’’امّاں! پلیز، میرا لنچ باکس دے دیں۔ مجھے دیر ہورہی ہے۔‘‘ نورین نے جلدی جلدی عبایا پہنا اور سر پراسکارف لےکر اپنے کمرے سے باہر آگئی۔ آج وہ معمول سے تھوڑا لیٹ ہوگئی تھی۔ ’’نورین! ناشتا توکر لو بیٹا۔‘‘ امّاں نے پیار سے کہتے ہوئے، اُس کا لنچ باکس اُس کے حوالے کیا۔ ’’امّاں! دفتر میں چائے کے ساتھ کچھ لے لوں گی۔ ابھی ناشتا کرنے رُکی، تو دیر ہو جائے گی، کمپنی کی بس نکل جائے گی۔ اور پھر لوکل ٹرانسپورٹ کی خواری اٹھانی پڑے گی۔‘‘ نورین نے لنچ باکس پکڑا اورامّاں کو اللہ حافظ کہتے ہوئے گھرکا بیرونی دروازہ پار کر گئی۔
نورین متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔ اُس کا خاندان یوں تو ایک روایت پسند گھرانہ تھا، مگر روشن خیال اور تعلیم یافتہ بھی تھا۔ وہ نوعُمری ہی سے حجاب اوڑھتی تھی۔ اِسی حجاب کے ساتھ اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب وہ ایم فارم (ماسٹرزآف فارمیسی) کے بعد ایک فارماسوٹیکل کمپنی میں جاب کر رہی تھی۔ اُس کا اپنا ماننا تھا کہ دینی تعلیمات و احکامات اور اپنی خُوب صُورت اقدار و روایات کی جس حد تک پاس داری ممکن ہو، ضرور کرنی چاہیے۔
چاہے ہم زندگی میں کسی بھی مقام پرکیوں نہ پہنچ جائیں۔ ویسے اُس کی کمپنی میں بھی کسی کو اُس کےحجاب سےکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ کام میں مہارت و دیانت اور اپنے ہارڈ ورک کی بدولت اپنے ڈیپارٹمنٹ میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ ہر اہم مسئلے پر اُس کی رائے لی جاتی، کیوں کہ اکثر اُس کی رائے بہت مدلل ہوتی تھی اور اُس کا حجاب، اُس کے اِس مقام تک پہنچنےکی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا تھا۔
کچھ عرصہ قبل اُن کی کمپنی میں کچھ نئی بھرتیاں شروع ہوئیں، تو تین لڑکوں اور چار لڑکیوں نے فائنل سلیکشن کے بعد دفتر جوائن کرلیا، جن میں سے طیبہ اور اعظم نورین کے ڈیپارٹمنٹ کاحصّہ بنے۔ طیبہ ایک خاصی ماڈرن اور آزاد خیال لڑکی تھی۔ وہ اپنی زندگی، اپنے ہی حساب سے اور مکمل طور پر اپنی مرضی سے جیتی تھی۔ ہمہ وقت نت نئے فیشنز کی تلاش میں رہنا گویا اس کا مشغلہ تھا۔ شاید اُس کے لیے زندگی کامقصد ہی اپنے رنگارنگ اسٹائلز سے لوگوں کو متاثر کرنا تھا۔
کیوں کہ اُس کا ماننا تھا کہ اِس دَور میں آگے بڑھنے اور ترقی کی سیڑھی چڑھنے کے لیے ماڈرن اور فیشن ایبل ہونا لازم ہے، بلکہ جدیدیت کی راہ اپنائے بغیر تو ترقی کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہوا جا سکتا۔ اور اِسی لیے وہ اپنی ظاہری شخصیت کے سنوار و نکھار پر خُوب توجہ دیتی تھی۔ نت نئے طریقوں سے میک اَپ کرتی۔ آئے دن اُس کے بالوں کا رنگ اور اسٹائل تبدیل ہوتا رہتا تھا، جب کہ ڈریسز بھی وہ ’’صاف چُھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق ہی پہنتی تھی۔ ویسے اس قدر محنت کرنے کے بعد طیبہ خاصی حسین و طرح دار بھی نظر آتی تھی اور دوسروں کو بہت جلد اپنی طرف مائل بھی کر لیتی تھی۔
مگر… اللہ جانے طیبہ کو حجاب لینے والی لڑکیوں سے خدا واسطے کا بیر کیوں تھا۔ اُسے نورین کےحجاب اورسادگی سےبھی خواہ مخواہ کی چڑ تھی۔ اُس سے جونیئر ہونے کے باوجود وہ اُسے مُلّانی، قدامت پسند اور نہ جانے کن کن القابات سے اسے نوازتی رہتی۔ کبھی کہتی ’’کیا زمانہ آگیا ہے کہ اب تو دفاتر میں بھی مُلّانیوں نے جگہ بنالی ہے۔‘‘ کبھی کہتی ’’مجھے تو کوئی لاکھ روپیا بھی روز کا دے، تو مَیں سر پہ اسکارف تو دُور، دوپٹّا بھی نہ لوں۔‘‘
