• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: توقیر عائشہ

مہمان: فزا، آمنہ

عبایا، اسکارفس: قواریر فیشن / میرمن بائے رہام قاضی

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

انگریزی کیلنڈر کے حساب سے 2004ء یعنی دو دہائیوں(20 برس) سے ہرسال 4 ستمبر کو پوری دنیا میں ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ منایا جارہا ہے۔ فطرت کا اصول ہے کہ جس شئے کو جتنا زیادہ دبایا جائے، وہ اُسی قدر شدّت سے اُبھرتی ہے اور انقلاباتِ زمانہ اِس کے شاہد ہیں۔ جب پوری دنیا میں پھیلی ہوئی مسلم خواتین کے حجاب کو مغربی اقوام نے زور زبردستی کا نشانہ بنانا شروع کیا، تو ردِعمل آنا فطری امر تھا۔ 

ویسے تو تصوّرِحجاب کو متنازع بنانے کی منظّم کوششیں 19ویں صدی کے آغاز ہی سے شروع کردی گئی تھیں اور صدی کے اختتام تک مسلم عورت کا پاکیزہ،باوقار گیٹ اَپ ناقابلِ قبول قرار دینےاورحقِ حجاب چھین لینے کا پروپیگنڈا اس حد تک نفوذ کرچُکا تھا کہ اُس کے لیے باقاعدہ قانون متحرک کردیا گیا، یہاں تک کہ مخالفانہ کارروائیوں میں سب سے فعال مُلک فرانس نے2 ستمبر2003 ء کو ہیڈ اسکارف پر پابندی کا قانون منظورکرلیا۔ 

یاد رہے، مغربی ممالک میں پُرامن مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بستی ہے اور اس قانون کے پاس ہونے کے بعد پارکس، انتظارگاہوں اور پبلک مقامات پر باحجاب خواتین کوہراساں کرنے، اُن پرتشدّداور جُرمانے عائد کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، جس سے دنیا بھر کی مسلمان تنظیموں، مذہبی اداروں اور مسلم کمیونٹیز میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ 

مختلف مسلم تنظیموں کی طرف سے قراردادوں اور آرٹیکلز کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اِنہی حالات میں لندن کے میئر، لونگ اسٹون نےمسلم ممالک کے سرکردہ علماء اوراسلامی تنظیموں کے نمائندگاں کو بلا کر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں 300 کے قریب مندوبین شریک ہوئے، جب کہ کانفرنس کی صدارت مصر کےنام وَرعالمِ دین، علامہ یوسف القرضاوی نے کی۔ اُنھوں نے نہ صرف فرانس کے حجاب پر پابندی کے قانون پر کڑی تنقید کی، بلکہ ساتھ ہی ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا، جس کے تحت ہر سال4 ستمبر کو ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا۔ بعدازاں، برطانوی مسلمانوں کی تنظیم ’’مسلم ایسوسی ایشن آف بریٹن‘‘ نے بھی ایک حجاب کانفرنس کا اہتمام کیا۔

یہ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ دراصل غیرمسلم اقوام کی جانب سے ایک مسلمان عورت کے حقِ حجاب کی مخالفت کا ردِعمل ہے۔ یہ یومِ حجاب دنیا بھر کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اسلام کا عطا کردہ حُکمِ حجاب ایک مسلمان عورت کا بنیادی حق و اختیار ہے۔ اُس کا یہی حجاب اُسے وہ وقاروتحفّظ دیتا ہے، جس سے دیگر اقوام کی خواتین محروم ہیں۔ 

نیز، مسلمان عورت کے اِس دینی و مذہبی فریضے کی انجام دہی سے دیگر مذاہب کے ماننےوالے کسی فرد، قوم یا ادارے کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں۔ اِس کے باوجود دشمنانِ اسلام نے کپڑے کے ایک گز، ڈیڑھ گز کےٹکڑے کو مہذّب دنیا کے لیےخطرے کی علامت قرار دےڈالاہے۔

اُس کےخلاف نفرت و تعصّب کو اس قدر ہوا دےدی ہےکہ اُسے ہوّا ہی بنا دیا ہے۔ مگرہوا کیا…!! نتیجہ تو برعکس ہی نکلا۔ 4 ستمبر 2004 ء کا دن عالمی سطح پرمنائے جانے کے سبب مغربی معاشروں میں نہ صرف حجاب سے متعلق جاننے، بلکہ اِسے قبول کرنے کا رجحان بڑھا۔ جس سے خائف ہو کر مخالفِ اسلام انتہا پسندوں نے اپنی سرگرمیاں مزید تیزکردیں۔ یہاں تک کہ یکم جولائی2009 ء کو مروہ الشربینی کی شہادت کادل خراش واقعہ پیش آیا۔

