اجتہاد
’’کوئی طاقت وژن 2030 کو ناکام نہیں بنا سکتی ،میری ناکامی دیکھنے والے ہماری اسپیڈ کو 5فیصد کم کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں ، اسلام میںممنوع امور کی سزاؤں کا تعین خدا نے کیا اور کچھ سزاؤں کا تعین خدا نے نہیں کیا اس کا فیصلہ فرد اور خدا کے درمیان ہے۔ اسلامی اسٹیبلشمنٹ کا سربراہ ولی الامر یعنی حکمران ہوتا ہے۔حتمی فیصلہ مفتی کا نہیں حتمی فتویٰ بادشاہ کا ہوتا ہے۔ سزائے موت مکمل ختم کردی گئی ہے سوائے جس کا قرآن میں ذکر ہے اوروہ ہے قتل کے بدلے قتل وہ بھی جب معاف کرنے والا معاف نہ کرے ، یہ قرآن کا حکم ہے، میں اسے پسند کروں یا نہ کروں میں اسے تبدیل نہیں کر سکتا ،مگر معا ف کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں مکمل محکمہ ہے عمل درآمد 6 ماہ یا 1 سال بعد ہوتا ہے تاکہ مقتول کے خاندان کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا وقت مل جائے بڑی تعداد میں موت کی سزائیں تصفیوں کے نتیجے میں منسوخ کردی جاتی ہیں۔کوڑوں کی سزائیں 100 فیصد منسوخ کی گئی ہیں۔‘‘یہ بات امریکی میگزین اٹلانٹک کو سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے طویل انٹرویو کے دوران کہی۔ انہو ں نے کہا کہ’’ شدت پسندوں نے ہمیں ہائی جیک کرلیا تھا اسلام کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔جس سے سنی شیعہ میں شدید قسم کے دہشت گرد گروہوں کی تخلیق ہوئی۔ آج ہم صحیح راستے پر واپس آچکے ہیں 6یا 7سال پہلے کی ویڈیوز دیکھی اور آج کی ہم نے بہت کچھ کیا ہے اور ابھی بہت کچھ کام ہونا باقی ہے، ہمارے نظریات و عقائد، قبائلی وعربی ثقافت ہماری روح ہےاس سے پیچھے ہٹیں توملک ٹوٹ سکتا ہے ،نہ ہم اپنے عقائد کی نفی کریں گے کیونکہ حرمین شریفین سعودی عرب میں ہیں۔‘‘دی اٹلانٹک نے سوال کیا کہ ہم نے 1983 میں آپ جیسے کسی شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران دیکھا تھا۔جو ماڈرن سعودی عرب کی بات کرتے تھے تو ولی عہد نے جواب دیا کہ’’ میں اعتدال پسند اسلام کی اصطلاح استعمال نہیں کروں گا ،ہم اسلام کوتبدیل نہیں بلکہ اصل اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں، جیسے پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کی حکمرانی میں مسیحی و یہودی بھی تھے۔‘‘دی اٹلانٹک نے سوال کیا کہ’’ آپ حدیث متواتر کی اہمیت پر زوردیتے ہیں اس سے پہلے کسی ولی عہد یا بادشاہ نے ایسا نہیں کہا،جواب میں کہا کہ’’ احادیث کی تین اقسام ہیں پہلی حدیث متواتر کی ہے۔ جن کی تعداد 100 کے قریب ہے۔جن پر عمل کرنالازم ہے ، مستند احادیث پر کام کر رہے ہیں جس پر دوسال لگیں گے ۔ہم دبئی یا امریکہ کی طرح نہیں بننا چاہتے ہمارے ملک کی اپنی شناخت ، معاشی و ثقافتی بنیادیں ہیں جن پر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ہم نقل نہیں بلکہ اپنے منصوبوںسے دنیا کو نئی چیز دینا چاہتے ہیں۔‘ہرالعلا منصوبہ جیساپراجیکٹ دنیا میں کہیں نہیںملتا۔‘ در عیہ منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا ثقافتی منصوبہ ہے جدہ کےمنصوبہ پر حجاز کا رنگ غالب ہے۔‘نیوم منصوبے کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ،مثلاً العلا ، درعیہ،نیوم اورنجد کے منصوبے ثقافتی میدان میں منفردہیں۔ جدہ کےگرد حجازی روایات ہیںاور ریاض میںتفریح، ثقافت، کھیلوں کے منصوبوںکا رقبہ 300 مربع کلومیٹر ہے ہم جدت پسند مگر پبلک انویسٹمنٹ فنڈ ہماری بنیاد ہے امریکہ کے ساتھ ہمارا تاریخی تعلق ہے۔ہم امریکہ کے ساتھ تمام شعبوں میں مفادات کا استحکام چاہتے ہیں۔کسی کو داخلی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں۔ یہ صرف ہم سعودیوں کا ہی حق ہے۔
