• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرن نعمان

؎ حیات و موت نہیں، التفات کے لائق… فقط خودی ہے، خودی کی نگاہ کا مقصود۔ تجمّل جہاں، علاّمہ اقبال کی ’’ضربِ کلیم‘‘ میں غرق تھیں۔ اُن کی کُل وقتی ملازمہ شاکرہ اُن کے پاؤں داب رہی تھی۔ پڑھتے پڑھتے اچانک اُنھیں کچھ یاد آیا۔ ’’شاکرہ! آج کوئی بھی نہیں آیا، کیا وقت ہوگیا ہے؟‘‘ شاکرہ مُسکراہٹ چُھپاتے ہوئے بولی۔ ’’پونے بارہ ہوگئے ہیں، بی بی جان!‘‘ اِس گھر کے مکینوں کا یہ معمول تھا کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے سب تجمّل جہاں کو ’’شب بخیر‘‘ کہنے ضرور آتے تھے، لیکن آج وہ کب سے جاگ رہی تھیں، پر کوئی اُنہیں ’’شب بخیر‘‘ کہنے نہیں آیا تھا۔ اللہ جانے سب سو گئے تھے یا کسی کا آج سونے کا ارادہ ہی نہ تھا۔

شاکرہ! ذرا مجھے ٹیرس تک لے چلو۔‘‘ وہ خاصی دقّت سے وہیل چئیر پر بیٹھیں۔ اب وہ بوڑھی بھی تو بہت ہوگئی تھیں۔ شاکرہ اُنہیں ٹیرس پر لے آئی۔ دن کی بارش کے بعد اب آسمان بہت صاف اور تاروں سے بَھرا ہوا تھا۔ ہر چیز دُھل کر نکھر سی گئی تھی۔ گھر گھر سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ تیرہ اگست کی رات تھی۔ چند منٹ بعد چودہ اگست شروع ہونے والی تھی۔ جگہ جگہ سے فائرنگ، پٹاخوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ پر، تجمّل جہاں کے کانوں میں تو تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات ہونے والی وہ اناؤنسمنٹ ہی گونج رہی تھی، جو ریڈیو پاکستان لاہور سے مصطفٰی علی ہمدانی نے کی تھی۔ ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ 

السلامُ علیکم! 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے، پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، طلوعِ صبحِ آزادی…‘‘ یہ وہ الفاظ تھے، جو پچھلے پچھتّر سال سے اُن کے دل پر نقش تھے۔ گھڑی کی دونوں سوئیاں بارہ کے ہندسے پر گلے مل گئیں۔ آسمان رنگ برنگی آتش بازی سے جگمگا اُٹھا اور اچانک ’’تجمّل ہاؤس‘‘، ’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘‘ کی صداؤں سے گونجنے لگا۔ وہ حیرت سے پیچھے گھومیں، تو اپنے بچّوں، پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کو ہاتھ میں بڑا سا کیک، تحائف اور پھولوں کی ٹوکری اُٹھائے آتے دیکھا، تو اُن کا دل وطن اور اولاد کی محبّت سے سرشار ہوگیا۔ 

خوشی، قوسِ قزح بن کر اُن پر برسی۔ وہ سمجھ گئیں کہ یہی سرپرائز دینا تھا، اِس لیے کوئی ابھی تک اُن کو شب بخیر کہنے نہیں آیا تھا۔ سب سے پہلے شفیق صاحب نے آگے بڑھ کر اُنھیں گلے لگایا اور ماتھا چوم کر سال گرہ کی مبارک باد دی۔ وہ اُن کے بڑے بیٹے تھے۔ اُن کے بعد تجمّل جہاں کی دونوں بیٹیاں ساجدہ اور معصومہ آگے بڑھیں اور پھر اُن کے تمام پوتے، پوتیوں، نواسے نواسیوں نے، جو کہ زیادہ ترشادی شدہ، بال بچوں والے تھے، یکے بعد دیگرے اُنھیں وِش کیا اور تحائف دیے۔