دراصل جرمنی کے شہر، ڈرلیٹرن میں رہائش پذیر32 سالہ مصری نژاد جرمن، ایک باحجاب مسلمان خاتون مروہ کواُس کا جرمن پڑوسی ہراساں کیا کرتا تھا۔ مروہ اوراُس کے شوہرنےجرمنی کی ایک عدالت میں اُس کےخلاف مقدمہ دائرکردیا، جہاں ایک پیشی کےدوران انتہا پسند ایگزل نے بَھری عدالت میں چاقو کے17وار کر کے مروہ کو شہید اور اُس کے شوہر کو شدید زخمی کردیا۔ اور پھر…مروہ کی مظلومانہ شہادت نے حجاب اور دینِ اسلام کو نئے سرے سے دنیا کی توجّہ کا مرکز بنا دیا۔ 

جس کے نتیجے میں دینِ اسلام دنیا کے سامنے بطور نظامِ حیات متعارف ہوا، تو اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔یوں کہیے،’’شہیدۃ الحجاب‘‘ کا لقب پانے والی مروہ الشربینی کے پاکیزہ لہو سے شمعِ اسلام کو نئی جِلا مل گئی۔ شہیدۂ حجاب پر تا قیامت اللہ کی رحمتیں ہوں۔ آج ایک باشعور مسلمان خاتون اپنے حجاب پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا کرنے پر راضی نہیں۔ یہود و ہنود کی سخت جارحیت بھی اُسے اپنےاِس شعار سے باز نہیں رکھ سکی۔ بےبسی کی تصویر، خطۂ کشمیر ہو یافلسطین کی خونچکاں داستانیں، مومنات نےتمام ترالم ناک حالات میں بھی اپنے حجاب کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا۔

آج ہم ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ اِن حالات میں منا رہے ہیں کہ ہماری فلسطینی، کشمیری اور دیگر جارحیت کےشکاراسلامی ممالک کی بہنوں کے سَروں سے اُن کے حجاب نوچے جا رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے، جس سے انسانیت بھی منہ چُھپارہی ہے، مگر حقوقِ انسانی کی تمام ترعالمی تنظیمیں خاموش ہیں۔ ہاں، لیکن اُن پاک باز معزّز خواتین کی استقامت اور مروہ الشربینی کا لہو، حجاب کی شکل میں پورے دینِ اسلام کو دنیا بَھرکی توجّہ کا مرکز بنا رہا ہےکہ اللہ کی راہ میں بہنے والا لہو کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ 

بہرکیف، پُرامن ممالک کی مسلمان خواتین اورمسلمان مَردوں پر بھی یہ ذمّےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف حجاب بلکہ اسلام کے نظامِ عفّت کو اپنے اپنے معاشروں میں پورے فخروامتیاز کے ساتھ رائج کریں۔ نیز، حجاب کی غلط تشریح کرنے والوں کی بھرپور حوصلہ شکنی بھی کریں۔ ’’اہتمامِ عالمی یومِ حجاب‘‘ کے 20 برس مکمل ہونے پر بطور اظہارِ یک جہتی ہماری طرف سے’’عالمی یومِ حجاب اسپیشل بزم‘‘ کا یہ خُوب صُورت سا نذرانہ اِس دُعا کے ساتھ قبول کیجیے کہ اللہ کرے، حجاب وحیا کی خُوشبو کا یہ سفر رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے۔ 

وہ کیا ہے کہ ؎ عورت کے واسطے ہے شرم و حجاب لازم…فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم…اَن مول ہے وہ موتی، جو سیپ میں چُھپا ہو…ہوتی ہے اُس کے رُخ پر اک آب و تاب لازم…فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم…حکمِ خدا کےآگے بےکارحیل و حجّت… اندر سنگھار لازم ، باہر نقاب لازم…فیشن ہیں اختیاری ، پردہ نصابِ لازم…رب کی رضا کو جو بھی اپنی رضا بنا لے…مُکھ پر کِھلے گا اُس کے اِک ما ہتاب لازم…فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم…پہلے ہم اپنے اندر اک انقلاب لائیں…آکر رہے گا جگ میں پھر انقلاب لازم…فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم…غضِ بصر کی عادت زیبا ہے مرد و زن کو…اچھی، بُری نظر کا ہوگا حساب لازم…فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم…اپنے گھروں کو ہم نے جنّت بنا لیا گر…دنیا کو کر سکیں گے ہم لاجواب لازم…فیشن ہیں اختیاری، پردہ نصابِ لازم۔