بہرکیف، دونوں کو ایک دوسرے کے سبب عالم گیر شہرت ملی۔ فریڈرک روزی لکھتے ہیں کہ،’’مشرق کے کسی شاعر کو اتنی مقبولیت نہ ملی کہ جتنی خیّام خیمہ دوز کو۔‘‘ دراصل خیّام کے معنی، خیمہ بنانے والے کے ہیں اور یہ اُن کا خاندانی پیشہ تھا۔ اُردو نظم کے عظیم شاعر، میراجی نے جہاں دنیا بھر کے عظیم شعراء کے کلام کے تراجم کیے، وہیں ’’خیمے کے آس پاس‘‘ کے نام سے ’’رباعیاتِ خیّام‘‘ کا ترجمہ بھی کیا اور یہ وہی کام ہے، جو انگریزی میں فٹز جیرالڈ نے سرانجام دیا تھا؎ جاگو، سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دُور بھگایا ہے..... اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے..... جاگو، اب جاگو، دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے.....راجا کے محل کے کنگورے پر اجول کا تیر چلایا ہے۔جب کہ مجید امجد نے خیّام اور میرا جی کی ہم آہنگی سے کیا خُوب کہا کہ؎ کس کی کھوج میں گُم صُم ہو، خوابوں کے شکاری، جاگو بھی.....اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چُکا۔
آغا شاعر قزلباش نے 1932ء میں ’’خم کدۂ خیّام‘‘ کے عنوان سے خیّام کی200رباعیوں کا ترجمہ کیا،جن میں سے ایک رباعی کا ترجمہ اس طرح ہے؎ آئی یہ صدا صبح کو مئے خانے سے..... اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے.....اُٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم..... کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے۔مشہور بھارتی اداکار، امیتابھ بچن کے دادا، ہری ونش رائے بچن نے بھی ’’خیّام کی مدھو شالا‘‘ کے نام سے خیّام کی رباعیات کا ترجمہ کیا تھا۔
بعدازاں، ان کا شعری مجموعہ ’’مدھو شالا‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا، جس میں جگہ جگہ خیّام کا رنگ صاف جھلکتا ہے۔ اِسی طرح برصغیر پاک و ہند کے درجنوں شعراء نے خیّام کی شاعری کے ترجمے اُردو زبان میں کیے، جب کہ مغرب میں جیرالڈ کی وجہ سے خیّام کی شہرت اس قدر پھیلی کہ اُن کا نام خمریات کی علامت بن گیا۔ یوں بھی شراب ان اقوام کی زندگی کا جزوِ لازم، تو خیّام کی شاعری کا بنیادی استعارہ تھی۔
خیّام نے مئے خانہ، جام، پیمانہ، پیالہ اور ساقی جیسی لفظیات سے ذکرِ معرفت، سرمستی اور عشق میں ڈوب جانے کی کیفیات کو رباعیات کا موضوع بنایا، تو عیش و عشرت کی دل دادہ یورپ کی اقوام نے اسے مئے نوشی اور وہ بھی بلانوشی سے تعبیر کیا، لہٰذا خیّام کے نام سے شراب خانے، جوا خانے اور نائٹ کلب بناڈالے، نیز، عمر خیّام کی سحر انگیز شخصیت پر متعدد ناولز بھی لکھے گئے۔
اُن کے اشعار پر انگریزی کے معروف ادیبوں یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی، اسٹیون کنگ اور دیگر نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے، وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیومنرو نے عمر خیّام سے متاثر ہو کر اپنا قلمی نام ہی ’’ساقی‘‘ رکھ لیا۔ اور خیّام کی شہرت صرف یہیں تک محدود نہیں، اُن کی زندگی پر ہالی وڈ کی متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
خیّام کی کتب کے قدیم نسخے
