عالمی معیشت میں اس وقت بلیو اکانومی یا سمندری معیشت کی حیثیت مسلمہ ہے اور اس وجہ سے ہی درست طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پاکستان کی اس حوالے سے کیا حکمت عملی ہے ؟ اور اس سے مفادات کو کشید کیسے کیا جا سکتا ہے؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستانی برآمدات کا حجم ساٹھ ارب ڈالر تک بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس تناظر میں یہ جاننا بہت اہم ہے کہ اس ساٹھ ارب ڈالر کے ہدف کو حاصل کرنے کی غرض سے جو پالیسی تیار کی گئی ہے یا تیار کی جا رہی ہے اس میں بلیو اکانومی ’’سمندری معیشت‘‘ پر کتنی توجہ دی گئی ہے۔ گوادر وزیر اعظم فیروز خان نون کے دور اقتدار میں پاکستان کا حصہ بنا اور پاکستان کی زمینی سرحدوں میں پر امن توسیع ہو گئی۔ پاکستان کی بحری سرحدوں میں توسیع مارچ دو ہزار پندرہ میں وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بھی ہوئی جب پاکستانی سمندری حدود کو دو سو ناٹیکل میل سے بڑھاکر ساڑھے تین سو ناٹیکل میل کرنے کے پاکستانی دعوے کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن لمٹس آف کانٹیننٹل شیلف نے تسلیم کر لیا اور خطے میں پاکستان پہلا ملک بن گیا کہ جس کا یہ دعویٰ مان لیا گیا، نتیجے کے طور پر پچاس ہزار مربع کلومیٹر پاکستانی سمندری حدود میں اضافے کے ساتھ پاکستانی سمندری رقبہ دو لاکھ نوے ہزار مربع کلو میٹر ہو گیا اور اس اضافہ کے ساتھ ہی پاکستانی سمندری رقبہ صوبہ بلوچستان کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا علاقہ بن گیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا مشترکہ رقبہ بھی اس سمندری رقبے سے کم ہے۔ اس کامیابی کے بعد جب میری وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی تو انکو اس کامیابی پر مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ بلیو اکانومی کا بھی تذکرہ کیا وہ اسکی اہمیت سے آگاہ اور اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اب پھر مسلم لیگ ن کی حکومت وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہے اور حکومت کی توجہ ہر صورت بلیو اکانومی پر ضرور ہونی چاہئے مگر یہ دیکھ کر بہت اچنبھا ہوا کہ فیسیلی ٹیشن کونسل اور حکومت نے علیحدہ سے بھی اس پر فوکس نہیں کیا، اتنے بڑے رقبے اور وسائل کو استعمال کئے بنا پاکستان کی معیشت کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا ہے۔ سنہ دو ہزار میں انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی نے ایک اسٹڈی کی اور اس اسٹڈی کے مطابق پاکستانی کانٹیننٹل شیلف (سمندری حدود) اور اسکے اطراف میں مینگنیز، کوبالٹ اور نکل جیسی دھاتیں بڑی مقدار میں موجود ہیں یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کا سمندری رقبہ دو سو ناٹیکل میل تھا جو اب ساڑھے تین سو ناٹیکل میل ہو چکا ہے۔ بلیو اکانومی میں جو شعبہ سب کو نظر آتا ہے وہ ماہی گیری ہے۔ پاکستان کی مچھلی کی مصنوعات کی سالانہ ایکسپورٹس تین سے چار سو ملين ڈالر ہے حالانکہ اس میں برآمدی قوت تین سے چار ارب ڈالر ہے اور جسکو محنت کرکے مزید قابل قدر حد تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے مگر یہ صرف ساڑھے تین سو ملين ڈالر تک کیوں محدود ہے؟ تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم ماہی گیری عالمی معیار کے مطابق نہیں کر رہے۔ پاکستان میں کم و بیش بیس ہزار کشتیاں اس مقصد کیلئے استعمال ہوتی ہیں مگر ان میں سے صرف چار سو سے زائد کشتیاں ایسی ہیں کہ جن کو عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ دنیا چاہتی ہے کہ کشتی پر فریزر ہو تا کہ مچھلی کو محفوظ کیا جا سکے مگر ہم برف کا ہی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ماہی گیروں کو قرضہ حاصل کرنے کیلئے انگریزی میں تیار شدہ فارم انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔ اب جس کی زندگی کشتی پر گزری، اسکول سے کوسوں دور رہا وہ اس طریقہ کار سے کیسے قرض حاصل کر سکتا ہے، پالیسیاں فیلڈ کی صورت حال کے مطابق تیار کرنی چاہئیں۔ پاکستان دیگر معاملات میں بھی بتدريج اپنی صلاحیت کھوتا چلا گیا۔ انیس سو ستر کے عشرے تک پاکستانی مرچنٹ شپس چوہتر تھے جو اب گیارہ رہ گئے ہیں۔ انیس سو اسی کے عشرے تک پاکستان بڑے پیمانے پر چین، مڈل ایسٹ، فار ایسٹ کو بحری جہاز بنا کر دیتا تھا مگر اب یہ قصہ ماضی ہوا، گڈانی کی شپ بریکنگ انڈسٹری چین، انڈیا سب سے آگے تھی مگر اب ہمارا نمبر بنگلہ دیش کے بھی بعد ہے۔ 14مزید بندرگاہیں بن سکتی ہیں مگر کراچی بندرگاہ اٹھارہ سو ستاسی میں، پورٹ قاسم انیس سو چوہتر میں اور اب گوادر جو پوری طرح سے آپریشنل بھی نہیں ہو سکی، پر ہی اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں زمین میں گیس و تیل تلاش کرنے کیلئےکوئی 790بار کوشش کی گئی مگر سمندر میں یہ کوشش صرف سترہ بار کی گئی۔ سمندری سیاحت دنیا بھر میں مقبول ہے، پاکستان کے ساحلوں کو دو حصوں ساحل سندھ اور ساحل مکران میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ساحل سندھ پر 14اور ساحل مکران پر سترہ ایسے مقامات ہیں کہ جو سمندری سیاحت کیلئے بہت پر کشش ہو سکتے ہیں مگر کیسے ہو ں جب وہاں موبائل سگنلز تک نہیں آتے، دیگر سہولیات تو دور کی بات ہیں۔ کالم کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں اور میری ٹائم سیکورٹی، انڈین اقدامات اور اس کے مضمرات، اس سمندری گزرگاہ کے انرجی کوریڈور ہونے پر پھر کسی کالم میں گفتگو ہو گی۔ عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی ترقی میں بلیو اکانومی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہم کم از کم اپنے دوست چین سے ہی ایسا معاہدہ فوری کر سکتے ہیں کہ وہ ہم سے بحری جہاز ہی تیار کرانا شروع کردے یا ہماری مچھلی کی مصنوعات کی ہی کھپت بڑھا دے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم اس اہم شعبہ کی طرف توجہ دیں گے کیونکہ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