**********

ٹی وی لاؤنج میں کیک کے ساتھ چائے کا دَور چل رہا تھا۔ سبھی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ تبھی اُن کا دس سالہ پڑپوتا اُن کے پاس آبیٹھا اور بولا۔ ’’بی بی جان! جب پاکستان بنا تھا، تب آپ پاکستان میں تھیں، یا بھارت میں؟‘‘ اُنھوں نے مُسکرا کراُسے دیکھا۔ مگر اُن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اُن کے داماد رضا احمد بول پڑے۔ ’’جی، بی بی جان! آج ہمیں قیامِ پاکستان کے بارے میں کچھ بتائیں، موقع بھی ہے اور ماحول بھی، کچھ بتائیے آزادیٔ پاکستان کا سفر کب شروع ہوا اور آپ اور بابا ہندوستان سے پاکستان کس طرح پہنچے؟‘‘ اُن کی اس بات پر سبھی مشتاق نظروں سے اُنھیں دیکھنے لگے۔ چھوٹے بچّے اُن کی وہیل چئیر کے بالکل قریب آکر بیٹھ گئے۔ بی بی جان کا شفیق، مُسکراتا چہرہ یک دَم غم کی پرچھائیں میں لپٹ سا گیا۔ 

نگاہیں جیسے دُور خلاؤں میں کچھ کھوجنے لگیں۔ ’’میرے بچوّ! آزادی کا سفر تو محمّد بن قاسم کی ہندوستان آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ پر، پاکستان کی طرف اِس سفر کا رستہ اُس وقت مُڑا، جب 1906 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ مسلمان رہنما مسلم لیگ کی پکار پرجُوق در جُوق لبّیک کہنے لگے۔ قائدِاعظم، علاّمہ اقبال، لیاقت علی خان، چوہدری رحمت علی، سردار عبدالرّب نشتر، شوکت برادران اور بھی نہ جانے کتنے بڑے بڑے نام مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹّھے ہو کر ایک بڑی قوّت بن کر اُبھرے۔1940 ء میں شاعرِ مشرق کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا اور منٹو پارک پر ہونے والے اجلاس میں، جہاں اب مینارِ پاکستان ہے، قراردادِ پاکستان منظور ہوگئی، تو پھر کیا مردوزن، کیا بچّے، بوڑھے، جوان سبھی یک زبان ہو گئے۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔‘‘ بی بی جان نے ایک لمحے کا توقف کیا۔ اُن کی آنکھیں، ماضی کی خُوب صُورت یادوں میں کھو کے جگمگا سی اُٹھی تھیں۔

’’اگلے سات سال میں جیسے جیسے تحریکِ ازادی زور پکڑتی گئی، مسلمانوں کا جوش و خروش بھی بڑھتا چلا گیا، مگر ساتھ ساتھ کانگریس کے ہندو لیڈرز، مسلمانوں کے تقسیم کے مطالبے پر ہندوؤں اور سکھوں میں شر انگیزی اور نفرت کو ہوا دینے لگے۔ زمانوں سے جو ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے، ایک دوسرے کے جانی دشمن ہو گئے۔ اور پھر 3جون 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے تقسیمِ ہند کی منظوری کے بعد تو ظلم و تشدّد کی ایسی آگ بھڑکی، جس نے مسلمانوں کا سب کچھ ہی تباہ وبرباد کر ڈالا۔ 

سب سے بڑی قیامت اُس وقت ٹوٹی، جب پنجاب کی غلط تقسیم، آدھا اُدھر اور آدھا اِدھر کر کے لاکھوں لوگوں کو یک سر بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت پہ مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کو اپنے آبائی گھروں سے نکل کرپاکستان کی سرزمین تک پہنچنے کے لیےکیا کچھ نہیں ہارنا، وارنا پڑا۔ اپنا گھر بار، مال مویشی، خونی رشتوں، پیاروں کی جانیں، یہاں تک کہ بہو، بیٹیوں کی عزتیں تک قربان کرنی پڑیں۔ یہ پاکستان ہمیں کسی طشتری میں رکھ کر ہرگز نہیں ملا۔ میرے بچّو! آگ و خون کےدریا پار کیے، تو ہم یہاں تک پہنچے۔‘‘ ماضی کی داستانِ الم دہراتے اِک بی بی جان ہی کا لہجہ بھیگا ہوا نہیں تھا، لاؤنج میں بیٹھے ہرفرد ہی کی آنکھیں نم تھیں۔

’’بی بی جان! آپ کی اور نانا جان کی شادی ہندوستان میں ہوئی تھی یا پاکستان میں؟‘‘یہ راحمہ تھی، اُن کی پڑ نواسی۔ مرحوم شریکِ سفر کے ذکر پر تجمّل جہاں کے لبوں کو مدھم سی مسکان چُھو گئی۔ ’’تمھارے نانا ہمارے پڑوسی تھے۔ ہم دونوں کے خاندان ایک ساتھ ہندوستان سے پاکستان پہنچے تھے۔ ہماری شادی یہاں پہنچنے کے بعد ہی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں ہم ضلع پٹیالہ کے گاؤں، اوجھان میں رہتے تھے۔ جب پاکستان بنا، تو مَیں کوئی دس برس کی تھی۔ دراصل، پاکستان بننے سے پہلے ہی حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان بننے کا اعلان ہونے کے دو دن بعد ہمارے محلے میں پولیس آئی اور تمام مسلمانوں کے گھروں سے ہر طرح کے ہتھیار، یہاں تک کہ سبزی کاٹنے والی چُھریاں بھی لے گئی۔ 

ہم بالکل بے بس اور نہتّے ہو گئے تھے۔ شام کو ہمیں خبر ملی کہ رات میں سِکھ بلوائی حملہ آور ہونے والے ہیں اور یہ خبر سُنتے ہی محلّے کے تمام مسلمان، گاؤں کے قریب دھوبی گھاٹ میں جاچُھپے۔ خبر سچّی تھی، حملہ ہوا اور سکھ دھوبی گھاٹ تک آپہنچے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تب جوان لڑکیوں کو میلے کپڑوں کے ڈھیر میں چُھپا دیا گیا تھا۔ ہمارے بزرگوں نے تمام مال اسباب سِکھوں کو دے کر اپنی جانیں بچائیں۔ ہم نے تمام رات دھوبی گھاٹ میں گزار کر صُبح مسجد کے نلکوں سے پانی پیا، پھر تمام عورتوں اور لڑکیوں نے ہندو عورتوں کی ساڑیاں باندھ لیں۔ 

پندرہ دن ہم یوں ہی چُھپتے چُھپاتے چلتے رہے اور ظلم و بربریت کے ایسے ایسے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے کہ جو آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی دل و دماغ سے محو نہیں ہو سکے۔ راستےمیں ایک ایسا کنواں بھی دیکھا، جو جوان عورتوں کی لاشوں سے اَٹا پڑا تھا۔ ہم شاید پندرہویں دن قلعہ بہادر گڑھ کے رفاہی کیمپ پہنچے تھے، بھوک، پیاس سے جسم لاغر ہو چُکے تھے۔ رستے بَھر ہم جنگلی پھل، بُوٹیاں اور پتّے کھا کھا کرگزارہ کرتے، گندے تالابوں سے پانی پیتے رہے تھے۔ مَیں تو کیمپ پہنچتے ہی بے ہوش ہوگئی تھی۔ کیمپ میں بھی اسہال کا مرض پُھوٹ پڑا تھا۔ 

ہر طرف افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ کنووں میں زہر ملا دیا گیا ہے، لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے تھے۔ ایک ایک دن میں کئی کئی لاشیں دفنائی جاتیں۔ میری اپنی دو بہنوں اور تمھارے نانا کی والدہ نے اسہال ہی سے دَم توڑا تھا۔ ایک ماہ بعد چچا کے تعلقات کام آئے اور ایک فوجی ٹرک ہمیں لینے آگیا۔ اُسی نے ہمیں ریلوے اسٹیشن تک پہنچایا تھا۔ تب ریلوے اسٹیشنز بھی قتل گاہیں بنے ہوئے تھے۔ 

خوش قسمتی سے ہمیں پولیس والوں کے قریب جگہ مل گئی اور ہم ٹرین میں سوار ہو کر دو دن بعد دہلی پہنچ گئے۔ تب دہلی میں حالات کچھ بہتر تھے، لیکن ہمیں بہرحال پاکستان ہی جانا ہی تھا۔ کچھ عرصہ شدید تنگی، خوف میں گزار ک ہم دہلی سے پیدل ہی لاہور کی طرف چلے تھے۔ اور پھر دُکھوں، اذیتوں کا یہ کٹھن سفر طے کرتے، مرتے کھپتے آخرکار ہم لاہور پہنچ ہی گئے۔‘‘ تجمّل جہاں ایک بار جو بولنا شروع ہوئیں، تو پھرجب تک گلا رندھ نہیں گیا، بے تکان بولے چلی گئیں، مگر ماضی کی یادیں اتنی ہول ناک تھیں کہ بیان کرتے کرتے اُن کا چہرہ تمتمانے لگا تھا۔ بڑی بیٹی ساجدہ نے آگے بڑھ کے ماں کو سہارا دیا، بہو نے پانی کا گلاس پیش کیا، تو وہ کچھ سنبھلیں۔

’’لاہور میں ہم ایک ہندو کے چھوڑے ہوئے گھرمیں رہائش پذیر ہوئے۔ بعد میں ہمیں لکشمی چوک پر ایک چھوٹا سا گھر الاٹ ہو گیا تھا۔ تمھارے نانا کے والد رحیم داد اور میرے والد مستقیم احمد بہت اچھے دوست تھے۔ مشکل حالات میں ایک ساتھ گزارہ کرنے سے دونوں خاندان کچھ اور بھی قریب آگئے، تو چارسال بعد تمھارے نانا کی اور میری شادی ہوگئی۔‘‘ بی بی جان نے راحمہ کی طرف دیکھ کر مُسکراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔ ’’بی بی جان! کیا آپ واقعی 14 اگست کو پیدا ہوئی تھیں؟‘‘ اُن کے پوتے رامس کو شاید کچھ شبہ تھا، تب ہی اگلا سوال اُس نے کیا۔ جواباً وہ دھیرے سے ہنس دیں۔ 

’’اللہ جانے ماں نے کون سی تاریخ کو جنم دیا تھا، پر دوسرا جنم تو14 اگست ہی کو ملا، ورنہ توشاید تمھاری دادی زندہ ہی نہ ہوتی اور اگر ہوتی بھی تو زندہ لاش ہی کی صُورت ہوتی۔‘‘ اُن کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کرسارے بچّےاُن کےمزید قریب کھسک آئے اور رامس تو اُن سے لپٹ ہی گیا۔ ’’بی بی جان! ہم نے آج تک صرف سُنا ہی تھا کہ پاکستان لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، پر آج یقین آگیا ہے اور اب تو مجھے پاکستان اور بھی زیادہ پیارا لگنے لگا ہے۔‘‘

ٹی وی اسکرین پر قومی پرچم لہرا رہا تھا اور بیک گراؤنڈ میں کوئی ملّی نغمہ چل رہا تھا۔ شفیق صاحب نے آواز بڑھائی، تو ایک کے بعد ایک، سارے ہی بچّے احتراماً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تجمّل جہاں نے اپنا ہاتھ ماتھے تک لے جا کے پاکستانی پرچم کو سلامی پیش کی، تو سب ہی ہم آواز ہوگئے۔ ؎ میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پر نثار کردوں…محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پر نثار کردوں۔

سنڈے میگزین سے مزید