السعود سعودی شاہی خاندان میںپانچ ہزار سے زائد شاہی افراد میری مدد کررہے ہیں اور میں ا ن کو جواب دہ ہوں،اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ سماجی امور میں آپ کا خاص نقطہ نظر ہے تو آپ ہم پر دباؤ ڈالے بغیرہی منوا سکتے ہیں۔میری پالیسیوں کی بدولت ہم جی 20 ممالک میں 17 ویں درجے پر پہنچ چکے ہیں 2030تک 15ویںدرجے میں شامل ہوں گے۔ 2021ہدف مجموعی قومی پیداوار میں 5.9 فیصد جی ڈی پی گروتھ تھا۔آئندہ شرح نمو 7 فیصد ہوگی۔‘‘ ایک سوال کے جواب پر دی اٹلانٹک میگزین کے صحافی کو انہوں نے خاموش کرادیا جب اس نے پوچھا کہ آپ کے مخالف کون ہیں جو آپ کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں؟ تو ولی عہدنےجواب دیا کہ’’ آپ میری بات جیسی ہے اسے ویسے ہی قبول کرلیں۔ ہم نے 60 یا 70 برس قبل غلامی کا نظام خود پر دباؤ سے متاثر ہوکر منسوخ نہیں کیا بلکہ یہ کام اس لیے کیا کہ بیرونی دنیا ہم سے اچھا تاثر لے۔ سعودیوں نے بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ امریکہ اور یورپ کی کمپنیاں ہمارے پاس ہیں۔ ان کمپنیوں کا اثر اچھا پڑا۔ اسی لیے ہم نے طے کیا کہ غلامی غلط رواج ہے اسے جاری نہیں رکھا جاسکتا بالآخر ہم نے غلامی کا رواج ختم کردیا۔ تاریخ میں کبھی بھی دباؤ کا اچھا اثر برآمد نہیں ہوا۔ آئندہ بھی کبھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ہم سعودی عرب میں امریکی ثقافت کو مانتے ہیں۔امریکی سوچنے کے طریقہ کار کو قبول کرتے ہیں ہم خود کو اس بات کا حق نہیں دیتے کہ امریکہ کوہم کسی قسم کے لیکچردیں۔ اس سے قطع نظر کہ ہم آپ کے ساتھ متفق ہیں یا نہیں۔ یہی اصول ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب میں ہم اس سماجی معیار تک رسائی حاصل کرچکے ہیں جس کے ہم آرزو مند ہیں۔ اس کے باوجود ہم بحیثیت سعودیہ ایسی تبدیلیاں اپنا رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کو اپنی ثقافت اور نظریات کی بنیا دپر درست سمجھتے ہیں۔ ‘‘چین کے بارے ولی عہدکا کہنا ہے کہ’’ سعودی عرب ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ عنقریب یہ دنیا میں سب سےزیادہ شرح نمو حاصل کرنے والا ملک بن جائیگا۔ ہمارے ہاں دنیا کے دس بڑے ریاستی فنڈز میں سے دو ہیں۔ مملکت دنیا بھر میں سب سے زیادہ محفوظ غیرملکی اثاثے رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ ہم نے امریکہ میں 800 ارب ڈالر اور چین میں100ارب ڈالر سے کم سرمایہ کاری کی ہے ،سعودیہ میں تین لاکھ سے زیادہ امریکی ہیں بعض کے پاس دونوں ملکوں کی شہریت ہےہمارے اور سعودیہ کے مفادات ڈھکے چھپے نہیں۔ فیصلہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ہمیںجتنا چاہیں جیت سکتے ہیں اورجتناکھونا چاہیں کھو سکتے ہیں۔‘‘