بقول ایک سابق برطانوی وزیر اعظم:"نظریہ ضرورت انسانی آزادی کی ہرخلاف ورزی کی توجیہ ہے؛ یہ آمروں کی دلیل ہے اور غلاموں کا عقیدہ ہے"۔ ماضی اور حال کی چند باوقار شخصیات کے علاوہ پاکستانی عدلیہ پچھلے 75سالوں سے آمریت کے حق میں دلیل دیتی رہی ہے اور اب عقیدہ فسطائیت کی غلام بن گئی ہے۔ تاریخ کا سبق تلخ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔
خطرہ صرف فسطائیت کی سہولت کاری تک محدود نہیں ہے۔ پروفیسر مارک لیملے کے مطابق "سپریم کورٹ اپنے علاوہ ہر سیاسی اور آئینی ادارے کی صلاحیت کو کمزور کر رہی ہے۔ ہم ایک سامراجی سپریم کورٹ کے دور میں ہیں"۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریک تاریخ میں کچھ دلیرانہ فیصلے اور اختلافی رائے اب بھی درخشندہ ہیں۔ جسٹس کارنیلئس کا 1955ء میں مولوی تمیز الدین کیس میں اختلاف، 1972 ء میں عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ، 2009ء کا سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس کا فیصلہ اور 2014 ء میں اقلیتی حقوق کا فیصلہ عدلیہ کا سرمایہ ہیں۔ 2017ء سے 2023ء کے سیاہ دور میں آئین کا چراغ ضمانتوں کے چند جرأتمندانہ فیصلوں اور 2019ء میں فیض آباد دھرنے کیس کے فیصلے نے روشن رکھا۔ اگست کے اوائل میں سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریت کے مختصر حکم پر ایک اختلافی رائے دی جو ٹھوس آئینی بنیاد پر قائم ہے۔ حالیہ ماضی میں دو سینئر ججوں کے علیحدہ اختلافی رائے نے ہمیں ”سامراجی سپریم کورٹ“ اور ”انصاف کی قبا پہنے سیاستدان“ کے اہم تصورات فراہم کئے۔ آج بھی عدلیہ کی ہر سطح پر ایسے منصف موجود ہیں جو اپنے فیصلوں کے ذریعے قانون اور آئین کو سربلند کرتے ہیں۔
لیکن آئینی سربلندی کے چند فیصلے اور معدود اصولی اختلاف رائے عدلیہ کی طویل چیرہ دستیوں اور استحصال پر پردہ ڈالنے کیلئے کافی نہیں۔ عدلیہ کا جمہور مخالف رویہ 1955ء میں تمیز الدین کیس میں آئینی اسمبلی کو غیر قانونی طور پر تحلیل کرنے سے شروع ہوا۔ دو سو کیس 1958ء میں اور نصرت بھٹو کیس 1977ء میں بغاوت کو جواز فراہم کیا اور یہ سلسلہ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک پہنچا۔ ظفر علی شاہ کیس 2002 میں سپریم کورٹ نے نہ صرف آئین شکنی کی اجازت دی بلکہ اس وقت کے آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی کھلی چھٹی دیدی۔ عدالت 2007ء کی ایمرجنسی کیخلاف آئین کا دفاع کرنے میں ناکام رہی اور دو منتخب وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور محمد نوازشریف کو غیر قانونی طور پر نااہل کیا۔ 2017ء سے 2023ء تک تین متواتر چیف جسٹس صاحبان نے اپنے اختیارات سے آئین شکن تجاوز کیا۔ آئین سے تجاوز 2022ء میں پرویز الٰہی کیس میں عروج پر پہنچا جس میں سپریم کورٹ نے چند ہفتوں میں اپنے ہی فیصلے پر یوٹرن لیا، آئین کو دوبارہ لکھا اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کی منتخب حکومت الٹ دی۔
مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کی اکثریت کے مختصر حکم نے دو سال پہلے کے پرویز الٰہی کیس کو بھی مات دیدی ہے۔ قوم پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں فلسفہ قانون کا بنیادی اصول آئین نہیں بلکہ معزز جسٹس صاحبان کی صوابدید ہے۔ دو مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ قیاس ہے کہ اب معاملہ پچاس سال پرانے نظریہ ضرورت سے آگے جائے گا اور ”مکمل انصاف“ اور ”آئینی تانے بانے“ کے نئے ستر تراشے جائینگے۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں عدالت کے سامنے آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت پشاور ہائیکورٹ کے متفقہ فیصلے کیخلاف اپیل کی گئی تھی۔ اپیل کا دائرہ محدود ہوتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے از خود اپنا اختیار لامحدود کر دیا ہے۔ بعض آئینی دفعات قانونی طریقِ عمل ہیں اور بعض اصول۔ اصول تشریح کی گنجائش رکھتے ہیں۔ قانونی طریقِ عمل میں تشریح کی گنجائش نہیں صرف اس بات کا تعین کرنا ہوتا ہے کہ کیا طریقہ کار پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ یہ اپیل قانونی طریقِ عمل کے تعین کا معاملہ تھا، تشریح کا نہیں۔ آئین کی کوئی بھی شق بشمول آرٹیکل 185اور 187معزز جسٹس صاحبان کو آئین کی کسی شق کو دوبارہ لکھنے یا کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں دیتے۔
پشاور ہائیکورٹ کے متفقہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کیلئے سپریم کورٹ کی اکثریت نے کوئی آئینی جواز فراہم نہیں کیا۔ ہوائی قلعہ بناکر ایک پارلیمانی پارٹی کو جنم دیا، اراکین پارلیمان کو اپنے تحریری حلف نامے کی خلاف ورزی اور وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کیا، سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی نشان کی ضرورت کو ختم کیا، ایک تخیلاتی میعاد مقرر کی اور پانامہ فیصلہ کے نگران جج کے غیر آئینی فیصلے کو آٹھ نگران ججوں تک پھیلا دیا۔
2009ء کے بعد سے سپریم کورٹ نے مقننہ، انتظامیہ، الیکشن کمیشن، حتیٰ کہ ذیلی عدالتوں کی طاقت کو محدود اور مفلوج کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پے در پے فیصلوں میں مشترکہ عنصر یہ ہے کہ وہ طاقت کو سپریم کورٹ پر مرکوز کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ چاہے وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو قانونی قرار دینا ہو یا کسی سیاسی لیڈر کو صادق اور امین قرار دینا یا نہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے طاقت کا استعمال پاکستانی ریاست کے دوسرے ستونوں سے کسی طرح فرق نہیں۔یہاں بھی ہمیں جا بجا من مانی، قانون اور آئین کی توہین نظر آتی ہے۔
پارلیمان،صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے عدالت کی یلغار کی مزاحمت نہیں کی بلکہ عدلیہ کے تجاوز کے سامنے پیچھے ہٹ کر اپنی کمزوری میں اضافہ کیا ہے، سودے بازی سے پرہیز نہیں کیا، بروقت قانون سازی نہیں کی اور ججوں کی تعیناتی کے عمل کو شفاف نہیں بنایا۔
ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ تنقید کے یہ پتھر سیاسی جماعتوں کے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پھینکے جا رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں حالات میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا طرز عمل اکثر آئین سے متصادم رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے 77سال بعد ہمیں یہ ادراک ضروری ہے کہ ریاست کے تمام ادارے بغیر استثنیٰ اپنا اخلاقی اختیار اور جمہوری ساکھ کھو چکے ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ اب کسی بلند اخلاقی مقام پر قائم نہیں رہی۔ ریاست کے دوسرے ستونوں کی طرح یہ بھی آمرانہ رویوں اور اختیارات سے تجاوز کا شکار ہے۔ پاپولز م کے بھیس میں فسطائیت کا خطرہ تیزی سے پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے اور عدلیہ اس کے رستے میں حائل قانونی رکاوٹیں پامال کر رہی ہے۔ بالآخر آئین پاکستان اور عوامی مفادات کی آخری محافظ پارلیمان ہے اور فسطائیت اور اُس کے سہولت کاروں سے نمٹنے کیلئے بھی پارلیمان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔
(صاحب تحریرمسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر ہیں)