• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اور بین الاقوامی تاریخ پڑھنے سے کالج کے زمانے میں چڑ ہوتی تھی۔ بھلا یہ بھی کوئی علم ہے کہ فلاں بادشاہ، فلاں کو مار کے بادشاہ بن گیا۔ مجھے یہ سارے سن یاد کرنے سے بیزاری ہوتی تھی۔ مگر اسکول کے زمانے سے پاکستان تحریک، ماؤزے تنگ کی تحریک، ہوچی منہ، سید احمد شہید کی تحریک، ہولے ہولے اس لئے میرے اندر جگہ بناتی رہیں کہ اسکول میں ہرسال کیا ہر چھ ماہ بعد، پاکستان کے نقشے میں یہ بھی لکھنا اور یاد کرنا گویا اپ ڈیٹ رہنا ضروری تھا کہ کس کس کی صدارت ملک میں رہی۔ پاکستان کی تحریک تو میرے بچپن کی یادوں میں رچی بسی رہی ہے کہ برقعوں میں عورتوں کے جلوس میں اور مردوں کےجلوس میں، ابا یا اماں کی انگلی پکڑ کر میں ضرور جاتی، نعرے لگاتی اور گلی ڈنڈا کھیلنے والا ڈنڈا میرے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد کس قدر کرپانیں، کس قدر گولیاں اور چھریاں چلیں، اس سے پہلے دوسری جنگ عظیم کی تباہی اور انسانی کشت وخون بھی، اپنے اردگرد گرتی ہوئی لاشیں دیکھ کر احساس ہوتا رہا کہ اچھا کیا تاریخ نہیں پڑھی۔ آخر سکندر سے لیکر اورنگزیب تک کو پڑھا تو کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ حکومت یا بادشاہت تو اصل میں بھائیوں تک کو مروا دینے یا قید میں ڈال دینے کا نام ہےاور اسی کو تاریخ کہتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے مرنے یا مروائےجانے کے پیچھے اقتدار کی خواہش کار فرما تھی۔ مغلوں کے آخری بادشاہ کے شہزادوں کو بھی عیاشیوں کے سوا کسی قسم کے امور مملکت نہیں آتے تھے۔ انگریزوں کی سمجھ میں یہ اپاہج بادشاہت آگئی مگر جو نام کے بہادر شاہ ظفر تھے، انکو اس وقت سمجھ میں آیا جب شہزادوں کے سر طشت میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کئے گئے اور انہوں نے رنگون کی قید میں لکھا

’’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘‘۔

ملک اور نام بدل کے ایسی ہی کیفیات، لیاقت علی خاں کے قتل کے نامعلوم ہونے کے اشارے دیئے گئے۔ پچھلے برس کسی انگریز نے خبردی کہ لیاقت علی خاں کے قاتل کی بیوہ کو پنشن جو پچاس ساٹھ سال میں دی جاتی رہی، اسکی وفات کے بعد، بند کر دی گئی ہے ۔ تفصیل میں غیر مصدقہ یہ خبر بھی تھی کہ اسکی اولاد اور انکی اولادیں بھی غیر ممالک میں آباد رہیں یا تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں، ممکن ہے انکی اولادیں بھی محمد علی بوگرا کی طرح ہم پر حکومت کرنے آ جائیں کہ ہماری گزشتہ تاریخ میں بھٹو صاحب اور جونیجو صاحب کا نام عزت سے لیا جا سکے گا۔ ورنہ جھولی میں سینکڑوں چھیدہیں چاہے کہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔

بچپن کے کچھ نام آج بھی یاد ہیں۔ سید احمد شہید کی تحریک، خلافت کی تحریک، بھگت سنگھ، ریشمی رومال، کوئی روٹی والی تحریک بھی تھی اور آخرمیں یعنی کالج کے زمانے میں خاکسار تحریک اور بابا غفار خاں کی پشتو تحریک کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں۔ جماعت اسلامی مولانا مودودی کے علم تک محدود رہی۔ انکی بیٹی میری کلاس فیلو تھی اور اسکے توسط سے میری ان سے چند ملاقاتیں رہیں۔ مودودی صاحب کے بھائی جوان سے مختلف اور جوش صاحب کے دوست تھے، جوش صاحب کی محفل میں ان سے ملاقات رہی۔ وہ بھی مودودی کے بڑے بیٹے کی طرح مختلف نظریات کے حامل تھے۔ وہ تمام تحریکیں جن کا ذکر بچپن میں سنا تھا۔ ان میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہوئی۔ مگر ان سب میں سے کسی تحریک کو بھی سازش نہیں کہا گیا۔ مگر پاکستان میں مع ترقی پسند تحریک کے، سب کو ہی سازش، حتیٰ کہ بنگال کی علیحدگی کی تحریک کو اپنی اجتماع ناکامی نہیں کہا ،بلکہ بنگالیوں کو برے نام سے بلایا گیا۔

