے برعکس دنیا بھر میں اُن کا نام شاعری کے حوالے سے مشہور و معروف ہوگا۔ نیز،اُنھیں یہ بھی ادراک نہیں تھا کہ خود اُن کی نظر انداز کی گئی رباعیات کبھی اس قدر عزت و تکریم، ایسی قدر و منزلت بھی پائیں گی کہ جو دنیا میں کسی اور شاعر کے حصّے میں کبھی نہیں آئی۔
اگرچہ اُن کی رباعیات کی تعداد سے متعلق بھی کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم، قرین قیاس یہ ہے کہ اُن کی تعداد 175سے 250تک ہے۔ جب کہ مشرق ومغرب میں اُن کے مداحوں اور مخالفین نے اُن کی رباعیات کی تشریح و توضیح اپنےاپنے ذوق اور مطلب کے مطابق کی ہے۔ فرانسیسی مترجّم، موسیو نکولس نے اُنھیں صوفی سمجھا، تو اہلِ یورپ نے اُنھیں محض رند خراباتی جانا۔ سیّد سلیمان ندوی اُن کی رباعیات سے تصوّف برآمد کرتے ہیں، تو روایتی ملّا اُن پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، بلکہ اُنھیں دہریہ اور مادہ پرست کہتے ہیں۔
تاہم، خیّام بھی ان دنیادار ملائوں سے رعایت نہیں برتتے،وہ اپنی رباعیات میں انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ایسے جعلی ملّائوں سے تو ایک طوائف بھی بہتر ہے؎ شیخی بہ زنی فاحشہ گفتا مستی.....ہر لحظہ بہ دام دگری پابستی.....گفت شیخا ہر آنچہ گوئی ہستم.....آیا تو چنان کہ می نمائی ہستی۔ترجمہ:ایک شیخ نے کسی فاحشہ سے کہا ’’تُو ہر وقت دوسروں کو پھانسنے میں لگی رہتی ہے۔‘‘ تو اُس نے جواب دیا ’’مَیں جیسی نظر آ رہی ہوں، ویسی ہی ہوں، تُو بھی جیسا نظر آتا ہے، کیا ویسا ہی ہے؟‘‘
مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ’’خیّام کی رباعیاں اگرچہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، لیکن سب میں قدرِ مشترک صرف چند مضامین، مثلاً، دُنیا کی بے ثباتی، خوش دلی کی ترغیب، شراب کی تعریف، مسئلہ جبر اور توبہ استغفار وٹیرہ ہیں۔ وہ ہر ایک مضمون کو سو سو بار اس طرح بدل کر ادا کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا کہ وہ کوئی نئی چیز ہے۔
مثلاً ’’توبہ استغفار‘‘ ایک قدیم موضوع ہے، لیکن جس طرح خیّام اسے ادا کرتے ہیں، سننے والے کی آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ مغفرت کی دُعا، اس جدّتِ اسلوب سے مانگتے ہیں کہ دُعا کا اثر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ جب کہ معروف ایرانی اسکالر، مجتبیٰ مینوی کا کہنا ہے کہ،’’بلاشبہ، شعرائے ایران میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا، جسے خیّام کی مانند عالمی شہرت ملی ہو۔‘‘
خیام کی شاعری کے تراجم
عمر خیّام کی شاعری میں ایسی غنایت ہے کہ سیدھی دل میں اُترتی ہے، اسی لیے دنیا کی بیش تر زبانوں میں اُس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ صرف انگریزی زبان میں اُن کی رباعیات کے36تراجم کے علاوہ اُردو میں بھی منظوم تراجم منظرِعام پر آچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ شاید ہی کوئی سال ایسا گزرتا ہو، جب ان تراجم کی تعداد میں اضافہ نہ ہوتا ہو۔ ڈنمارک کے مشہور محقّق اور نقّاد، پاسکال اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ ایک سو سال میں عمرخیّام کی رباعیات کے جو ترجمے ہوئے اور جو رسالے اُن پر لکھے گئے، اُن کی فہرست بنانا آسان نہیں۔
اگرچہ عمر خیّام کو دنیا بھر میں متعارف کروانے میں اہلِ یورپ نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ تاہم، سب سے پہلے روسی پروفیسر ولنتین ژو کوفسکی نے ’’رباعیات ِعمرخیّام ‘‘کا ترجمہ کیا۔ پھربرطانیہ سے تعلق رکھنے والے فٹز جیرالڈ نے ان کی رباعیات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ اور بعض اہم مضامین میں رباعیات کا مفہوم پیش کرکے عمر خیّام کو کچھ ایسے انداز سے اہلِ یورپ سے روشناس کروایا کہ انھیں زندئہ جاوید کردیا۔
فٹز جیرالڈ نے تو خیّام کی رباعیات کا ترجمہ کچھ ایسے دل کش انداز میں کیا ہے کہ تاثیر اور معیار سے اصل کا گمان ہوتاہے۔ دراصل عمر خیّام کی شاعری کے مضامین، جیرالڈ کے مزاج سے کافی حد تک ہم آہنگ تھے، تو اس نے جس لگن سے شاعری کو انگریزی قالب میں ڈھالا، وہ بے مثال ہے۔ (جاری ہے)