عمر خیّام نے اپنی کئی کتب کی نقول تیار کروا کر اپنے عہد کے نام وَر اہلِ علم کو بھیجیں۔ بادشاہوں کے درباروں تک اُن کی رسائی کا اہتمام کیا۔ کتب خانوں تک پہنچائیں، مگر اپنی رباعیات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اس وقت دنیا میں اُس کی رباعیات کا جو سب سے پرانا نسخہ موجود ہے، وہ 1207ء کا ہے۔معروف محقّق و ادیب، مرزا اے بی بیگ اپنے ایک مضمون میں عمر خیّام کے نسخوں کے حوالے سے لکھتے ہیں،’’آبِ زر اور سنہری اوراق پر لکھ کر جس طرح رباعیاتِ عمر خیّام کو حُسن و دل کشی کا مرقع بنایا گیا، اُس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘
اُن کی رباعیات کا ایک بیش قیمت اور گراں قدر مجموعہ بیسویں صدی کے اوائل میں تیار کیا گیا تھا، جو ٹائی ٹینک جہاز کے ڈوب جانے سے سمندر کی گہرائیوں کی نذر ہوگیا۔ اس بے مثال مجموعے کو 1911ء میں اپنے عہد کے ممتاز جِلد ساز، فرانسس سنگور سنکی نے دو سال کی محنتِ شاقّہ سے مکمل کیا تھا۔ بلاشبہ یہ حُسن وخُوب صُورتی میں اپنے عہد کی سب سے نایاب کتاب تھی، اسے جو بھی دیکھتا، دنگ رہ جاتا اور بے ساختہ اُس کے لبوں سے دادِ تحسین کے کلمات جاری ہوجاتے۔
اس شاہ کار کتاب کو 1050 جوہرات سے جمال بخشا گیا تھا، جن میں یاقوت اور زمرّد بھی شامل تھے۔ اس کی تزئین و آرائش پر تقریباًایک سو مربع فٹ سونے کے اوراق اور چمڑے کے5ہزارٹکڑے استعمال کیے گئے تھے۔ لندن کے ایک اخبار ’’ڈیلی مرر‘‘ نے اس انتہائی حیرت انگیز کتاب کی تصاویر سے مزیّن جِلد کو دنیا کا سب سے قابلِ ذکر نمونہ قرار دیا۔ اسی حوالے سے بھارت کے مشہور سیاست دان، مولانا ابوالکلام آزاد نے1914ء میں اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ’’خیّام کی رباعی کا امریکی ایڈیشن شائع کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پچھلے تمام نسخوں سے بہتر مرقعات کا اہتمام کیا۔
مگر اب تک اس قدر روپیا اور دماغ خیّام کی تصویروں پر کسی نے صَرف نہیں کیا۔ حالاں کہ اس کے لیے کئی سال قبل یورپ کے مشہور مصوّروں کی خدمات حاصل کرلی گئی تھیں اور اس غرض سے فارسی شاعری کی ادبی تاریخ اور اس عہد کے عجمی حکماء و شعراء کے لباس و اشکال کا تاریخی مواد بھی بہم پہنچایا گیا تھا کہ مصوّروں کو بہتر سے بہتر اور اقرب سے اقرب تصوّر کرنے میں مدد مل سکے۔
اُس امریکی نسخے کا کیا ہوا، اس کا تو علم نہیں، لیکن اس کے بعد سنگورسکی کے نمونے پر، اسی قسم کی ایک جِلد1930ء میں تیار ہوئی، جو جرمنی کے فضائی حملے کی زد میں آئی اور اُسے نقصان پہنچا، لیکن اب یہ نسخہ برٹش لائبریری میں محفوظ ہے، مگر اُس تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہے۔ کسی بھی شاعر کا یہ اوجِ کمال ہوتا ہے کہ اُس کا کلام دنیا کے مختلف خطّوں میں بسنے والے لوگ بیک وقت حرزِ جاں بنائے ہوئے ہوں۔ کیوں کہ الگ تہذیبوں منفرد زبانوں اور جداگانہ رہن سہن سے اشعار کے مفہوم اور معانی بہت بدل جاتے ہیں۔
عمر خیّام متعدد علوم و فنون میں ماہر تھے، انھوں نے جیومیٹری، ریاضی، فلکیات، طبیعات، تاریخ، کورانولوجی، تھیسوفی اور فلسفے کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا، نیز، عربی ادب سے بھی بخوبی آشنا تھے اور قرآن ِ مجید کے عالم تھے۔ کسی بھی آیت کی وضاحت کرسکتے تھے۔ تاہم، اُن کے اسلامی نظریات، قدامت پرست طبقے سے میل نہیں کھاتے تھے۔ ریاضی کے میدان میں اُن کی اوّلین دریافتوں نے اُنھیں مقبولِ عام کیا، تو اُنھوں نے سائنس کو اپنا مرکز و محور بنالیا۔
محض 25برس کی عُمر میں ریاضی میں پہلی دریافت کی، جس کے تحت مرکزی اقسام کیوبک، مربع، لکیری (مجموعی طور پر 25اقسام) کی ایک عمدہ درجہ بندی دی اور مکعب مساوات کو حل کرنے کے لیے ایک نظریہ بھی تشکیل دیا۔ خیّام ہی نے سب سے پہلے جیومیٹری اور الجبرا کی سائنس کے درمیان تعلق پر سوال اُٹھایا۔ سچ تو یہ ہے کہ علومِ نجوم، فلسفے اور ریاضی میں خیّام کے عہد میں کوئی اُن کا ہم سر نہیں تھا، لیکن وقت نے بھی اُن کے ساتھ کیسا مذاق کیا کہ جو خیّام مشرق میں فلکیات، فلسفے اور ریاضی کا ماہر تسلیم کیا گیا، وہی مغرب میں ایک بادہ پرست و مئے نوش بن کے رہ گیا، حالاں کہ یہ تعارف اُن کے مقام و مرتبے کے ہرگز شایانِ شان نہیں۔
داعئ اجل کو سجدے میں لبّیک کہا
خیّام کی وفات کا واقعہ بھی بہت دل چسپ و عجیب ہے۔ امام محمد بغدادی کے حوالےسے اُن کا معاصر تذکرہ نگار، بیہقی لکھتا ہے کہ،’’خیّام ایک دن بو علی سینا کی مشہور فلسفیانہ تصنیف ’’شفا کی الٰہیات‘‘ کا مطالعہ کر رہے تھے۔ جب واحد و کثیر کی بحث پر پہنچے، تو سونے کا خلال کتاب میں رکھ کر کتاب بند کردی اور کہا، چند سمجھ داروں کو بلائو، مجھے وصیّت کرنی ہے۔ پھر وصیّت کی اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔
اُس وقت سے پھر نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔ رات کو عشاء کی نماز میں سجدے کے دوران اُن کی زبان سے یہ فقرے ادا ہو رہے تھے کہ ’’بارِ الٰہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے اپنی بساط بَھرتجھے جانا، تُو مجھے معاف کر، کہ مَیں نے تجھے جتنا بھی جانا، وہی تیرے حضور میرا وسیلہ ہے۔‘‘ اور یہی کہتے کہتے وہ مرغِ نوا ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔‘‘ ایرانی سیاست دان اور مصنّف، محمد علی فروغی نے ایک حکایت اس طرح بیان کی ہے کہ’’خیّام ایک بار شراب پینے لگے۔
شراب کا کوزہ زمین پر گرکر ٹوٹ گیا اور ساری شراب بہہ گئی، تو خیّام نے اس پر بے ساختہ یہ رباعی کہی؎ ابریق می مرا شکستی ربّی.....برمن در عیش را بہ بستی ربّی.....من می خورم و تو میکنی بدمستی.....خاکم بدہن مگر کہ مستی ربّی۔ ترجمہ:’’اے خدا تو نے میرا شراب کا پیالا توڑ دیا اور میرے لیے عیش کا دروازہ بند کر دیا۔
مَیں تو نشے میں تھا، مگر میرے منہ میں خاک، کیا تم بھی مسحور تھے؟‘‘ خیّام نے جیسے ہی یہ رباعی کہی، اُن کا چہرہ بالکل سیاہ پڑ گیا۔ گویا اُن کی اس گستاخی اور کلماتِ کفر پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ خیّام نے فوراً اپنے گناہ سے توبہ کی اور پھر یہ رباعی پڑھی؎ آن کس کہ گنہ نکردہ چون زیست بگو..... ناکردہ گناہ در جہاں کیست؟ بگو.....من بد کنم و تو بد مکافات دہی.....پس فرق میانِ من و تو چیست بگو۔