پاکستان میں اس وقت بھی تحریکیں چل رہی ہیں، جن کو قالین کے نیچے چھپانے کے دن گئے۔ بلوچستان ہی کو لے لیں۔ ایک طرف بلوچ یکجہتی تحریک، غریب مچھیروں کی تحریک، یہ انسانی حقوق کی تحریکیں ہیں۔ ایک مدت سے ہر آنے والی حکومت ایک ہی فقرہ دہراتی ہے کہ ’’بلوچستان کے ساتھ بہت نا انصافی ہوتی رہی ہے۔‘‘ مجال ہے کہ کسی نے کہا ہو کہ آدھا بلوچستان چٹیل میدان ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کو نہ گھر، نہ پانی، نہ خوراک، نہ تعلیم کی سہولیات میسر ہیں۔ یہ لوگ اگر ایران سے اسمگل کر کے پیٹرول سے آٹا تک نہ حاصل کریں تو کیا بھوکے مر جائیں۔ بارڈر پہ فوجیں بھلا کہاں نہیں ہیں۔ ہمارے جتنےہمسایہ ممالک ہیں۔ ان سب سے معذرت ایسی کہ انکی تاریخ، انکا ادب اور انکی زبان جوکہ ہماری پرانی تہذیب ہے۔ ہم نہ حافظ کو پڑھاتے ہیں اور نہ سوری کو اور نہ کبھی کسی مسلمانوں کے قتل پرگاندھی نے 194نے یاد دلایا کہ بنگال میں برت رکھا تھا۔ قائد اعظم اور گاندھی شروع میں کہتے تھے کہ آبادی کی ہجرت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں دیکھ کر آخر قائد اعظم کو ریڈ کلف کے بنائے سرحدوں کو غلط ڈھانچے کو بچا کھچا پاکستان کہہ کر قبول کرنا پڑا۔ فیروز پور او ر گوردا سپور کو زبر دستی پنڈت نہرو نے انڈیا میں ڈلوا لیا تھا کہ وہاں سے کشمیر کو راستہ جاتا تھا۔ تقسیم تو بس پنجاب اور بنگال ہی ہوئے تھے۔ تحریک پاکستان یوپی میں بہت تیزی سے پھیلی تھی۔ پنجاب میں خضر حیات کی حکومت تھی، پاکستان بنتے ہی اس طرح ٹوپی اور شیروانی بدل گئی جیسا کہ عمران کی حکومت ختم ہونے کے بعد، ہم سب نے دیکھا۔

بات پھر تحریک پاکستان پرچلی گئی، اس وقت سب سے اہم بات اس آبادی کی ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ علامہ اقبال اور خوشحال خان دونوں کو پڑھنا ایسا بھلایا کہ گزشتہ تین برس سے زور، دھکے سے بے نام حکومت نے لڑکیوں کے پڑھنے پہ پابندی ایسی لگائی ہے کہ جو پڑھے لکھے وہاں بچے ہیں انکی محکومیت دیکھی نہیں جا سکتی۔ ساری دنیا کی قوتیں ایک طرف اور یہ مذہب کی غلط تشریح، پاکستان کی آزاد قوتوں کو بھی مشکوک بنا رہی ہے۔ اس وقت بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے علاوہ جنوبی پنجاب کے لوگ بنیادی حقوق اور صوبائی سطح پر فنڈز کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں پر فوقیت چاہتے ہیں۔ پاکستان چاروں طرف سے سرحدوں میں بٹا ملک ہے۔ جس کی سرحدوں پر فوجی اخراجات کم ہو سکتے ہیں اگر ہم پیار اور محبت سے سارے ہمسایوں سے تعلقات انسانی سطح پر دیکھیں۔ ایک سرکاری بیان ہےکہ ہم انڈیا سے تجارت نہیں کرینگے۔ بس بہت ہو چکا۔ ہمسایوں کو عزت اور محبت سے ملو اور تجارت کرو، ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

تازہ ترین