مصلح الدین شیخ سعدی شیرازی، المعروف شیخ سعدی 1210ء میں ایران کے شہر، شیراز میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک بہترین شاعر، مصنّف، ادیب، فلسفی اور صوفی بزرگ تھے۔ اُنھیں عربی و فارسی زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔اپنے والد، عبداللہ شیرازی کے انتقال کے بعد حصولِ تعلیم کے لیے آبائی شہر، شیرازکو خیرباد کہہ کر بغداد تشریف لے گئے اور وہاں مشہور مدرسے، ’’النظاميہ‘‘ سے اسلامی سائنس، قانون، حکمت و فلسفہ، تاریخ، عربی ادب اور اسلامی الٰہیات کی تعلیم حاصل کی۔
جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد شام، مصر، عراق، فلسطین، طرابلس اورترکستان سمیت دیگر متعدد ممالک کےسفر اور کئی حج کیے۔ سفر کے دوران جہاں جہاں سے گزرے، ان مقامات کو نظم کے پیرائے میں ڈھال دیا۔ طویل سیّاحت کے بعد شیراز لوٹے، تو اپنے عُمر بھر کے تجربات اور مشاہدات کو’’ گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور اُن کی یہ دونوں ہی کتابیں شہرئہ آفاق حیثیت کی حامل ہیں۔ پہلی کتاب ’’گلستان‘‘ نثر پر مشتمل جب کہ ’’بوستان‘‘ نظمیہ ہے۔ شیخ سعدی کی حکایتیں عالم گیر شہرت رکھتی ہیں، جو پندو نصائح سے بَھری پڑی ہیں۔
سات سو برس وقت کی گرد میں گُم ہوئے، مگر شیخ سعدی شیرازیؒ کی شخصیت کا پُھول، اس دُھول میں آج بھی شگفتہ اور ترو تازہ ہے۔ اُن کی دانش سے آج بھی زمانہ فیض یاب ہورہا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی میں جس قدر منازل سے گزرنا پڑتا ہے، شیخ سعدی نے لگ بھگ سب سے متعلق رہنمائی کی ہے۔
بادشاہوں کے لیے سعدی کے تصرفاتِ روحی کا دروازہ کُھلا ہے، تو فقیروں کے لیے بھی اُن کے پیمانۂ صبر و توکّل میں شرابِ ارغوانی موجود ہے۔ سعدی کی زبان ہزار داستان تھی۔ اُن کے گلستانِ معانی میں اخلاق و اعمال کے وہ پُھول کِھلے، جن کی مہک آفرینی سے دُنیا ہمیشہ مسحور رہے گی۔
آپ کے بوستانِ خیال کی بُو باس اب تک ویسی ہی دل رُبا ہے، جیسی کہ بارہویں صدی عیسوی میں تھی۔ایران کی سرزمین سے نابغۂ روزگار ہستیوں کا ظہور ہوا، مگر شیراز کی قسمت میں لازوال شہرت لکھی تھی اور یہ شرف، اس شہر کو سعدی شیرازی کی باغ و بہار ہستی کے باعث نصیب ہوا۔ ایرانیوں نے جس طرح قُم کو ’’دارالمومنین‘‘ کا خطاب دیا ہے، اسی طرح شیراز کو ’’دارالعلم‘‘قرار دیا۔ شہر کی جمالیات، تخلیق کار کے ذوق اور شوق کو مہمیز عطا کرتی ہے۔ شیراز کے اکثر مشائخ، علماء و شعراء پاکیزہ طبع اور لطیف و ظریف واقع ہوئے ہیں۔
شیخ سعدی نے بھی اہلِ شیراز کو اُن تمام اشخاص پر ترجیح دی، جن سے اُن کی مختلف اسفار میں ملاقات رہی۔ خود فرماتے ہیں؎ چو پاکاں شیراز خاکی نہاد.....ندیدم کہ رحمت برآں خاک باد۔ ترجمہ:(شیراز کی سرزمین پر اللہ کی رحمت ہو، کہ اس سرزمین کے باسیوں جیسے پاک طینت لوگ مَیں نے اور کہیں نہیں دیکھے)۔ ’’تقویم والبلدان‘‘ میں لکھا ہے کہ’’شہرِ شیراز کے مکانات بہت وسیع، بازار پُررونق اور گھر گھر نہر جاری ہے۔
