دروغ بر گردن ِ راوی ’’کہتے ہیں کہ مولانا ابواعلیٰ مودودی اور حضرت جوش ملیح آبادی کے درمیان جتنا فکری تضاد تھا اتنے ہی گہرے دوست تھے۔بے تکلف دوستوں کی طرح ایک دوسرےپر جملے کس لیتےتھے ایک بار جوش ملیح آبادی کو پتہ چلا کہ مولانا مودودی کے گردےمیں پتھریاں بن گئی ہیں خاص طور پر عیادت کے لیے تشریف لائے اور مولانا سے کہنے لگے ’’مولاناسنا ہےاللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔ اگرچہ میرے گردوں میں نہیں پتے میں پتھریاں ہیں مگر اندر سے سنگسار ہونے والامعاملہ تو ایک جیسا ہی ہے۔‘‘
سنگباری سے نجات کےلئے میں تقریباً ہفتہ بھر سےجناح اسپتال کے سرجیکل وارڈ کے روم نمبر پانچ میں قیام پذیر ہوں۔ایسا لگ رہا ہے جیسے بالکل کسی انجانی بستی میں گھر بنا لیا ہے۔پہلے پہل یہ مجھے جناح اسپتال سے زیادہ جناح پور لگا۔جناح پور بھی کیا خوب صورت نام تھا۔ سیاست کی نذر ہو گیا۔ کچھ لوگ کراچی کے بے مفہوم نام کو جناح پور جیسا خوبصورت نام دینا چاہتے تھے۔ مگر افسوس کہ پھر کسی کم بخت نےجناح پورجیسے نام کو ایک علیحدہ ملک بنانے کی داستان سے جوڑدیا ۔
ہسپتال کی اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جیسی ہے، اشرافیہ وہی ہے، پھروہاں کے عوام کیسے بدل سکتے ہیں ۔تمام سلوک ،تمام رویے،زندگی گزارنے کے سارے فنون جو ہمارے ملک میں رائج ہیں وہی یہاں بھی نافذ العمل ہیں۔ذرہ بھر بھی فرق نہیں ۔ حتی ٰکہ یہاں بھی ایک بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی تصویر موجود ہے۔کہنے کا مطلب ہے کہ حکومت پنجاب اسپتال کےلیے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کادرجہ رکھتی ہے۔ سیکرٹری ہیلتھ کا فون امریکی صدر کے فون سے کم نہیں ۔ چند دن پہلے تک علی جان خان سیکرٹری ہیلتھ تھے آج کل ان کی جگہ عظمت محمود کو سیکرٹری اسپیشلائزڈ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن اور نادیہ ثاقب کوسیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر لگایا گیا ہے۔ برسوں سے اس محکمے کے دو سیکریٹری چلے آرہے ہیں اور شاید برسوں بعد دونوں کا چارج ایک علی جان کو ملاتھا۔
ان دنوں جیسے پاکستانی عوام کے حالات ہیں،ویسے جناح پور کی اس بستی میں رہنے والوں کے ہیں۔مریضوں اور ان کے لواحقین کی صورت ایک جیسی دکھائی دیتی ہے ۔اسپتال کے سربراہ ایک بار میرے کمرے میں تشریف لائے، انداز اور آواز سے لگتا تھا انہیں پاکستان کا سربراہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹرز میں زیادہ تر اچھے اور ایمان دار لوگ موجود ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ اسپتال بھی اسی معیار کا اسپتال ہو جیسے شوکت خانم کینسر اسپتال ہے۔ مگر مسئلہ وہی ہے کہ ایک روٹی اور دس بچوں نے کھانی ہے،جب کہ دس میں سے دو تین جوان ہیں۔
کچھ نرسیں بھی اچھی ہیں ۔کچھ ڈاکٹر ز بھی ۔لیکن ایک بات کی داد انہیں بھی جن کے مزاج ذرا خراب ہو چکے ہیں۔جتنی زیادہ تعداد میں مریض میں نے یہاں دیکھے ، کہیں اور کم ہی دیکھے ہونگے۔پھرایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں لوگوں کی اموات کم ہوتی ہیں ۔کیسی عجیب و غریب بات کردی میں نے ۔دراصل پچھلے دنوں ایک عزیز کے گھنٹے میں گولی لگی اور وہ ہلاک ہوگیا ۔بات عجیب لگتی ہے ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ گولی لگنے کے دس منٹ بعد اسے سروسز اسپتال پہنچا دیا گیا ۔اسپتال میں گولی نکالنےوالا ڈاکٹر ہی نہیں تھا۔ اوپر سے پٹی کرتے رہےاور علاج جاری رہا۔ تیسرے دن زہر جسم میں پھیلنے لگا۔ ڈاکٹر ز کو مشورہ دیا گیا کہ ٹانگ کاٹ دیں تاکہ اس کی زندگی بچ جائے مگر پانچویں دن مریض نے جان اللہ کے سپرد کردی ۔ڈاکٹروں نےسوچا کہ ایک لنگڑے کا دنیا میں کیا اضافہ کرنا۔
میں نے یہی بات جب جناح اسپتال کے ایک ڈاکٹر کوسنائی تو کہنے لگا ، گولی نکالنے والا اسپیشلسٹ تو ہمارے ہسپتال میں بھی نہیں ہے مگر ہم زندگی بچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔میں نے پوچھا مگر کیسے ۔ تو کہنے لگا۔ہم جب پہلی بار زخم کی مرہم پٹی کرتے ہیں توہر وہ چیززخم سےباہر نکال کرپھینک دیتے ہیں جس سے زہر پھیلنے کا امکان ہوتا ہے ۔وہ چاہے گولی ہی کیوں نہ ہو۔بس اس کی قسمت میں موت لکھی تھی۔وہ اگرسروسرز کی بجائے جناح آجاتا ہے تو عین ممکن ہے اس وقت آپ کے ساتھ گپ شپ کررہا ہوتا۔
میں نے حیرت سے پوچھا ’’ ان مخصوص ڈاکٹروں کی کمی کا سبب کیا ہے ۔ کہنے لگا۔جی میک اپ سرجری میں بہت پیسہ ہے ۔زیادہ تر ڈاکٹرز کا رجحان ادھر ہی رہتا ہے ۔پہلے ڈاکٹرز صرف صحت مند بناتے تھے اب خوبصورت بھی بنانے لگے ہیں ۔
مجھے ایک شعر یاد آگیا
سولہ سترہ سال کی کوئی حسینہ لگ رہی ہو
دیکھی ہے تُونے مری فوٹو گرافی ڈارلنگ
اور میں سوچنے لگا کہ فوٹو گرافر اگر تصویر میں خوبصورت دکھانےکی داد وصول کر سکتا ہے اور ڈاکٹرز تو باقاعدہ حسینہ عالم بنانے کی داد وصول کرتےہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)