• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں موسیٰ خیل کے مقام پر مسلح افراد نے بسیں روک کر شناخت کے بعد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23مسافروں کو فائرنگ کر کے قتل کردیا ہے۔ خوفناک دہشت گردی کی یہ واردات اس لحاظ سے بھی لرزا دینے والی ہے کہ دہشت گردوں نے پنجاب اور سندھ کو ملانے والا پُل اور سوئی گیس کی پائپ لائن بھی تباہ کردی ہے۔ اس کے علاوہ قلّات ، سبّی ، پنجگور، مستونگ ، تربت ، بیلہ ، گوادر اور کوئٹہ میں بھی بیک وقت کئی حملے کئے گئے ہیں۔ گویا بلوچستان تقریباََ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان اور کے پی کے بعض علاقوں میں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے اندرونی سیاسی محاذ پر پے در پے تجربات کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ اس پر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات اور سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ گویا ہمارے اعمال کی وجہ سے قدرت بھی ہم سے ناراض ہے۔ حکمرانوں کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود ، بہتری کی امیدیں تیزی سے دم توڑتی جار ہی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم شدید اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھِرے ہوئے ہیں اور اہلِ اقتدار کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا اور جو کوئی ممکنہ حل ہے ادھر متحارب گروہ جانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بات بھی اب کنفرم ہو چکی ہے کہ بلوچستان میں جاری بدامنی اور دہشت گردی کی واردات کے پیچھے وہ علیحدگی پسند گروہ ہیں جو ایک عرصے سے پاکستان دشمن طاقتوں کے ایما پر مصروف ِ عمل ہیں۔ جنہیں اب ان بیرونی قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہو چکی ہے جو سی پیک منصوبے کو ختم کرنا چاہتے ہیں جسکی وجہ سے وہ چائنا کی بیرونی دنیا تک رسائی کے اس پلان کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے وہ قوتیں امریکی اور بھارتی سامراج کے علاوہ کون ہوسکتی ہیں۔ جنہوں نے اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئر ز اور کارکنوں پر متعدد حملے کئے اور اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی متعدد کوششیں کیں جنکی وجہ سے ہمارا دوست چین بھی ناراض ہے حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں بھی دیگر عوامل کے علاوہ مبیّنہ امریکی سازش کا ذکر بھی سننے میں آیا ہے کہ امریکہ بنگلہ دیش میں چینی اثرونفود کو روکنے کے لیے میانمار اور بنگلہ دیش کے ایک جزیرے پر مشتمل ایک عیسائی ریاست کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جہاں وہ اپنی مرضی کی حکومت بنا کر چینی پیش قدمی کو روک سکتا ہے ۔ گویا ہمارا خطّہ ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں کے مفادات کا میدان ِ جنگ بننے والا ہے۔ اور پہلے کی طرح ہاتھیوں کی لڑائی میں میدانِ جنگ کی گھاس تباہ ہونے جا رہی ہے ۔ یاد رہے اس سے پہلے ہم پچاس سال سے زائد عرصے تک سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج کا آلہ کار بنے رہے ۔ اور نام نہاد افغان جہاد کے نام پر اپنے بھولے بھالے نوجوانوں کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ آج بیرونی دنیا میں ہمارا تشخص متاثر ہوچکا ہے۔ ہم نے جن افغانوں کو لاکھوں کی تعداد میں اپنے ملک میں پناہ دی ، اپنے ہاں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو پروان چڑھایا اور اپنی معیشت کو تباہ و برباد کرلیا۔ آج وہی افغان طالبان پاکستان کے خلاف ، پاکستان دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ ابھی ہم سابقہ سوویت یونین اور امریکہ کے مفادات کی جنگ سے سنبھل نہیں سکے تو اب ہمیں امریکی اور چینی مفادات کی جنگ کا میدانِ جنگ بنایا جا رہا ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا جغرافیائی محّل ِ وقوع جس کی وجہ سے ہم اپنے لئے کئی قومی مفادات حاصل کر سکتے تھے ہمارے وجود کا دشمن بن گیا۔ ایسے محّلِ وقوع کی وجہ سے اس کے مثبت نتائج صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے جب ہم اپنے ہاں اندرونی سیاسی استحکام پیدا کرتے اور بین الاقوامی حسّاس نوعیت کے فیصلے سیاسی قیادت کو کرنے دیتے لیکن حکومتیں بنانے اور گرانے کے سازشی عمل نے ہمیں اندرونی طور پر اتنا کمزور کردیا ہے کہ ہم حالات کے رحم و کرم کے آگے بے بس ہو گئے۔ کیا اب بھی تمام اسٹیک ہولڈر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہوں گے اور اپنے اپنے ذاتی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کو اندرونی استحکام بخشیں گے اور کوئی ایسا مشترکہ لائحہ عمل بنائیں گے جس سے ہم اس جان لیوا بحران سے نکل سکیں ورنہ ہمارے پاس تو خداسے یہی ایک شکوہ رہ گیا ہے کہ

اس جگہ پیدا کیا جو حادثوں کی زد میں ہے

کاتبِ تقدیر تو نے کیسی یہ تقدیر دی

تازہ ترین