نورین اُس کی دَبے دَبے لہجے میں کہی ساری باتیں سُنتی، مگر خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہتی۔ کبھی اُسے پلٹ کرجواب نہ دیتی بلکہ شاید اُس کی مسلسل خاموشی ہی نے طیبہ کو زیادہ شہہ دی تھی۔ دراصل نورین اپنی جگہ بَھرا ہوا ظرف رکھتی تھی، اِس لیے اِن چھوٹی موٹی باتوں کو اہمیت ہی نہیں دیتی تھی۔
اُن کے دفتر کی ایک روایت تھی کہ ہر ملازم کی سال گرہ کے دن کمپنی کی طرف سے اُس کے لیے کیک اورپھول منگوائے جاتے اوراس معاملے میں چپڑاسی سے جی ۔ایم تک سب سے یکساں برتاؤ ہوتا، سب کاخاص خیال رکھا جاتا۔ اُس روز نورین کی سال گرہ تھی۔ اُس کے لیے کیک اور پھول آئے تو طیبہ نے آنکھیں مٹکائیں۔ ’’حیرت ہے، نورین جیسی پردے کی بوبو بھی سال گرہ منانے پر یقین رکھتی ہے۔‘‘
اُس کے ہونٹوں پہ ایک بہت طنزیہ، دل جلانے والی مسکراہٹ تھی۔ ’’طیبہ پلیز! آج کے دن تو ایسی باتیں مت کرو۔‘‘ ہانیہ کو بُرا لگا، تواُس نے اسے سب کے سامنے ٹوک دیا۔ ’’نہیں ناں، بندہ یا تو پورا نیک بنے یا نہ بنے۔ اب سر، منہ لپیٹ کر انگریزوں والے کام کرنا اچھا تو نہیں لگتا ناں۔‘‘ طیبہ اپنی عادت سےمجبور تھی۔ نسبتاً ہلکی آواز میں مسلسل بولےجارہی تھی۔’’چُپ ہوجائو طیبہ! چلو نورین، تم کیک کاٹو۔‘‘ ڈیپارٹمنٹ ہیڈ مسٹر آذر کی آواز گونجی تو سب مؤدب ہوگئے۔
آذر صاحب کمپنی کے سنئیر ملازمین میں سے ایک تھے۔ بہت اچھی طبیعت اور کُھلے دل و ذہن کے مالک۔ اپنے تمام اسٹاف کابہت خیال رکھتے تھے اور ایک لیڈر کی طرح ہر ایک سے اُس کی صلاحیتوں کے مطابق بہترین کام لینا بھی جانتے تھے۔ کیک کٹ گیا تو آذر صاحب جاتے جاتےطیبہ سے مخاطب ہوئے۔’’آپ ذرامیرے دفتر میں آئیے۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
’’دیکھو طیبہ! مَیں نے پہلے بھی اِدھر اُدھرسے سُنا کہ تم آفس کی دیگر خواتین سے متعلق تضحیک آمیز گفتگو کرتی ہو، خصوصاً نورین کے گیٹ اَپ کے حوالے سے۔ کسی کو کیسا لباس پہننا چاہیے اور کیسا نہیں، یہ سراسر اُس کا ذاتی انتخاب اور فیصلہ ہے۔ تم دیکھ رہی ہو ہمارے ہاں بہت ماڈرن خواتین بھی کام کرتی ہیں اور نورین کی طرح باحجاب بھی اور کمپنی خاص طور پر لباس سے متعلق اُن کے انتخاب کا مکمل احترام کرتی ہے۔ ہمیں صرف ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانا ہے۔
ان کی ذاتیات کو لے کر انھیںکسی بھی قسم کی تنقید کا نشانہ ہرگز نہیں بنانا۔ اس حوالے سے ہماری دفتری پالیسی بہت سخت ہے۔ یہ تو ابھی تک نورین نے تمھاری کوئی شکایت نہیں کی، تو تم بچی ہوئی ہو، ورنہ اُس کی ایک شکایت پر تمھیں فوراً ٹرمینیٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ آذر صاحب نےطیبہ کو سمجھاتے ہوئے خاصے تحمّل و بُردباری کا مظاہرہ کیا۔ اُنھیں پہلے بھی کچھ اندازہ تھا، لیکن آج تو اُنھوں نے اُسے نورین کا مذاق اُڑاتے ہوئے خُود دیکھا اور سُنا تھا۔ اُن کی تنبیہ کے بعد طیبہ کے رویے میں تھوڑی بہت تبدیلی تو آئی، مگر اس کا تنفّر جوں کا توں رہا۔