شاید ہی کوئی مکان ایسا ہو، جس میں ایک عمدہ باغ اور نہر نہ ہو۔‘‘ شیخ علی حزیں نے بارہویں صدی ہجری میں، جب کہ شیراز کی رونق معدوم ہوچکی تھی، اُسے دیکھا اور اپنی سوانح عُمری میں اس کی بہت تعریف و توصیف کی۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’شیراز کی آب و ہوا دماغ کے ساتھ بہت مناسبت رکھتی ہے۔ جس قدر چاہو، کتاب کے مطالعے اور فکر و غورِ مضامین میں مصروف رہو، کبھی جی نہ اُکتائے گا۔‘‘
شیخ سعدی بچپن سے والد کی سخت نگرانی میں رہے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت بھی انہی سے حاصل کی۔ ایک بار اپنے والد کے ساتھ مبارک شب، رات بھر جاگتے رہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت اور نوافل پڑھتے رہے۔ کچھ لوگ غافل سوئے ہوئے تھے۔ شیخ سعدی نے اُنھیں اس طرح سوئے ہوئے دیکھا، تو والد سے کہا۔ ’’یہ لوگ کیسی بے خبری کی نیند سو رہے ہیں، کسی کو بھی اتنی توفیق نہیں کہ وہ اُٹھ کر اللہ کی عبادت کرے اور اپنے خالقِ حقیقی کی نعمتوں کا شُکر ادا کرے۔‘‘
جواباً سعدی کے والد نے، جو خود زاہد و متقّی تھے، فرمایا۔ ’’بیٹے! اس سے تو بہتر تھا کہ تم بھی اُن کی طرح سوئے رہتے، کم سے کم غیبت سے تو بچ جاتے۔‘‘والد کی وفات کے بعدشیخ سعدی کی تربیت والدہ نے کی۔انھوں نے دورانِ تعلیم شیراز میں علماء، مشائخ، فصحاء و بلغاء کی جماعتِ کثیر دیکھی، اس لیے تحصیلِ علم کا شوق دامن گیر ہوا۔
اس شہر میں تحصیلِ علم کے مواقع اور سامان تو موجود تھا، مگر جنگی معرکوں کی وجہ سے ابتری رہا کرتی، اس لیے شیخ سعدی نے شیراز چھوڑ کر بغداد جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کوئی آسان نہیں تھا، مگر علم کا شوق شیراز کی محبّت پر غالب آگیا۔ وہ کہتے ہیں؎ دلم از صحبت شیراز بہ کلی بگرفت.....وقت آن است کہ پُرسی خبر از بغدادم.....سعدیا! ُحب وطن گرچہ حدیثے ست صحیح.....نہ تواں مرد بہ سختی کہ من ایں جا زادم۔
ترجمہ :(میرا دل شیراز کی صحبت سے تنگ آگیا۔ اب وہ وقت ہے کہ مجھ سے بغداد کا حال پوچھو۔ اے سعدی! وطن کی محبت اگرچہ بالکل درست بات ہے، مگر اس ضرورت سے کہ مَیں یہاں پیدا ہوا، سختی میں مَرا نہیں جاتا)۔
اُس زمانے میں عالمِ اسلام میں بہ کثرت مدارس تھے۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت مدرسۂ نظامیہ بغداد کو حاصل تھی، جسے خواجہ نظام الملک طوسی نے 459ہجری میں تعمیر کروایا تھا۔ ہزاروں جلیل القدر علماء و حکماء نے اس مدرسے سے اکتساب کیا۔ شیخ سعدی بھی اسی سبب یہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔
ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے ہم وطن، شیخ ابو اسحاق شیرازی جو علم و فضل میں آفاقی شہرت کے حامل تھے، اس مدرسے کے اوّلین متولّی رہے تھے۔ اس وجہ سے اہلِ شیراز کو اس مدرسے سے خاص نسبت، اُنسیت اور قلبی لگائو تھا، لہٰذا اُس مدرسے میں داخلہ لیا، جس کے سبب کچھ وظیفہ بھی مقرر ہوگیا۔
بغداد میں جن لوگوں سے شیخ سعدی نے تعلیم حاصل کی، اُن میں علامہ ابوالفرج عبدالرحمٰن ابنِ الجوزی کا نام قابلِ ذکر ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں شیخ سعدی کے اساتذہ، ہم عصر طلبہ اور دیگر اُن کی خوش بیانی اور حُسن تقریر کو بہت سراہتے تھے۔ یہ شیخ کی جوانی کا آغاز تھا۔ ایک بار سعدی نے اُستاد سے شکایت کی کہ فلاں طالب علم مجھے رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جب میں مسائلِ علمیہ بیان کرتا ہوں، تو وہ گویا حسد سے جل جاتا ہے۔
