• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی وجہ ضرور ہے کہ بجلی پیدا کرنیوالا شعبہ جس نے معیشت کو پٹڑی سے اتار دیا ہے اور شہریوں کوبے پناہ زک پہنچائی ہے، ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اسی لیے کوئی بھی اسے درست نہیں کرنا چاہتا۔ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے اور اس میں اتنے گروہوں کا مفاد وابستہ ہے کہ اسکا کوئی حل نہیں نکل پاتا۔ شہریوں کی اذیت کے دن جلد ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر چہ بہت سے کالم نگار اور سوشل میڈیا اس مسئلے پر بھر پور آواز بلند کر رہے ہیں لیکن حکام میں سے کسی نے اس پر کوئی با معنی بات نہیں کی ہے۔

مسئلہ کیا ہے؟ اس بحران کی تہہ میں کچھ مستقل مسائل ہیں۔ انکا آغاز 1990ء کی دہائی میں ہوا جب ایک عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایف آئی) نے اس شعبے میں پیداواری گنجائش کی کمی پوری کرنے کیلئے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی سفارش کی تھی۔ بجلی کی قلت اور لائن لاسز نے معیشت کو مفلوج کر رکھا تھا۔ حکومت نے واپڈا جس نے دنیا کے دو عظیم ترین آبی ذخائر تعمیر کئے تھے، کے دھڑے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ حکومت نے واپڈا کے کئی ایک افعال، جیساکہ بجلی کی پیداوار، ترسیل تقسیم اور توانائی کی خریداری کے شعبوں کو الگ الگ کر دیا۔ نئی سرمایہ کاری کیلئے واپڈا کو حکومت کی طرف سے فنڈز نہیں ملتے تھے لیکن اسے کسی بہت بڑی جراحت کی ضرورت نہیں تھی۔

آئی ایف آئی نے 1994ء میں توانائی کی نجی پالیسی کی تشکیل میں مدد کی۔ اسکے بعد یہ شعبہ اس طرح الجھ گیا کہ ہر حکومت کیلئے اسے راہ راست پر لانا مشکل ہو گیا۔ اُس وقت حکومت کی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی قلت تھی۔ آج ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کی اضافی گنجائش ہے لیکن وہ لاگت اور ترسیل کے مسائل کی وجہ سے صارف تک نہیں پہنچ پاتی۔ اسکے باوجود صارفین کو اس کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ واشنگٹن اتفاق رائے (Washington Consensus) کی معاشیات تھی جس نے ہمیں نقصان پہنچایا۔ شروع میں غیر ملکی نجی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کیلئے سہولیات درکار تھیں۔ انہیں بجلی خریدنے اور ایندھن کی فراہمی کی ضمانت دی گئی اور اسکے نفاذ کاریاست کیساتھ معاہدہ کیا گیا۔ ’بجلی لو یا ادائیگی کرو‘ کی بنیاد پر کیپسٹی ادائیگی کے معاہدے کو حکومت پاکستان نے سود، تبادلے اور نرخ بڑھنے کی بنیاد پر قبول کر لیا۔

ایندھن کی لاگت ایک تبدیل ہونیوالی شے تھی۔ سرمائے کی واپسی کی بھی ضمانت تھی۔ ایف بی آر پاور پروڈیوسرز کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ منصوبوں کو 80فیصد تک قرض کی اجازت دی گئی تھی، جن کی واپسی گارنٹی کے ذریعے یقینی بنائی گئی تھی۔ بغیر کسی حد کے اوپن اینڈ ڈانڈیکسیشن، جو روپے کی قدر میں گراوٹ سے بدتر ہو گئی ہے، کا مطلب ہے کہ ٹیرف کا حجم ہمیشہ بڑھتا ر ہے گا۔

جب حکومت نے تمام خطرات مول لیے تو براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ سرمایہ کاری کو تیزی سے حاصل کرنے کی خواہشمند حکومت نے مسابقتی بولی کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔ اس میں پلانٹ کی کارکردگی یا ایندھن کی قسم کے تقاضے شامل نہیں تھے ، اور نہ ہی منصوبے کی لاگت اہم تھی۔ اس سب نے لاگت اور صارفین کے ٹیرف میں اضافہ کر دیا۔ حکومت نے شاید یہ فرض کر لیا ہے کہ صارفین کے پاس بجلی خریدنے کیلئے لامحدود وسائل ہیں۔ لیکن چونکہ صارفین لاگت برداشت نہیں کر سکتے تھے اور ڈسکوز کا نقصان زیادہ ہو رہا تھا، حکومت کو سبسڈی دینا پڑی۔ اور حکومت کے پاس بھی وقت پر واجبات ادا کرنے کے ذرائع نہیں ہیں۔ لہٰذا مستقل طور پر گردشی قرضہ سر پر سوار ایک بوجھ بن گیا۔