اس واقعے کےکچھ ہی روز بعد، ایک دن نورین دفتر پہنچی تویہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ آج طیبہ نے اپنے پورے سر کو اسکارف سے اِس طرح چُھپا رکھا تھا کہ اُس کا ایک بال بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ نورین کےعلاوہ غالباً سب ہی نے حیرت کا اظہار کیا کہ کہاں وہ حجاب، دوپٹے کا مذاق بنانے، دوسروں کا جینا حرام کردینے والی، اور کہاں آج خود سَر پہ دوپٹا ہی نہیں، پورا اسکارف لپیٹے ہوئے تھی۔ نورین کو بھی یک دَم جھٹکا تو لگا، لیکن اُسے بلاوجہ کسی کی ذاتیات میں دخل اندازی بالکل پسند نہ تھی۔ سو، ایک لفظ کہے بناء، بلکہ طیبہ پر دوسری نظر ڈالے بغیر اپنی سیٹ پر جا کے بیٹھ گئی۔
لنچ ٹائم میں نورین دفتر کے کیفے میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھی کہ طیبہ بھی اپنا کھانا لے کر اُس کے پاس آ بیٹھی۔ نورین خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔ ’’نورین…!‘‘ طیبہ نے تھوڑی دیر بعد اُسے خُود مخاطب کیا۔ نورین نے اپنا ہاتھ روک کرسوالیہ نظروں سےاُس کی طرف دیکھا۔ ’’تمھیں پتا ہے، مَیں نے یہ اسکارف کیوں اوڑھ رکھا ہے؟‘‘ طیبہ نے پوچھا۔ ’’یہ سراسر تمھارا ذاتی فیصلہ ہے۔ مَیں کیا کہہ سکتی ہوں۔‘‘ نورین نے کندھے اُچکائے۔ ’’مَیں نے اتوار کو بالوں کی ری بانڈنگ کروائی تھی۔
مگر زیادہ کیمیکل لگ جانے کی وجہ سے میرے بال بری طرح جل گئے ہیں اور اب جب تک جلے ہوئے بال ٹھیک نہیں ہوجاتے۔ مجھے سر پر اسکارف ہی لینا پڑے گا۔‘‘ طیبہ کے ہونٹوں پر بہت پھیکی سی مسکراہٹ، مگر نظروں میں خاصی شرمندگی تھی۔ نورین نگاہیں جُھکائے خاموش بیٹھی رہی۔ وہ پھر بولی۔ ’’تمھارے علاوہ سب نے میرا خُوب مذاق اُڑایا ہے، حالاں کہ تمھارے پردے کو لے کرجتنا مَیں نے تمھیں تنگ کیا، کبھی کسی نے نہیں کیا ہوگا۔
تمھارے پاس بہت اچھا موقع تھا مجھ سے بدلہ لینے کا۔ تم چاہتی تو مجھے آئینہ دکھا سکتی تھی۔ لیکن…‘‘طیبہ کو شاید نورین کی خاموشی سے تسلی نہیں ہو رہی تھی، تو نورین نے پوری نگاہیں اٹھا کر اُس کے چہرے کی طرف دیکھا اور بولی۔’’دیکھو طیبہ! ہر انسان کی اپنی ایک شخصیت، ایک مزاج، ایک انداز ہوتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ ہمیں ہرفرد کو اُس کی مکمل شخصی آزادی کے ساتھ بھرپور عزت و احترام دینا چاہیے۔
تم اسکارف لو یا نہ لو، مجھےاِس سے کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی کسی اور کو ہونا چاہیے۔ تمھارا لباس، تمھارا اپنا انتخاب ہےاور میرا لباس میرا اپنا انتخاب۔ لیکن اگر مجھے تمہارے لائف اسٹائل پرتنقید کا حق نہیں، تو یہی حق مَیں اپنے لیے بھی ضرور چاہتی ہوں۔ بات یہ ہے کہ یہ ماڈرن ازم کا راگ الاپنے والے لوگ درحقیقت دو رُخے، دوغلے لوگ ہیں۔
یہ فیشن ایبل خواتین کو فیشن کرنے کا حق تو دیتے ہیں، مگر اپنی مرضی، اپنے انتخاب سے حجاب کرنے والی خواتین کو اُن کا یہ حق دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ حالاں کہ اصل ماڈرن ازم تو یہ ہے کہ اگرہم اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں، توہمیں دوسروں کو بھی اُن کی مرضی سے جینےکا حق ضرور دینا چاہیے۔‘‘ نورین نے دھیرے دھیرے بڑے رسان سے اپنی بات مکمل کی۔ اور حجاب میں لپٹی طیبہ کا سَرشرمندگی سے کچھ اور ہی جُھکتا ہی چلا گیا۔