ترجمہ:’’بتا، دنیا میں کون ایسا شخص ہے، جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ بتا کہ جس شخص نے گناہ نہیں کیا، وہ زندہ کیسے رہا، میں بُرے کام کروں اور تُو مجھے بُرا بدلہ دے، تو پھر بتا مجھ میں اور تجھ میں فرق کیا ہے۔‘‘کہتے ہیں، جب خیّام نے دوسری رباعی پڑھی توحیرت انگیز طور پر اُن کی معذرت قبول کرلی گئی اور اُن کا رنگ و روپ لوٹ آیا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ ایک رات شراب کی محفل عروج پر تھی۔ ہم پیالا و ہم مشرّب موج مستی کر رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے تیز آندھی چلنے لگی۔ تیز ہوا کے جھونکوں سے چراغ بجھ گئے اور خیّام کے ہاتھ سے صراحی چُھوٹ کر ٹوٹ گئی۔ شراب کی مدہوشی اور صراحی کے ٹوٹنے سے خیّام کی طبیعت بدمزہ ہوگئی، تو اُنھوں نے غصّے میں ایسی رباعی کہی، جس میں گستاخانہ الفاظ تھے۔
جب آندھی رُکی اور چراغ جلائے گئے، تو خیّام کے ہم نشینوں نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ بگڑ کر اس قدر خوف ناک ہو گیا تھا کہ سب دوست، احباب استغفار پڑھتے ہوئے ایک ایک کر کے اُنھیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ خیّام نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا، تو بہت آزردہ ہوئے۔ اُنھیں اپنی غلطی کا احساس شدّت سے ہوا اور بے ساختہ اُن کے لبوں پر مذکورہ بالا رباعی جاری ہو گئی۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے چہرے کی پہلے جیسی شادابی اور رونق لوٹ آئی، تو سجدے میں گرگئے اور اُسی وقت رُوح پرواز کرگئی۔
اپنی قبر سے متعلق پیش گوئی
1934ء میں عالمی تعاون سے عمر خیّام کا مقبرہ، ایران کے شہر نیشا پور میں تعمیر کیا گیا۔ مقبرے کی ساخت اِستادہ خیمے کی شکل میں محراب دَر محراب بلند و بالا ہے، یہ مقبرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ محرابوں پر خیّام کی رباعیاں کندہ ہیں۔ روایت ہے کہ خیّام نے اپنی قبر کی نسبت اپنی زندگی میں عجیب پیش گوئی کی تھی، جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔
سیّد سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’’عمر خیّام‘‘ میں نظامی عروضی کے الفاظ میں یہ واقعہ درج کیا ہے،’’506ہجری میں شہر بلخ میں بردہ فروشوں کی گلی میں امام عمر خیّام اور خواجہ مظفر اسفزاری ٹھہرے ہوئے تھے، مَیں اُن سے ملنے گیا۔ خیّام نے باتوں باتوں میں کہا کہ؎’’گور من در موضعے باشند کہ ہر بہاری بادِ شمال برمن گل افشانی کند‘‘ترجمہ: ’’میری قبر ایسی جگہ ہوگی، جہاں موسمِ بہار میں بادِ شمال اس پر پھول برسائے گی۔‘‘عروضی کہتا ہے کہ ’’خیّام کی یہ پیش گوئی مجھے محال معلوم ہوئی، لیکن مَیں جانتا تھا کہ خیّام ازراہِ مذاق ایسا نہیں کہتے۔
خیر، وقت گزرتا رہا۔ 530ہجری میں نیشا پور پہنچا، تو چند سال ہوئے تھے کہ وہ زیرِخاک ہوچُکے تھے۔ مجھ پر ان کی اُستادی کا حق تھا۔ سو، جمعے کے دن اُن کی قبر کی زیارت کو گیا اور ایک شخص کو اپنے ساتھ لے گیا تاکہ اُن کی قبر کی نشان دہی کردے۔ وہ مجھے گورستانِ حیرہ میں لے گیا۔ بائیں ہاتھ مُڑا، تو باغ کی دیوار کے نیچے قبر پائی۔ دیکھا، تو امرود اور زرد آلو کے درخت لگے ہیں اور پھولوں کی اتنی پتّیاں اُس پر گری ہیں کہ قبر بالکل ڈھک چکی ہے۔ اُس وقت مجھے بلخ کا واقعہ یاد آیا اور مَیں رو پڑا۔‘‘