آج کا دن ایک تاریخی دن ثابت ہوسکتا ہے اگر جنرل مشرف عدالت آنے کا فیصلہ کرلیں اور عدالت ان پر فرد جرم عائد کردے شواہد کچھ ایسے ہی نظر آرہے تھے کہ مشرف صاحب کی مصیبت اس وقت تک ختم یا کم نہ ہو جب تک وہ پیش ہو کر فرد جرم سے انکار یا اقرار کریں اس طرح کے تاریخی دن کبھی کبھی آتے ہیں قوموں کی زندگی میں اور اس دن کی مناسبت سے میں نے بھی فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس تاریخ کو بنتا خود دیکھا جائے تو ٹکٹ کٹا کر پہنچنے کی پوری کوشش کررہا ہوں۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا اور مشرف صاحب آخری وقت پر کوئی انوکی دائو نہ لگا گئے اور اس کیس کو جسے کئی اخبارات ایک سرکس کا نام دے رہے ہیں پھر کسی نئے موڑ پر نہیں لاکھڑا کیا تو مجھے امید ہے کئی برسوں بعد جنرل مشرف سے آنکھیں دوچار ہو ہی جائیں گی۔ میری ان سے آخری ملاقات ایوان وزیراعظم میں دسمبر 2000ء کو ہوئی تھی جب انہوں نے نواز شریف اور ان کی فیملی کو رات کی تاریکی میں جدہ روانہ کردیا تھا اور جب شور مچا تو ایڈیٹروں کو بلالیا گیا کیونکہ میں بھی نیا نیا اسلام آباد آیا تھا تو میں بھی پہنچ گیا۔ مشرف صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ کیوں نواز شریف کا ملک سے باہر بھیجنا ملک کے مفاد میں تھا۔ ہر ایڈیٹر اور کالم نگار کو دو تین سوال کرنے کا موقع ملا۔ میں نے سوال کیا کہ ایک وجہ بتادیں میں خود اور پوری قوم آپ کی باتوں پر کیوں یقین کریں آپ میں اور پچھلے فوجی جرنیلوں میں کیا فرق ہے۔ پہلی بار مشرف جواب دیئے بغیر میرے برابر بیٹھے ایک اور صحافی کے سوال کا جواب دینے لگے۔ جب دوبارہ میری باری آئی تو میں نے پھر وہی سوال پوچھا۔ اب کی بار ان کے چہرے پر ناراضی نظر آئی مگر غصہ پی گئے جواب پھر بھی نہیں دیا اور کسی اور کے سوال کرنے کو کہہ دیا۔ میں ماموں بنا بیٹھا رہا۔ خوش قسمتی سے تیسرے سوال کا موقع بھی مل گیا۔ میں نے وہی سوال دہرا دیا کہ آپ نے میرے دو سوال ضائع کردیئے ایک کا جواب تو دیں۔ اب مشرف صاحب پھٹ پڑے۔ ’’آپ مجھ سے بار بار وہی سوال کیوں پوچھ رہے ہیں‘‘ وہ جھنجھلا کر بولے۔ ’’اس لئے جناب کہ آپ نے جواب ہی نہیں دیا میں کیوں آپ کی بات پر بھروسہ کروں ذرا فرمادیں‘‘۔ بولے آپ میرا ایک سال کا حکومتی ریکارڈ دیکھیں میں نے یہ کارنامہ کیا اور وہ کارنامہ سرانجام دیا،آپ مجھ پر یقین کریں۔ میں نے کہا سر آپ یہی جواب پہلی بار دے دیتے تو میں دو دوسرے سوال کرلیتا بہرحال شکریہ۔ اس کے بعد مشرف سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ کئی سال گزر گئے اور وقت کا دھارا ہر ایک کو اس کے حصے کے برابر کا انصاف، سزا اور جزا دیتا گیا اور وہ وقت آگیا کہ مشرف ملک سے باہر تھے اور ان کے ہاتھوں ذلیل اور خوار ہونے والے ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لے چکے تھے۔ خود میں تقریباً 14مہینے بعدمشرف اور ان کے ساتھیوں کی ہٹ دھرمی کے باعث نوکری چھوڑ کر واپس امریکہ چلا گیا۔ چار پانچ سال ایک نیا تجربہ کیا اور وہ تھا انٹرنیٹ پر ایک اخبار نکالنا۔ 2002ء میں ایک نئی بات تھی اس وقت کوئی بلاگ وغیرہ بھی شروع نہیں ہوئے تھے اور میرا اخبار ہی بلاگ بھی تھا، اخبار بھی اور تمام ان لوگوں کے لئے ایک پلیٹ فارم جو پاکستان میں کھل کر نہیں لکھ سکتے تھے۔ مشرف اس اخبار سے اتنے پریشان ہوئے کہ دوبار امریکہ آئے تو نام لے کر مجھے اور اخبار کو گالیاں دیں۔ کچھ نجی محفلوں میں شاید دھمکیاں بھی دیں اور بات امریکی حکام تک پہنچ گئی کہ مشرف یا ان کے لوگ مجھے اور حسین حقانی صاحب کو اتنا ناپسند کرتے ہیں کہ شاید ہم دونوں کو جسمانی خطرہ بھی لاحق ہوجائے۔ مجھے اور حقانی صاحب کو باقاعدہ وارننگ بھی دی گئی کہ آپ لوگ ذرا احتیاط کریں، خطرہ ہوسکتا ہے۔ بہرحال وقت گزر گیا اور پھر وہ وقت آیا کہ مشرف کے مشیر خاص جو آج کل بلاول بھٹو کے مشیر خاص ہیں بار بار مجھ سے کہتے رہے کہ میں مشرف سے ملاقات کرلوں۔ انہوں نے یہاں تک حامی بھرلی کہ وہ مشرف کو میرے امریکہ کے گھر بھی لے آئیں گے۔ میں نے تو اس موضوع پر کالم بھی لکھ دیا تھا۔ ایک دن واشنگٹن میں فون آیا کہ مشرف صاحب آگئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے کہا گھر حاضر ہے آجائیں۔ پھر کہا گیا نہیں مصروف ہیں آپ ہوٹل آکر مل لیں۔ بہت سوچا پھر میں نے کہا نہیں سر یہ ملاقات پھر کبھی سہی۔ تو کئی سال پھر بیت گئے اور آج کے دن نظر آرہا ہے کہ اگر مشرف کمانڈو کو جوش آگیا اور وہ اپنا پرانا نعرہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘‘ لگا کر عدالت میں کود پڑے تو کیا ہی مزا آئے گا۔ جو لوگ ان کے کیس کو قریب سے دیکھ رہے ہیں وہ کہتے ہیں مشرف بار بار کمانڈو بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے وکیلوں سے لڑتے ہیں کہ مجھے عدالت جانے دو۔ وکیلوں میں اختلاف ہے اور ان کی وجہ سے کئی ادارے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ ابھی پاکستان آنے سے پہلے میں واشنگٹن میں کچھ لوگوں سے ملا تو اندازہ ہوا فوج اور حکومت اور امریکی اور عدالتیں سب اس مسئلے کا Face savingحل چاہتے ہیں کہ کسی کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے اور ملک اور حکومت دوسرے اہم موضوعات پر دھیان دے سکیں۔ سب سے بڑے ماموں تو فوجی اسپتال والے بن گئے بے چارے، اچھے بھلے ڈاکٹر جو اپنے ادارے کو بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کا منوانے میں کوشاں تھے اور اعلان کررہے تھے کہ دل کی تبدیلی کا آپریشن بھی اب وہ کرسکیں گے، پھنس گئے کہ ایک ایسے مریض کو 90دن ہو گئے وہ علاج کرکے گھر نہیں بھیج سکے، جسے دل کا دورہ بھی نہیں پڑا تھا۔ اب عدالت نے تو حکم جاری کردیا اور چھچوندر حکومت کے گلے میں آپھنسی ہے۔ جیسا سننے میں آرہا ہے مشرف خود آنا چاہتے ہیں اور عدالت بلانا چاہتی ہے تو حکومت بھی ایک ہیلی کاپڑ کا انتظام کرے اور اسپتال کی چھت سے عدالت کی چھت تک شاید پانچ یا سات منٹ میں کمانڈو صاحب کو پیش کردیا جائے۔ فوجی ذرا خوش نہیں ہوں گے مگر وہ بھی تو غور کریں آخر جو کچھ فوج نے کیا اور جنرل کیانی صاحب نے چھ سال ان میلے کپڑوں کو دھونے کی کوشش کی اور اس کوشش میں بڑے بڑے چوروں ڈاکوئوں اور مگرمچھوں کو جو ملک کو لوٹ کر کنگال کر گئے، کھلا چھوڑ دیا تو اب اگر مشرف کی قربانی دینی پڑے تو دے دیں لیکن ساتھ ہی پھر ذرا سیاسی لٹیروں اور اربوں کھربوں کی بوریاں سمیٹنے والوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی لگانے پر تو ایک جنرل کا غداری میں مقدمہ چل گیا مگر جو پورے ملک کا کباڑہ کرکے اب دولت کے مزے لوٹنے ملک سے باہر جابیٹھے ہیں ان کو بھی تو بلانے کی ضرورت ہے۔
نواز شریف صاحب بالکل حق بجانب ہیں کہ مشرف کا مقدمہ چلنا چاہئے مگر جو انہوں نے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ جس طرح کی کہانیاں اب جنم لے رہی ہیں ان سے زرداری صاحب تو بہت خوش ہوں گے اور اسی لئے شاید اب یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ بیٹے بلاول کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنادیا جائے۔ پہلے مظفر پٹی صاحب کو آگے لایا گیا تھا اب بلاول کی باری ہے اور اس کام میں متحدہ بھی اگر شامل ہوجائے تو کیا اچھا ہو۔ غرض یہ کہ مشرف پر غداری کا الزام اگر لگ گیا تو فوج کو ایک کڑوا گھونٹ تو پینا ہوگا لیکن پھر سوچ لیں سیاست دانوں کو اپنے آپ کو بچا کر چلنا ہوگا۔ ذرا پیر پھسلا اور یہ سارا ملبہ اس شدت کے ساتھ گرے گا کہ بے چارے چوں چرا بھی نہیں کرسکیں گے۔ کہتے ہیں چوروں کے درمیان بھی ایک اخلاقی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں پکڑیں گے۔ مگر جب پکڑ دھکڑ شروع ہوجائے اور غداری کے الزام لگ جائیں تو پھر یہ بھی کہنا پڑے گا۔
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