اُستاد یہ سُن کر شیخ پر برہم ہوئے اور کہا۔ ’’اوروں کے رشک و حسد کی تو شکایت کرتے ہو اور اپنی بدگوئی اور غیبت کو بُرا نہیں سمجھتے۔ تم دونوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔‘‘ شیخ سعدی کی طبیعت پر شروع سے تصوّف کا رنگ غالب تھا، لیکن اپنے مرشد و رہنما کے لیے انہوں نے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کا انتخاب کیا۔ خود فرماتے ہیں۔’’جب میں بیعت ہوا، تو میرے شیخ نے مجھے دو نصیحتیں کیں۔ ’’ایک تو اپنی ذات کا پُجاری مت بننا۔ دوم، کسی کو اپنے علاوہ بُرا نہ سمجھنا۔‘‘
بغداد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد شیخ نے مطالعۂ کائنات کا قصد کیا اور بے چین رُوح کا سامان کرنے کے لیے دنیا کے سفر پر نکل پڑے۔ تذکرہ نگاروں نے شیخ کی زندگی کو چار ادَوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دَور حصولِ علم، دوسرا، سیر و سیّاحت، تیسرا تصنیف و تالیف اور چوتھا، خلوت نشینی۔ شیخ سعدی سیر و سیّاحت میں بغداد، شام، فلسطین، عراق، مصر، یمن، ہندوستان اور مکّہ معظمہ سے شمالی افریقا تک صحرا نوردی میں مصروفِ عمل رہے۔
اس دوران انھوں نے14بار پیدل حج کیا اور یہ خود شیخ کے کلام سے بھی ثابت ہے۔ سیر و سیّاحت میں مختلف ممالک اور ان کی تہذیبوں کو قریب سے دیکھنے، مختلف خطّوںکے لوگوں کے رہن سہن، اخلاق و عادات، رسومات، روزمرّہ کی زبان، حکایات، کہاوتوں اور واقعات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں، یہی تجربات و مشاہدات اُن کی کتب کی زینت بنے۔
مولانا الطاف حسین حالی ’’حیاتِ سعدی‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’سعدی نہایت دشوار گزار اور چٹیل میدانوں میں پا پیادہ سیکڑوں میل چلے جاتے تھے۔ رات بھر کی مسلسل پیادہ روی سے تھک کر چُور ہوجاتے اور بسا اوقات عین راستے میں پتھریلی زمین ہی پر سو جاتے۔ کبھی مجاہدہ اور نفس کشی کے لیے بیت المقدس میں مشک کاندھے پر رکھ کر سقائی کرتے۔ لوگوں کو پانی پلاتے پھرتے، کبھی کسی درویش کے کشف و کرامات کا سُن کر اُن کی زیارت کے لیے روم چلے جاتے۔
کبھی انبیاء کے مزارات پر اعتکاف کرتے۔‘‘سعدی، مشرق میں خراسان، تُرکستان اور تاتار تک گئے، بلخ و کاشغر میں مقیم رہے۔ جنوب میں سومنات تک آئے اور ایک مدّت تک یہاں ٹھہرے اور بھارت سے ہوتے ہوئے سرزمینِ عرب چلے گئے۔ شمال اور مغرب کی طرف، عراق، عجم، آذربائیجان، شام، فلسطین اور ایشیائے کوچک سے بارہا اُن کا گزر ہوا۔ اصفہان، تبریز، بصرہ، کوفہ واسط، بیت المقدس، طرابلس الشرق، دمشق، دیارِ بکر اور اقصائے روم کے شہروں اور قریوں میں مدتِ دراز تک اُن کی آمد و رفت رہی۔ مغرب کی جانب عرب اور افریقا میں بار بار جانا ہوا۔
