• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! ایک ایسے وقت میں جب وزیر اعظم کے بار بار اعلانات کے بعد عوام کسی بڑے معاشی ریلیف کا انتظار کر رہے تھے، حکومت نے ایک اور کمیٹی کالولی پاپ تھمادیا ہے ،حالانکہ اوسط درجے کی فہم و فراست رکھنے والا شہری بھی جانتا ہے کہ اب جبکہ پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے، کمیٹیاں بنا کر عوام کو بہلانا ممکن نہیں رہا،یہ عملی اقدامات کا وقت ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب پنجاب حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں سے 45ارب روپے نکال کر صوبے کے عوام کو بجلی کے بل میں ریلیف کا اعلان کرتی ہے تو اس کے ساتھ ہی نیپرا میں عوام پر 47ارب کا اضافی بوجھ ڈالنے کی درخواست دائر کر دی گئی، یعنی صوبے کے بجٹ سے جو ریلیف جاری ہو گا، اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، وہ رقم انرجی سیکٹر سمیٹ کرلے جائے گا۔ ایک روز قبل کی خبر کے مطابق صرف فیصل آباد میں 100 ٹیکسٹائل یونٹ انرجی سیکٹر کے ظلم کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہیں، ایسے میں اگر صوبائی حکومت اپنے فنڈز میں سے کچھ رقم نکالتی ہے تو اتنی رقم اینٹھنے کا پلان پہلے آجاتا ہے۔ اس سے بھی خوفناک خبر یہ ہے کہ بجلی کی طرح اب گیس کے بلوں میں بھی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی ڈکیتی شامل کی جا رہی ہے، فیول ایڈجسٹمنٹ کا یہ فراڈ بجلی کی قیمت میں بھی کوئی جواز نہیں رکھتا، گیس کا تو فیول کے ساتھ دور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں، معاملہ صرف اتنا ہے کہ اب سردیوں میں بجلی کی کھپت کم ہو گی اور گیس کی بڑھے گی لہٰذا عوام کو اب گیس کے بلوں میں لوٹا جائے گا۔ انہی حالات کے سبب ملک بھر میں تاجر پریشان ہیں اور انہوں نے 28اگست کو ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان مشکل حالات میں بجائے اس کے کہ وزیر اعظم اس کفایت شعاری پالیسی پر عمل شروع کرواتے جس کا اعلان وہ 2022سے کرتے چلے آرہے ہیں، اشرافیہ کی 17ارب کی مراعات بند کرتے، پاور پلانٹس کی کیپسٹی پیمنٹ بند کرتے جس پر آئی ایم ایف اعتراض کر چکا ہے، کم از کم ان 80فیصد پاور پلانٹس کی کیپسٹی پیمنٹ بند کرنے میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے جو خود حکومت پاکستان اور پاکستانی اشرافیہ کی ملکیت ہیں۔ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کو دی جانے والی 770ارب روپے کی مفت بجلی اور پیٹرول کی فراہمی بند کی جاتی، وہ اس سب کے بجائے ایک نئی کمیٹی کا اعلان کررہے ہیں، جب کہ اسی مقصد کی خاطر ایک ٹاسک فورس پہلے ہی موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وفاقی حکومتی اداروں میں کوئی مافیا بیٹھا ہے جس کا واحد مقصد عوام کو ملک اور ریاست سے بدظن کرنا اور ملکی معیشت کی بحالی کے ہر امکان کو ختم کر کے بے چینی اور مایوسی کو بڑھانا ہے، ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عوام کیلئے سانس لینا دوبھر ہے، صنعت تباہی کے گڑھے میں جا گری ہے اور ایوان اقتدار سے ٹیرف بڑھانے ،بلوں میں اضافے کے سوا کوئی خبر ہی نہیں آ رہی۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ کمیٹیوں کا کھیل ختم کریں اور فوری مراعات کا اعلان کریں، ایسا نہ ہو کہ عوام مایوس ہو جائیں، یہ بہت بڑا سانحہ ہو گا، جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری جانب ملکی معیشت کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ بجلی اور اس کے بل ہیں، وزیر اعظم کی جانب سے صوبوں کو مدد کیلئے پکارنا درست عمل ہے، صوبو ں اور وفاق کو مل کر اس قومی مسئلہ کو حل کرنا ہو گا، بجلی چوری کو روکنا بہت ضروری ہے، وزیر اعظم بتا چکے ہیں کہ محکمے کی ملی بھگت سے 5سو ارب کی بجلی چوری ہو رہی ہے، اس چوری کو نہ روکنا قومی جرم سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 2900ارب کی کیپسٹی پیمنٹ کی ڈکیتی کو روکنے پر بھی توجہ دینی چاہئے، جس کی وجہ سے رہائشی، تجارتی، صنعتی اور زرعی تمام صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔ سابق نگراںوزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز کا یہ سوال انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جواب کا متقاضی ہے کہ جولائی 2024میں بجلی کی لاگت 9روپے یونٹ رہی، تو بل کیسے 80روپے فی یونٹ تک پہنچ رہے ہیں؟ جولائی میں بجلی کی کل اوسط پیداوار 20000میگا واٹ تھی جس میں سے 35فیصد بجلی یعنی 7000میگا واٹ ہائیڈل ذرائع سے حاصل کی گئی، جس کی لاگت انتہائی کم ہے۔ دونوں کی قیمت کو ملا کر اوسط نکالی جائے تو صرف 9روپے 3پیسے بنتی ہے، چونکہ پیداواری صلاحیت 43000میگا واٹ سے زیادہ ہے اور بدقسمتی سے ہمیں صرف 20ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کر کے قیمت 43ہزار ادا کرنی پڑی ہے، اس لئے بجلی کی قیمت نا قابل برداشت ہوچکی ہے۔ اصل مسئلہ اجتماعی طور پر بد انتظامی اور کیپسٹی پیمنٹ ہے۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ بجلی چوری کے ساتھ ساتھ بجلی کی اس ڈکیتی کا بھی سد باب کریں ،جس کیلئے کسی صوبے یاکسی پولیس اور مجسٹریٹ کی بھی ضرورت نہیں صرف انہیں ایک فیصلہ کرنا ہو گا۔ پنجاب میں صارفین کو رعایت دینا قابل تعریف ہے لیکن وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ وفاقی سطح پر ذمہ داری اٹھائے اور تمام صارفین کو انصاف فراہم کرے، جن میں رہائشی، کمرشل، صنعتی اور زرعی صارفین شامل ہیں اور اب سب دم توڑ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بجلی کے بلوں کا معاملہ جہاں تک جا پہنچا ہے، یہ نمائشی اقدامات اور دکھاوے کے اعلانات سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ وفاقی حکومت ذمہ داری اور جرات کا مظاہرہ کرے اور کیپسٹی پیمنٹ کی لعنت کو ختم کرے، جب تک لوٹ مار ختم نہیں ہو گی، بجلی کے بلوں کا مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ جیسے جیسے بجلی کی قیمت بڑھے گی اسی طرح سے بجلی چوری میں بھی اضافہ ہو گا۔ لہٰذا لازم ہے کہ شاخیں تراشنے کی مشقِ لا حاصل کے بجائے مسئلہ کی جڑ کو پکڑیں اور کیپسٹی پیمنٹ و مفت بجلی بانٹنے کا سلسلہ ختم کریں، اس سلسلہ میں جتنی لیت و لعل کریں گے مسئلہ گھمبیر ہوتا چلا جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین