عشرت جہاں، لاہور
طاہرہ بیگم اپنی ماموں زاد بہن نسیم کے ہاں براجمان تھیں۔ دونوں کی سات سال بعد ملاقات ہورہی تھی۔ وہ چند دن پہلے ہی یوکے سے آئی تھیں اور اب باری باری تمام رشتے داروں سے ملاقات کررہی تھیں۔ اِس گھرکا وہی نقشہ تھا، جو دس سال پہلے تھا، بلکہ حالات بھی سرِ موتبدیل نہ ہوئے تھے۔ نسیم بیگم سے مل کر اُنھیں یقین ہوگیا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو حالات تو کیا، خُود کو بھی بدلنے پر قطعاً آمادہ نہیں۔ نسیم بیگم کچھ محجوب سی تھیں، طاہرہ کی سدا بہار شخصیت اور اپنا موازنہ کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں شرمندہ سی ہونے لگیں۔’’ عائشہ نظرنہیں آرہی، کہاں ہے وہ ؟‘‘
طاہرہ بیگم نے سوال کیا۔ ’’شادی کردی تھی اُس کی ، تمھیں پتا تو چل گیا ہوگا؟ نسیم بیگم کھسیانی سی ہوگئیں۔ ’’ہاں بھئی، سب کی خیر خبر رکھتی ہوں۔ تم نے بھی تو تعلیم کے دوران ہی اُسے رخصت کردیا۔‘‘’’اے لو!سترہ کی ہوکر اٹھارویں میں لگ گئی تھی، اچھا رشتہ آیا، تو بس ہاں کردی۔‘‘ وہ تھوڑے جوش سے بولیں۔ ’’اتنا بڑاگھر، اچھا کاروبار، اور کیا چاہیے تھا؟‘‘ ’’تو اب ٹھیک ٹھاک ہے، ایڈجسٹ ہوگئی سُسرال میں ؟‘‘ طاہرہ نے عام سا سوال کیا۔ ’’ارے نہیں، ایڈجسٹ کہاں ہوئی؟
ہمارے تو نصیب ہی خراب ہیں۔ آئی بیٹھی ہے آج کل۔ ‘‘ اب کے لہجے میں خاصی مایوسی تھی۔ ’’کیوں بھئی ، اتنے بڑے گھرمیں ایک فرد کی گنجائش نہیں؟‘‘ طاہرہ بیگم تنک کر بولیں۔ ’’سمجھ نہیں آتا، کیا مسئلہ ہے۔ پتا نہیں، کسی کی نظر لگ گئی ہے؟ اللہ جانے، اُنھیں ہم سے شکایت کیا ہے ؟’’نسیم بیگم ہاتھ مل رہی تھیں۔ ‘‘ داماد جی نے کہلوایا ہے کہ عائشہ کو صرف اِسی صُورت ساتھ رکّھے گا کہ وہ اپنے گھر والوں سے نہیں ملے گی۔ اُس کے ماں باپ، بہن بھائی نہ ہمارے گھر آئیں گے اور نہ ہم ان کے گھر جائیں گے۔ بتاتے بتاتے نسیم بیگم کی آواز بھرّاگئی۔
عائشہ ہے کہاں ؟ وہ تو بڑی پیاری بچّی تھی۔ طاہرہ بیگم فکرمندی سے بولیں۔ ’’ ابھی آکر ملے گی تم سے۔‘‘ نسیم نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔ ’’اپنے کمرے میں ہے، کسی نے شوہر کو رام کرنے کا وظیفہ بتایا تھا۔ اکیلے میں بیٹھ کر پڑھائی کرنی ہے، وہی کررہی ہے۔‘‘ بندہ خود اپنا بھلاچاہے گا، تو بھلا ہوگا ناں ! شادی جیسے بندھن کو وظیفوں ہی سے چلاناہے، ، توچل چُکا یہ رشتہ ۔‘‘ طاہرہ بیگم بغیر لحاظ، مروّت کیے تلخی سے بولیں۔
