• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم شہزاد، کراچی

”عاجز آگئی ہوں مَیں تو تمہاری الٹی سیدھی فرمائشوں سے… ہاف فرائی بناؤ، تو کہتے ہو کہ اُبلا ہوا انڈا چاہیے۔ مینگو شیک بناؤں، تو لسّی کی فرمائش کر دیتے ہو۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ مَیں جو بناؤں، تم وہی چُپ چاپ کھا لو۔“ اپنے چار سالہ بیٹے کے نِت نئے مطالبات سے جھنجھلا کر ثناء نے اُسے ڈانٹا، تو رخسانہ بیگم کا دل چاہا کہ وہ اپنی بہو کی اِن باتوں پر خُوب قہقہے لگائیں، مگر وہ چاہتے ہوئے بھی ایسا نہ کرسکیں۔

جب سے اُن کے پوتے، ابراہیم نے بولنا شروع کیا تھا، اُن کی بہو روزانہ ناشتا بناتے وقت اُس سے پوچھتی تھی کہ ’’بیٹا! کیا کھاؤ گے؟‘‘ تب ابراہیم کی عُمر ایک برس تھی اور انہوں نے ایک دو بار ثناء کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ’’یہ ابھی بچّہ ہے، جو بھی کھلاؤ گی، ہنستے کھیلتے کھا لے گا، لیکن اگر ابھی سے اس سے پوچھنے کی عادت ڈالو گی، تو یہ آگے چل کر تمہیں پریشان کرے گا۔‘‘ مگر ثنا نےاُن کی بات یک سر نظرانداز کردی تھی۔ اور صرف بہو ہی نہیں، اُن کی بیٹی بھی یہ بات سمجھنے پر آمادہ نہ تھی۔

وہ بھی نہ صرف اپنے بچّے سے اُس کی ’’چوائس‘‘ پوچھتی تھی، بلکہ جب کبھی اُسے کسی غلط بات پر ڈانٹتی ڈپٹتی یا اُس کی پٹائی کرتی، تو اُس کے بعد اُس سے سوری بھی کرتی تھی اور رخسانہ بیگم جب اُسے ایسا کرنے سے منع کرتیں، تو اُنہیں ہمیشہ یہی جواب ملتا کہ ”امّی! آپ کو نہیں معلوم… ہمارا ماؤں کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے۔ وہاں سب مائیں اپنے اپنے مسائل شیئر کرتی ہیں اور یوں ہمیں بچّوں کی تربیت میں آسانی ہو جاتی ہے۔“ اور رخسانہ بیگم یہ سُن کر خاموش ہوجاتیں۔

بے جا لاڈ پیار کے عادی یہی بچّے اب بڑے ہو رہے ہیں، تو مائیں اُن کے کھانے پینے سمیت دیگر بگڑی ہوئی عادات سے پریشان ہیں اور اُنہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کیسے کریں۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ سب کے لیے ایک ہی جیسا ناشتا بنایا جائے، مگر کسی کو کچھ چاہیے، تو کسی کو کچھ، جب کہ یہی حال کھانے کا بھی ہے۔

دُنیا جہاں کی نعمتیں کیوں نہ اُن کے سامنے رکھ دی جائیں، لیکن اگر فرائز کھانے کا دل چاہ رہا ہے، تو ماں کو فرائز بنا کر ہی دینا ہوں گے۔ نتیجتاً سارا دن ہی کچن کی نذر ہوجاتا ہے۔ اِس موقعے پر ساس یا ماں، بچّوں کو سب کے لیے تیار کیا گیا کھانا دینے کا مشورہ دے، تو پھر واٹس ایپ گروپ کی گردان شروع ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح اگر بچّے کو کسی کے سامنے ڈانٹ دیں، تو وہ فوراً چِلاّتے ہوئے ماں سے’’سوری‘‘ کرنے کا مطالبہ شروع کردیتا ہے اور نتیجتاً مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے ماں کو سوری کرنا ہی پڑتا ہے۔

پھر والدین یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ ’’پتا نہیں، بچّے ہماری بات کیوں نہیں سمجھ رہے۔‘‘ جب کہ درحقیقت ماں باپ بات نہیں سمجھ رہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم بچّوں کو دوست بن کر پالیں گے، تو وہ ہماری قدر کریں گے، ورنہ ہم تو آج تک اپنے ماں باپ سے بات کرتے ڈرتے ہیں، حالاں کہ ایسا والدین کی عزّت اور اُن کے مقام واحترام کے سبب ہوتا ہے۔

نیز، اُس دَور کے بچّے یہ بات اچّھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ اگر ماں باپ سونے کا نوالہ کھلاتے ہیں، تو دیکھتے شیر کی نگاہ سے ہیں، جب کہ آج والدین اپنے بچّوں کو سونے کا نوالہ تو کھلانا چاہتے ہیں، مگر اِس خوف سے شیر کی نظر سے دیکھنے سےگھبراتے ہیں کہ کہیں بچّے اُن سے دُور نہ ہو جائیں، حالاں کہ آج تک کبھی کسی نے ایک دوست کو دوسرے دوست سے ڈرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ذرا غور کیجیے، پہلے کے والدین کسی غلط بات پر اپنے بچّوں کی پٹائی بھی کردیتے تھے، تو بچّے آگے سے بالکل خاموش رہتے تھے، بلکہ جس بات سے منع کر دیا جائے، دوبارہ اُسے دہرانے کا تصوّر بھی نہیں کرتے تھے، جب کہ آج اگر بچّوں کو ذرا سا ڈانٹ بھی دیں، تو وہ رو رو کر آسمان سَر پہ اُٹھا لیتے ہیں اور مجبوراً والدین کو اُن کے سامنے ہتھیارڈالنے پڑتے ہیں۔ یاد رہے کہ والدین، والدین ہوتے ہیں اور اُن کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا، تو پھر وہ اپنا درجہ بدل کر اپنی اولاد کے دوست کیوں بننا چاہتے ہیں؟

انسان اپنی زندگی میں کئی لوگوں سے دوستی کرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہر دوست کی اہمیت کم، زیادہ ہوتی رہتی ہے، مگر ماں اور باپ ایسی دو ہستیاں ہیں کہ جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ اگر والدین اپنے مقام پر فائز رہیں، تو اِسی میں ان کی عزّت و وقار ہے، ورنہ دوستی میں تو سب چلتا ہے اور ایسی صُورت میں بچّوں کو ماں کی ممتا اور باپ کی قربانیاں بھی کبھی دکھائی نہیں دیں گی۔

بے شک، آج کل کے ماں باپ کو بہت سے فتنوں کا سامنا ہے اور وہ اپنے طور پر اپنی اولاد کی بہترین پرورش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے بچّوں کی تعلیم و تدریس ہی نہیں، بلکہ تربیت بھی عصرِحاضر کےتقاضوں کے مطابق کرنا چاہتے ہیں، لیکن آج کے تیز رفتار دَور میں جدید ٹیکنالوجی اور اُس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نِت نئے رجحانات سے بچّوں کو بچانا یقیناً ایک مشکل کام ہے، لیکن ابھی بھی وقت ہےکہ والدین اپنے ہم عصر افراد کے علاوہ اپنے بزرگوں کے تجربات سے بھی فائدہ اُٹھائیں تاکہ اُن کے بچے اُن ہی کی طرح لائق اور فرماں بردار اولاد بن سکیں۔