عام طور پر معیشتیں حالات کے مطابق پالیسی کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ 1994 ء کی پاور پالیسی کے بعد بجلی پیدا کرنیکی صلاحیت میں اضافہ ہوا اور چند سال میں رسد طلب سے زیادہ ہوگئی۔ اسکے باوجود حکومت پاکستان نے نئے آئی پی پیز کیلئے مراعات کو کم کر کے اپنی ذمہ داریوں کو کم کرنے کیلئے اسکیم کو تبدیل نہیں کیا۔ اسی فراخدلانہ مراعات کیساتھ مزید آئی پی پیز کو اجازت دی جاتی رہی۔ حکومت نے یہی اسکیم برقرار رکھی جبکہ مزید بجلی کی ضرورت نہیں تھی ۔ اب چونکہ رسد طلب سے زیادہ ہے اور ترسیل کم ہے، صارفین کیلئے لاگت اور حکومت کیلئے سبسڈی کی رقم انتہائی بلند ہوگئی ہے۔

سب سے پہلے بیرونی سرمایہ کاری ان فرموں نے کی تھی جو پاور سیکٹر میں تجربہ رکھتی تھیں۔ کئی سال کے بعد انھوں نے اپنی ایکویٹی پاکستانی فرموں کو بیچ دی۔ کسی پاکستانی فرم کو اس کاروبار کا تجربہ نہیں تھا۔ پھر بھی فراخ دلانہ ترغیبات نے زیادہ منافع کی یقین دہانی کرائی۔ پائیڈ کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری پر اتنے زیادہ منافع کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ حکومت کا رد عمل کیا ہے؟ صارف اور ٹیکس دہندگان فیصلہ سازوں کی حماقتوں اور غلطی کو درست کرنے کیلئے انکی نااہلی یا عدم دلچسپی کی قیمت چکا رہے ہیں ۔ مسئلہ حل کرنے کی بجائے پچھلے دس سال میں حکومتی اقدامات نے بگاڑ کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ حکومت صارفین کو تحفظ دینے کی بجائے خود آئی پی پیز کے چکر میں آگئی ہے۔ شہریوں اور کاروباری ضروریات کو احمقانہ طریقے سے نظر انداز کرتے ہوئے اب 6650 میگاواٹ تھرمل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے سرکاری ملکیت میں آئی پی پیز موجود ہیں۔ یہاں تک کہ واپڈا کی ملکیت ، جینکو کو بھی آئی پی پیز میں تبدیل کر دیا گیا۔ صرف 2023ءمیں حکومت پاکستان کی ملکیت والے آئی پی پیز نے 67بلین روپے کا خالص منافع کمایا، جس میں 1263 میگاواٹ پنجاب تھرمل شامل نہیں ، جس نے 2023 ء میں کام شروع کیا۔ آئی پی پیز میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ حکومت نے آئی پی پی کی صلاحیت کو بڑھانےکیلئے سی پیک اور سعودی امداد کا بڑا حصہ استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ 2014 -2023ء کے دوران ہم نے 16318 میگاواٹ کے آئی پی پیز کو شامل کیا تو پیداواری صلاحیت بڑھ کر45000 میگاواٹ ہو گئی۔ دوسری طرف ہماری بجلی کی ترسیل کی صلاحیت 25000 میگاواٹ سے کم ہے۔ اسکے باوجودد فیصلہ سازوں کی نئے آئی پی پیز میں دلچسپی برقرار ہے۔ 2021ءکے بعد سے، جب وزارت خزانہ نے سبسڈی کو الگ رقم کے طور پر ظاہر کیا ہے، حکومت نے تقریباً دس کھرب روپے سالانہ ادا کیے ہیں۔ پرائیویٹ پاور پالیسی کا فسانہ حیران کن ہے۔ روپے کی موجودہ قدر میں بھی 1990ء کی دہائی میں واپڈا کو صلاحیت بڑھانےکیلئے جس رقم کی ضرورت تھی وہ شاید بلند ٹیرف اور سبسڈی کے ذریعے ادا کی گئی رقم سے کہیں کم تھی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین