بھارت میں آئندہ انتخابات کے متعلق دنیا ایک جانب تشویش میں مبتلا ہے تو دوسری طرف امید بھی ہے۔ امید اس لئے کہ بھارت جنوبی ایشیاء کو ایک ہم آہنگ خطے کی حیثیت سے اکیسویں صدی میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تشویش اس بات پر ہے کہ کہیں الیکشن کے نتائج اسے قوم پرستی اور علاقائی مسائل میں الجھا کر نہ رکھ دیں۔ انتخابی میدان میں بی جے پی کے نریندر مودی کی اہم پوزیشن کے باعث پاکستان مخالف جذبات بھڑکیں گے۔ یہ رویہ اروند کیجروال جیسی حزب اختلاف کا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ خواہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے واجپائی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے یا نہیں، تندی و تیزی کم نہیں ہو گی۔
جنوبی ایشیاء میں انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنا مشکل کام ہے لیکن کانگریس کے دس سالہ دورِ اقتدار کے بعد بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے لیکن ہندتوا سیاست کی گھن گرج سنائی دینے لگی ہے۔ رائے عامہ جائزوں کے مطابق حکمرانی سے محروم بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد کامرس یا پھر نریندر مودی کی مضبوط شخصیت کے باعث بی جے پی پر اعتماد کرنے کے لئے تیار ہے لیکن بی جے پی کو وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے لئے نہ صرف اتحادیوں کا تعاون درکار ہو گا بلکہ میڈیا میں بھاری اخراجات کے باوجود انہیں کئی اہم شخصیات کا تعاون بھی حاصل کرنا ہو گا۔ مودی جیسی کوریج کسی اور بھارتی رہنما کو نہیں مل رہی۔ کانگریس گذشتہ 63 برسوں سے سیکولر ازم کی دعویدار ہے لیکن اس کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور اسے اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔ اصلاح پسند راہول گاندھی کی قیادت میں انتخاب جیتنے کے امکانات زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔ جنوبی ایشیاء کے ہر ملک کی طرح بھارت میں بھی ایسی حکومت کی توقعات بڑھ رہی ہیں جو عوام کو ریلیف دے سکے۔ اروند کیجروال کی عام آدمی پارٹی کی مقبولیت عوامی عدم اطمینان کو ظاہر کرتی ہے لیکن ان کے اینٹی کرپشن ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہیں اچھے ساتھیوں کی ضرورت ہو گی۔ کیجروال کی خارجہ پالیسی ابھی تک واضح نہیں اگرچہ ان کے نعرے عوام کے لئے پرکشش ہیں۔
این ڈی اے یا یو پی اے اتحادوں کے علاوہ کسی تیسری قوت کے ابھرنے کا امکان بہت کم ہے۔ چھوٹی جماعتیں متحد ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے ووٹ کاٹ دیتی ہیں جس سے بڑی قومی جماعتوں کو برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ علاقائی جماعتوں نے 2004ء میں 48 فیصد نشستیں حاصل کی تھیں لیکن 2009ء میں ان کا حصہ کم ہو کر 43 فیصد پر آ گیا تھا۔ اس کا مطلب ان کی حمایت میں کمی نہیں بلکہ یہ علاقائی تضادات کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر دیو گوڑا کی شکل میں کوئی اتحاد تشکیل پا جاتا ہے تو ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ وہ صرف پاک بھارت دوطرفہ تعلقات پر ہی انحصار نہیں کریں گے۔جائزوں کے مطابق موجودہ بھارتی ووٹر شناخت یا نظریات کے بجائے اقتصادی مسائل کو اہمیت دیتے ہیں۔ایسے ووٹروں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بنا پر 2014ء میں بائیں بازو کی جماعتوں کو کم نشستیں ملنے کا امکان ہے۔
2014ء بھارت کے لئے صرف ایک عدد ہے اور تقدیر کے ساتھ اس کی نئی ملاقات نہیں۔ کیا سیاست کی بساط نہرو کے بعد کی مرکزیت کی ایک نئی بناوٹ کی طرف گامزن ہو گی؟ کیا مودی نومکس کے مارکیٹ ماڈل کو اختیار کرنا سرمائے کی طاقت پر قابو پانے کی کوشش ہے۔ ایسی غیر مساویانہ روش پر گامزن ہونے کے مضمرات کیا ہوں گے؟ کیا نئی بی جے پی بعض گروپوں کو الگ تھلگ کرنے کے رجحان سے غافل ہے یا پھر یہ مذہبی برتری کو چھپانے کا نقاب ہے؟ یہ صورتحال بھارت کے 190 ملین مسلمانوں کو کس سمت لے کر جائے گی؟
