بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور صنعتوں کی بندش سے بڑھتی بیروزگاری نے کاروباری برادری کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔پاکستان کے تمام چیمبرز اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI)، سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز، ایس ایم تنویر اور مجھ سمیت یونائیٹڈ بزنس گروپ (UBG) کے دیگر رہنمائوں کیساتھ آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کیلئے ملک بھر میں پریس کانفرنسز کی گئیں اور یکم اگست کو میں نے گوہر اعجاز اور پاکستان کے 40چیمبرز کے صدور کیساتھ صدر مملکت آصف زرداری سے ایوان صدر اسلام آباد میں ملاقات کی اور درخواست کی کہ صنعتوں اور ملک کی بقا کیلئے وہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ صدر پاکستان کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال حکومت نے 90آئی پی پیز جن میں 52فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت ہیں، سے 1198ارب روپے کی بجلی خریدی جبکہ کیپسٹی چارجز کی مد میں 3127ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اس سے قطع نظر کہ بیشتر آئی پی پیز سے بجلی خریدی ہی نہیں گئی۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے سابق نگراں وفاقی وزیر توانائی محمد علی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جس نے 40 آئی پی پیز پر اپنی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرنا ہے۔ قارئین! 2024ء میں ہماری بجلی کی پیداواری صلاحیت 43000 میگاواٹ سے تجاوز کرگئی ہے جس میں نئی آئی پی پیز سے 23400میگاواٹ کی بجلی پیداوار شامل ہے جبکہ ہماری موجودہ طلب صرف 13000میگاواٹ ہے کیونکہ موجودہ فرسودہ ترسیل کے نظام سے ہم صرف 13000میگاواٹ بجلی ہی سپلائی کرسکتے ہیں لہٰذا حکومت نے ان سے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو 2000ارب روپے کے کیپسٹی چارجز ادا کئے جسے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے صارفین سے وصول کیا گیا۔ حکومت کی فی یونٹ بجلی لاگت تقریباً 35روپے ہے جس میں ایندھن کیلئے 10.60 روپے اور کیپسٹی چارجز کیلئے 24روپے شامل ہیں۔ یہ بجلی صارفین کو 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرنے کے باوجود حکومت کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ صنعتیں اس قیمت پر بجلی خریدنے سے غیر مقابلاتی ہوگئی ہیں اور بند ہورہی ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ حکومت،آئی پی پیز سے پیدا ہونیوالی 23400 میگاواٹ بجلی میں سے بمشکل 50 فیصد خرید کر استعمال کر رہی ہے، باقی پر حکومت کو کیپسٹی چارجز ادا کرنا پڑرہے ہیں۔ درآمدی کوئلے سے چلنے والے 5000 میگاواٹ کے آئی پی پیز پاور پلانٹس گزشتہ 2 سال میں بمشکل 25 فیصد سے کم پیداواری صلاحیت پر کام کررہے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ حکومت سے مجموعی 692 ارب روپے کے کیپسٹی چارجز وصول کر رہے ہیں۔ حکومت پر دبائو ہے کہ وہ درآمدی کوئلے کے بجائے تھر کے مقامی کوئلے کو استعمال کرے۔ اس کے علاوہ 50 فیصد سے کم صلاحیت پر چلنے والے ونڈ انرجی آئی پی پیز 175 ارب روپے سالانہ کیپسٹی چارجز وصول کررہے ہیں جبکہ 25فیصد صلاحیت پر چلنے والے RLNG پلانٹس حکومت سے 180 ارب روپے وصول کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شدید مالی مسائل کا شکار یہ ملک اس طرح کی ادائیگیاں برداشت کرسکتا ہے۔ 40خاندانوں کا پیٹ بھرنے کیلئے 10روپے یونٹ والی بجلی 60سے 70روپے یونٹ فروخت کرکے 25کروڑ عوام کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ قوم یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ ملک میں صرف 20000میگاواٹ بجلی کی طلب تھی تو دگنے سے زیادہ 43000میگاواٹ بجلی بنانے کے معاہدے کیوں کئے گئے؟ آئی پی پیز میں اوورانوائسنگ اور کک بیکس کے ذریعے سرمایہ کاری کو دگنا دکھاکر منافع لیاگیا، فیول کی کھپت میں کرپشن اور پیداواری استطاعت میں غلط بیانی ریکارڈ پر آچکی ہے اور ان آئی پی پیز کا غیر حقیقی منافع اور کیپسٹی چارجز کی ادائیگی اب عوام کے سامنے لانا ضروری ہے تاکہ ذمہ دار عناصر کا احتساب یقینی بنایا جاسکے۔ میں یہاں پاور سیکٹر پر سابق نگراں وفاقی وزیر محمد علی کی 16مارچ 2020 ء کی آئی پی پیز معاہدوں پر جاری رپورٹ کو شائع کرنیکی درخواست کرونگا جس میں انہوں نے آئی پی پیز معاہدوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے لیکن بیرونی دبائو پر اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔ حکومت ریاستی ضمانتوں کا حوالہ دیتے ہوئے آئی پی پیز معاہدوں کے جائزے سے ہچکچاتی ہے لیکن توانائی اور بجلی کا یہ بحران ملکی معیشت کی نائو کو خدانخواستہ ڈبو بھی سکتا ہے جسکا وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اعتراف کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقتدار میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز، اس وقت جب تاجر برادری، صنعتکار اور عوام ان نقصان دہ معاہدوں کیخلاف احتجاج کررہے ہیں، اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کے مطالبے پر ان آئی پی پیز کا فرانزک اور انرجی آڈٹ کروائے تاکہ کرپشن کی بنیاد پر وصول کئے گئے اربوں روپے کی وصولی کی جاسکے۔ اسکے علاوہ آئی پی پیز سے کیپسٹی چارجز کے بجائے مقابلاتی آفر (CTBCM) کے طریقہ کار سے بجلی خریدی جائے اور آئندہ آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر اربوں روپے کی ادائیگیوںسے روکا جاسکے۔ افسوس آج آئی پی پیز نے ملکی معیشت کو اپنے آہنی ہاتھوں سے جکڑا ہوا ہے۔ میری آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے درخواست ہے کہ وہ ملکی مفاد میں ان آئی پی پیز کے غیر حقیقی معاہدوں پر نظرثانی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