عالم اسلام کی معروف علمی و فکری شخصیت ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے مخالفین و معاندین کی جانب سے ایک اعتراض ان کےخوابوں اور بشارتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ وہ خوابوں اور بشارتوں کو برملا بیان کرتے ہیں اور ان کی زندگی کا معمول ہے۔ یہ سراسر جھوٹ اور افترا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دنیا کے طول و عرض میں ہزارہا لیکچرز و خطابات کئے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے خطابات ان کے خوابوں اور بشارتوں پر مشتمل ہیں۔ اس حوالے سے آپ کو ان کا صرف ایک خطاب ملے گا جو ڈاکٹر صاحب نے 25 جنوری 1989ء کو جامع مسجد منہاج القرآن میں انتہائی معتمد کارکنان کے خصوصی اجلاس میں کیا۔ اس پر بھی خواب سماعت کرنے والے قریبی احباب کو سختی سے منع کیا گیا تھا کہ وہ اس کا ذکر باہر نہ کریں ۔ خواب کو بیان کرتے ہوئے ریکارڈ کر لیا گیا تھا تا کہ بعد ازاں کوئی اصل الفاظ میں تحریف نہ کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب کا بیان کردہ یہ خواب ان کی مرضی و منشا کے بر عکس پبلک ہو گیا اور پھر مخالفین جو ڈاکٹر طاہر القادری کے علم و مرتبہ سے ہمیشہ خائف رہتے تھے انہوں نے اپنی انا کی تسکین کیلئے اسے خوب اچھالا۔ خواب سنانے کا جو کلپ لیک ہوا اسے بھی قطع و برید کے ساتھ وائرل کیا گیا تاکہ لوگ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بد گمان ہو جائیں۔ڈاکٹر صاحب کے خوابوں اور بشارتوں کو ہدف تنقید بنانے والے کور چشم یوں اعتراض کرتے ہیں جیسے خواب کوئی غیر شرعی امر ہے اور اس کا دیکھنا اور بیان کرنا حرام ہے، حالاں کہ خواب کا وجود قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور اس کا صراحتاً انکار کفر ہے۔ سورہ یونس کی آیت نمبر 64 میں اہل ایمان و تقویٰ کے لیے دنیا میں نیک خواب کا ذکر ہے۔ اس آیت میں لفظ ’’البشری ‘‘مذکور ہے۔ امام ابن جریر طبری سے لے کر امام آلوسی تک جمہور ائمہ تفسیر کے نزدیک اس آیت میں ’’البشری‘‘ سے مراد اہل ایمان کے نیک خواب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف کو تعبیر و تاویل خواب کا علم بطور خاص عطا فرمایا تھا۔ سورہ یوسف میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ سو قرآن مجید صراحت کے ساتھ خوابوں کی حقیقت کو بیان فرماتا ہے۔ احادیث نبویہ میں بھی نیک خوابوں کا ذکر صراحتاً موجود ہے بلکہ کتب احادیث میں خوابوں کے حوالے سے ابواب اور قائم ہیں۔ صحیح بخاری کی کتاب الرؤیا کے باب المبشرات میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اب نبوت سوائے مبشرات کے باقی نہیں رہی۔‘‘صحابہ کرام ؓنے عرض کیا: مبشرات سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ’’مبشرات نیک خواب ہیں۔‘‘ اس حدیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد قیامت تک نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکاہے۔ لیکن فیضانِ نبوت کی صورت میں جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیک خوابوں اور بشارتوں کو امت محمدی کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ خواب اور اُس کی تعبیر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ خواب اور بشارت کی زبان استعاراتی اور اشاراتی ہوتی ہے۔ خواب میں اشارہ و کنایہ سے ممکنہ طور پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی خبر دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ خواب میں دیکھا جاتا ہے، اُس کی تعبیر تلاش کی جاتی ہے۔ امام ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ حضور ﷺ کی قبر انور کھو ل رہا ہے ، تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ حضورﷺ کی سنت کو زندہ کرے گا۔ امام ابو حنیفہ جب بھی کوئی خواب دیکھتے، اس کی تعبیر اَجل تابعی اور اپنے استاد امام ابن سیرین سے پوچھتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضورﷺ کے جسم اقدس کی ہڈیاں چن چن کر جمع کر رہے ہیں۔ اس خواب سے اتنی ہیبت طاری ہوئی کہ آپ بیدار ہو گئے اور سخت پریشانی لاحق ہوئی۔ حسبِ عادت صحابہ کرام ؓکے شاگرد امام ابن سیرین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواب بیان کیا۔ امام ابن سیرین ؓنے بشارت دی کہ خواب مبارک ہے۔ تم حضور ﷺکے علم اور آپ کی سنت کی حفاظت میں اس بلند درجہ تک پہنچو گے گویا تم ان میں تصرف کر رہے ہو۔ چنانچہ فقہ حنفی کو مرتب کرنے کا اشارہ اس خواب میں عطا ہوا۔ ظاہراً خواب کیا تھا کہ جسے دیکھ کر خود امام ابو حنیفہ ؓگھبرا گئے مگر تعبیر کتنی عمدہ اور معنی خیز تھی۔خواب اور بشارت کے کلمات و واقعات اور مشاہدات کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی تعبیر پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ کیا قاسمی صاحب اپنے طنزیہ کلمات کا رُخ کبھی ایسی ہستیوں کی جانب سے کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے خواب میں جو کچھ بیان کیا ہے ان الفاظ کی بھی تعبیر کی ضرورت ہے، کیوں کہ خواب میں جو کلمات ارشاد ہوں یا نظارہ کیا جائے اہلِ دیانت و امانت اس کی تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہری کلمات اور نظارے کی بنا پر کبھی کسی نے گستاخی و بے ادبی کے فتوے نہیں لگائے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس خواب میں حضور نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس سے مراد دین اسلام ہے، رہائش اور ٹکٹ کے انتظام سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام کی مٹتی ہوئی قدروں کو زندہ کریں اور اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائیں اور میزبانی سے مراد یہ ہے کہ دین کی قدر کریں، دین کو ہر شے پر مقدم رکھیں اور اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔ قاسمی صاحب اگر خواب کی اس تعبیر سے آپ کو اتفاق نہیں تو یہ ضرور بتائیے گا کہ اس خواب کے دیکھنے اور سنانے سے کس شرعی حکم کی خلاف ورزی ہو گئی، معصوم اذہان کو پراگندہ کرنا اہل علم کا وصف نہیں ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ جیسی متبحر علمی ہستی بھی اپنے دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر کے لئے امام ابن سیرین سے رجوع کرتی تھی۔ کوئی بھی عقل کل نہیں ہوتا۔ڈاکٹر طاہر القادری کے خواب کی تعبیر کے حوالے سے اگر دیکھیں تو کیا ڈاکٹر طاہر القادری نے دینی اقدار کے احیا کیلئے سخت محنت اور کوشش نہیں کی؟ وہ شرق تا غرب اسلام کا پرچم لیکر نہیں نکلے ؟۔ انہوں نے نوجوان اسکالرز کی ایک کھیپ تیار نہیں کی؟ جو اس وقت خدمت دین کیلئے پیش پیش ہے اور کیا وہ نازک دینی معاملات پر اپنی رائے پیش نہیں کرتے۔ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے فتنہ قادیانیت کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا اور ایک نازک مسئلہ پر فیصلہ نہیں دیا؟ بہت سارے علمی و فکری مسائل ہیں جن پر ڈاکٹر طاہر القادری نے جب نقطہ نظر دیا تو مسئلہ حل ہو گیا۔