اتنے میں عائشہ بھی چلی آئی۔ انھوں نے پاس بلا کرماتھے پر پیار دیا۔ ’’بچّی کملا گئی ہے، ذرا دیکھو تو سہی ، رنگت کیسی زرد ہورہی ہے۔‘‘وہ بولیں۔ عائشہ شرمندہ سی ہوکر خالہ کے پاس بیٹھ گئی۔’’اور بھئی، کیا ڈیمانڈز ہیں تمھارے میاں کی، مَیں بھی تو سنوں؟‘‘ وہ لگی پٹی رکھے بغیر بے تکلفی سے گویا ہوئیں۔ ’’ایک تو کئی سال بڑے مرد کے حوالے کردی پھول سی بچّی اور پھر اس پر …‘‘ عائشہ نے ماں کی طرف دیکھا اور سرجُھکا لیا۔
’’کیا کریں، جو نصیب میں لکھا تھا، وہی ہوا۔ اب رشتہ تو ہر صُورت نبھانا ہے۔ ہماری تو یہی رِیت ہے، لڑکیاں ڈولی میں جاتی ہیں اور سُسرال سے ان کا ڈولا ہی اُٹھتا ہے۔ ‘‘ نسیم بیگم رسان سے بولیں۔ ’’ہوش کے ناخن لو نسیم! اولاد کو ان فرسودہ ، بودی روایات پر کیوں قربان کرتی ہو۔ داماد میاں کی کوئی ایک بات بھی قابلِ قبول ہے … کہیں آنا جانا نہیں، کسی سے بات نہیں کرنی۔ ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ دینا ہے۔
تم نے اُن سے یہ کیوں نہ کہا کہ ہم نے بیٹی بیچی نہیں ہے۔‘‘ طاہرہ بیگم تو جیسے آپے سے باہر ہو گئیں۔ عائشہ کی سسکیاں اُن کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ’’یہ دنیا کا خُوب صُورت ترین رشتہ ہے نسیم! اعتماد کے بل بُوتے پر چلتا ہے، وظائف سے نہیں۔ کوئی ضرورت نہیں، اُن کی کوئی بے تکی فرمائش ماننے کی۔ آج ایک غلط بات مان لی، تو یاد رکھنا، ہر قدم پرایک نئی بیٹری پاؤں میں پڑتی چلی جائےگی ۔‘‘ انھوں نے چند لمحوں میں جیسے فیصلہ سُنادیا۔
’’طاہرہ ! اگر یہ میکے بیٹھ گئی، تو اس کی دوسری بہنوں کو کون رشتے دے گا؟‘‘ نسیم بیگم زچ ہوکر بولیں۔ یوں بھی اُنھیں دنیا کے ہر مسئلے کاحل شادی ہی میں نظر آتاتھا۔ ’’خود کو مضبوط بناؤ بیٹی ! تم میں کوئی کمی نہیں ہے، ایسا کون سا جُرم ہے، جو تم سے سرزد ہوگیا ہے۔
خُود کو حالات کا مجرم مت سمجھو، اپنی طاقت بڑھاؤ، خود کو اتنا طاقت وَر کرلو کہ دوسرے کی ضرورت بن جاؤ۔ جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر حالات کی جانچ کرو۔ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کرو، کسی بھی قسم کی رہ نمائی کی ضرورت ہو، تو بلاجھجھک مجھ سے بات کرلینا۔‘‘ انھوں نے نسیم بیگم کی بات نظر انداز کرتے ہوئے عائشہ کو ہدایات دیں۔
عائشہ کو بھی خالہ کی باتوں میں بہت وزن محسوس ہورہاتھا۔ جوں جوں وہ بول رہی تھیں، اُس کے ذہن میں ایک لائحہ عمل واضح ہو رہا تھا۔ اُس نے ہتھیلی کی پشت سے رگڑ رگڑ کے اپنے آنسو پونچھے اور طاہرہ بیگم کے لیے تازہ چائے بنانے اُٹھ کھڑی ہوئی۔