مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال چوہدری نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 23 کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
بیرسٹر گوہر علی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت ایسی ترمیم صرف حکومت لا سکتی ہے، پرائیویٹ ممبر کے بل میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد پر قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ سال میں 155 دن کام کرتی ہے جبکہ بھارت میں سپریم کورٹ 190 دن کام کرتی ہے، ہمیں مقدمات کے التواء کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے کام کرنے والے دنوں کو بڑھانا چاہیے۔
اجلاس کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 ہے، آبادی 25 کروڑ ہو چکی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ پہلے انگریز جج بحری جہازوں پر انگلستان جاتے تھے، اس لیے سپریم کورٹ 60 دن کی 2 چھٹیاں کرتی تھی، اب یہ چھٹیاں کم ہونی چاہئیں۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ حکومت نے فی الحال ججز کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا، اس معاملے کو تفصیل سے دیکھ کر فیصلہ کر لیں گے۔
جس کے بعد اسپیکر نے بل کو فی الحال مؤخر کر دیا۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے عدلیہ کے ازخود نوٹس اختیار سے متعلق آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔
اسپیکر ایاز صادق نے بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔
ترمیمی بل کے مطابق سپریم کورٹ میں عوامی نوعیت کے مقدمات کم سے کم 9 ججز پر مشتمل بینچ سنے گا، متاثرہ فریق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں اپیل دائر کر سکے گا۔
اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں رکن اسمبلی نور عالم نے توہین عدالت کی منسوخی کے قانون کا بل بھی پیش کر دیا۔
اسپیکر نے بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھجوا دیا۔