پاکستان میں معمولی اقلیت اور انتہا پسندی کے ماحول کی وجہ سے ہندوئوں کا کردار محدود ہے لیکن بھارتی مسلمان انتخابی سیاست میں ایک مضبوط قوت ہیں۔ 543 نشستوں پر مشتمل ایوان میں بھارتی مسلمان 110 نشستوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں جبکہ اس وقت ان کے پاس 30 نشستیں ہیں۔ سخت گیر عناصر، سیکولر اور علاقائی جماعتوں کی جانب سے برسوں تک لبھانے کی کوششوں کے باوجود مسلمان ووٹر کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ وہ انتقامی کارروائی سے محفوظ رہنے اور نمائشی اقدامات پر اکتفا کرتے ہیں جن میں کچھ ملازمتیں، کم پیسہ، مواقع اور تعلیم شامل ہیں تاہم مسلمان سنگدل نہیں اور گجرات فسادات پر نریندر مودی کی جانب سے معافی نہ مانگنے کے باوجود کئی نوجوان مسلمان بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ ایک کمیونٹی تک محدود ہونے کے بجائے نئے مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مسلمانوں نے کانگریس کو 2009ء میں 36 فیصد ووٹ دیئے تھے لیکن پارلیمنٹ میں فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف بل لانے میں ناکامی انہیں کانگریس سے مزید دور کرنے کا باعث بنے گی۔ بہوجن سماج فرنٹ جس نے بیشتر مسلمان امیدواروں کو گذشتہ الیکشن میں نمائندگی دی تھی وہ بھی دیگر کی طرح مسلمانوں سے وعدے کر رہی ہے لیکن کوئی بھی جماعت مسلمان ووٹروں کو متحد کرنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کر رہی۔
بھارت میں 18 سے 35 برس کی عمر کے 382 ملین نوجوان ووٹرز الیکشن کے نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔یہ تقسیم ہند کے بعد تیسری نوجوان نسل ہو گی۔ وہ یقیناً بھارت میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں،وہ سیاست سے نظریات کو خارج کر کے اسے زیادہ عملیت پسند اور نتائج پر مبنی بنانا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ مودی کو تقسیم کرنے والا یا کوئی مسیحا سمجھیں یا پھر راہول کو کانگریس کی ایسی آواز سمجھیں جو انصاف پسند ہے، خواہ کچھ بھی ہو، پرانے انتخابی نظریات تحلیل ہو چکے ہیں اور بھارت کی سیاسی مساوات بدل چکی ہے۔ یہ نسل پاکستان کے ساتھ امن کے قیام کو ماضی کی تلخیوں کے بوجھ تلے نہیں دبانا چاہتی۔ ان کی یادداشت پر تقسیم سے قبل کے ناسٹلجیا کے اثرات بھی کچھ کم ہو گئے ہیں۔ قلیل مدت میں پاکستان کے لئے اہم سوال یہ نہیں ہے کہ آیا 4 جی بھارت اپنے ناراض لوگوں کو جگہ دے سکتا ہے بلکہ یہ کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ کیسے تعلقات رکھتا ہے۔ پاکستان بدل چکا ہے۔ ہماری پارلیمانی قیادت اب بھارت کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھتی۔ کسی بھی رہنما نے الیکشن میں بھارت کے مسئلے کو نہیں اچھالا۔ پاکستان کے جمہوریت پسند سمجھتے ہیں کہ مستقبل علاقائی تعاون میں پنہاں ہے۔ بھارتی لوک سبھا میں بھی قوم پرستی کی گونج سنائی دیتی ہے جو اکثر پاکستان سے مذاکرات کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا پر دائیں بازو کے بلند بانگ جذباتی مباحثے ہوتے ہیں جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ خواہ تعداد کچھ بھی ہو کسی ممکنہ بحران میں سنگھ جیسے اعتدال کی توقع کرنا عبث ہو گا۔
پاکستان کے ساتھ نئے بھارتی وزیر اعظم کے رویّے کا انحصار اتحادی حکومت کی مضبوطی پر ہو گا۔ اکثریتی حکومت بننے سے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو گی۔ ایک کمزور حکومت اس تعطل کو مزید طول دے گی۔ دہلی کی جانب سے جامع مذاکرات بحال کرنے میں نیم دلی کا مظاہرہ جاری رہے گا البتہ اسلام آباد اور دہلی میں ممبئی معاملے پر مفاہمت صورتحال میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بحران سے نمٹنے کے اقدامات تنازع اور عدم اعتماد کی تاریخ سے نتھی رہے تو پھر دونوں ملک اسٹریٹجک معاملات پر ایک دوسرے سے دور رہیں گے اور شاید انڈیا یہی چاہتا ہے۔ اگرچہ تجارتی امور میں پیشرفت خوش آئند ہے لیکن نئی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف تجارت ہی دونوں اقوام کے درمیان روابط مضبوط نہیں بنا سکتی۔رقیبانہ سفارت کاری کے نتائج اس سے بھی بدتر ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں سیکورٹی انتظامات کی تبدیلی اور متوقع انتخابات کے بعد نئے اتحاد تشکیل پائیں گے۔ تب تک صورتحال غیر یقینی رہے گی۔ یقین سے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ نئی بھارتی قیادت کو یہ روابط بہتر بنانے کے لئے وقت درکار ہو گا۔شیری رحمن وفاقی وزیر اور امریکا میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکی ہیں اور جناح انسٹی ٹیوٹ کی صدر ہیں۔