ہندوستان سے مراجعت کے وقت یمن اور صفا میں ایک مدّت تک قیام رہا۔ حجاز مقدّس پہنچے، اسکندریہ، مصر اور حبش کے واقعات اُن کے کلام میں مذکور ہیں۔ شیخ سعدی نے متعدّد بار سمندری سفر بھی کیا۔ خلیج فارس، بحرِ عمان، بحیرئہ عرب، بحیرۂ قلزم اور بحرِ روم میں اُن کے متعدّد اسفار ثابت ہوتے ہیں۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ وہ یورپ کے اکثر ممالک بھی گئے۔ ان ممالک کی سیّاحت دل کی آنکھیں کھول کر کی، دماغ میں تلخ و شیریں یادوں کو بسایا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ گہری سوچ بچار کے بعد جو نتائج اخذ کیے، اُنہیں نہایت شیریں نثر اور دل فریب اشعار کے ذریعے عوام النّاس تک پہنچایا۔
’’مجالس العشاق‘‘ میں لکھا ہے کہ شیراز کے حمّام میں شیخ سعدی اور حکیم نزاز قہستانی کی ملاقات ہوئی۔ شیخ نے اپنے گھر پر حکیم نزارکی پر تکلّف ضیافت کی اور کئی دن تک مہمان رکھا۔ حکیم جب کھانے کے دسترخوان پر بیٹھا کرتا تو کہتا۔ ’’ہائے! دعوتِ خراسان‘‘ شیخ سعدی حیران ہوتے کہ عمدہ اور نفیس کھانے کی دعوت مَیں کرتا ہوں، مگر یہ حکیم، دعوتِ خراسان کو یاد کرتا ہے۔ خیر، بات آئی گئی ہوگئی۔
کچھ عرصے بعد شیخ سعدی کو خراسان جانے کا اتفاق ہوا، تو وہاں حکیم نزار نے انھیں تین دن کھانا کھلایا۔ پہلے روز سادہ روٹی اور معمولی ترکاری دسترخوان کی زینت بنی۔ دوسرے روز سوائے پنیر کے کچھ نہ تھا۔ تیسرے دن گوشت کا اُبلا ہوا ایک پارچہ اور خشکہ تھا۔ چلتے وقت شیخ سعدی نے ازراہِ تفنّن کہا۔ ’’ہائے دعوتِ شیراز۔‘‘ جواباً حکیم نزار نے ہنس کرکہا۔ ’’جس طرح آپ نے میری ضیافت میں تکلّفات کیے تھے، اُس طرح مہمان بہت جلد بارِ خاطر ہوجاتا ہے، لیکن ہمارا طریقہ ایسا ہے کہ اگر تمام عُمر بھی مہمان رہے، تو اس کا رہنا ناگوار نہیں ہوتا۔‘‘ شیخ سعدی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا۔
مختصر یہ کہ شیخ سعدی کی تمام سیّاحت تجربات سے عبارت تھی۔ سرگورا وسلی نے لکھا ہے۔’’شیخ سعدی کی ایک نظم، نظر سے گزری، جس میں انہوں نے 18مختلف زبانیں اُن ممالک کی لکھی ہیں، جہاں جہاں کی انھوں نے سیّاحت کی۔‘‘شیخ سعدی کی رائے میں سفر پانچ قسم کے اشخاص کو زیبا ہے۔ اوّل، دولت مند۔ دوم، عالم فاضل، جو فصیح و بلیغ ہو۔ سوم، خُوب صُورت۔ چہارم ،خوش آواز اور پنجم، صاحبِ ہُنر، یعنی اہلِ پیشہ۔
اپنے اس بیان کی وضاحت میں اُنہوں نے حکایت میں ان اوصاف کے حامل افراد کی خُوبیاں اور وجوہ بھی تفصیل سے بیان کی ہیں۔ صوفیائے کرام کی اکثریت سیّاح گزری ہے۔ چناں چہ قول مشہور ہے’’صوفی دواں اور پانی رواں ہی اچھا رہتا ہے۔‘‘’’سِیروا فی الارض‘‘ پر عمل کرتے ہوئے سعدی نے دنیا کی سیر کی، مشاہدۂ قدرت و صحیفۂ فطرت کے مطالعے کو قُربِ الٰہی کا وسیلہ بنایا۔ سرگور اوسلی لکھتے ہیں،’’مشرقی سیّاحوں میں ابنِ بطوطہ کے سوا شیخ سعدی سے بڑھ کر اور کوئی سیّاح ہم نے نہیں سُنا۔‘‘
عالمِ سفر میں شیخ سعدی نے بہت مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ کا ہر سفر نہایت کٹھن تھا، لیکن آپ کے عزمِ صادق میں کبھی تزلزل نہیں آیا۔ ایک بار جب شیخ سعدی فلسطین کے گرد و نواح میں قیام پذیر تھے، وہاں کے عیسائیوں نے اُنھیں قید کرلیا۔ اُس وقت طرابلس میں شہر کے استحکام اور حفاظت کے لیے خندق تیار ہو رہی تھی اور قیدیوں سے مزدوری کا کام لیا جاتا تھا۔ شیخ سعدی کو بھی دیگر مزدوروں کے ساتھ خندق کے کام پر لگا دیا گیا۔ (جاری ہے)