• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیمی سیشن تاخیر سے شروع کرنے کے باوجود بازار میں 30 سے 40 فیصد درسی کتابیں موجود نہیں: اردو بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن

---فوٹو جنگ
---فوٹو جنگ

اردو بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں ساجد یوسف، حسین عباس، علی محمد اعوان، ندیم اختر اور فرحان کاغذی نے کہا ہے کہ تعلیمی سیشن ڈھائی ماہ کی تاخیر سے شروع کرنے کے باوجود بازار میں 30 سے 40 فیصد درسی کتابیں موجود ہی نہیں ہیں۔

پیر کو اردو بازار میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ٹریڈرز کا کہنا تھا کہ بازار میں دسویں جماعت کی ریاضی جماعت پنجم کی اردو، نہم تا بارہویں جماعت کی کیمیاء، نہم تا بارہویں کی طبعیات، دسویں کی انگریزی کی کتاب دستیاب نہیں ہے جبکہ گزشتہ 6 ماہ سے نویں اور دسویں جماعت کی کمپیوٹر کی کتاب ہی نہیں ہے، اسی طرح گیارہویں اور بارہویں کی حیاتیات کی کتاب بھی بازار سے غائب ہے۔

جنرل سیکیٹری اردو بازار ٹریڈر حسین عباس نے کہا کہ اس وقت اسٹیشنری پر بجٹ کے بعد 18 سے 20 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، ٹیکس عائد کرنے کے باعث والدین پر بوجھ بڑھ گیا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری ایک کمیٹی بنائی جائے، پنسل، واٹر کلر، ربر اور روشنائی سمیت سب پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ 

اردو بازار ٹریڈرایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین ساجد یوسف نے کہا کہ صوبے کے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور کتابوں کی چھپائی میں تاخیر کی وجہ سے تعلیمی سال اپریل کے بجائے اگست سے شروع ہوا ہے،  گزشتہ برس بھی کتابیں بچوں کو دیر سے ملیں جس کی وجہ چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ حکام اور پبلشرز کی نااہلی اور لالچ ہے، ان کی وجہ سے کتابیں تاخیر سے شائع ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کتابیں دیر سے ملنے کی وجہ سے انٹر کے طلبہ فیل بھی ہوئے، اس سال بھی ایک پبلیشرز بار بار عدالت جانے سے کتابوں کی چھپائی میں تاخیر ہوئی۔ 

انہوں نے کہا کہ ساٹھ فیصد مفت کتابیں سرکاری اسکولوں میں پہنچ گئیں ہیں مگر بازار میں ابھی بیشتر کتابیں دستیاب نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ پبلشرز ہول سیلرز کو ساڑھے سترہ فیصد رعایت دیں گے لیکن ہمیں پندرہ فیصد رعایت دی جا رہی ہے۔

فرحان کاغذی کا کہنا تھا کہ والدین کتابوں کے حصول کے لیے اردو بازار کے چکر کاٹ رہے ہیں مگر انہیں مکمل کورس نہیں مل رہا۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی سال اگست کے بجائے یکم اپریل کو شروع کیا جائے اور آئندہ برس کے لیے کتابوں کی چھپائی کا سلسلہ ابھی سے شروع کیا جائے تاکہ بچوں کو کتابیں وقت پر مل سکیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ میرا ایک اور مطالبہ ہے کہ کسی ایک پبلیشر کے پاس زیادہ کتابوں کی چھپائی کا ٹھیکہ نہ دیا جائے بلکہ اسے محدود کر کے 20 ہزار کیا جائے۔

قومی خبریں سے مزید