بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی۔مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بات ہمارے ہاتھوں سے نکل چکی۔ ریاست کو بلوچستان کے لوگوں سے نہیں وسائل سے دلچسپی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں مظالم اور ریاست کے نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے استعفے پر مجبور ہوا۔
انکا کہنا تھا کہ ریاست میں عدلیہ، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور میڈیا شامل ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی مداخلت اور سیاسی ہیرا پھیری روز اوّل سے ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی یا جذباتیت لانے کا کام ریاست نے خود کیا، ریاست نے اپنی زیادتیوں اور ناانصافیوں سے لوگوں کو مشتعل کیا۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ لوگ پہاڑوں پر گئے کیوں؟ پہلے تو لوگ پہاڑوں پر نہیں تھے۔
بی این پی سربراہ نے کہا کہ ایوب خان کے دور میں عام معافی کا اعلان کیا گیا، پہاڑوں پر موجود لوگوں نے سیاست میں حصہ لیا۔ پہاڑوں پر موجود لوگوں نے 1970 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، اس کے نتیجے میں بلوچستان کی پہلی حکومت تشکیل دی گئی۔
انکا کہنا تھا کہ باقی جو جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے مرہم رکھنے کے بجائے ہمیشہ بلوچستان کے زخموں کو کھرچنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کو سمجھاتے رہے نہ کریں، بلوچستان کا نوجوان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور اب جو نوجوان اپنے خاندان کی رضا کے بغیر پہاڑوں پر جاتا ہے تو وہ میری بات کہاں سُنے گا؟ پہاڑوں پر جانے والا نوجوان اب کسی اور سیاسی شخص کی بات کس طرح سُنے گا؟ وہ نوجوان تو جان ہتھیلی پر رکھ کر وہاں گیا ہے، بات ہمارے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔
بلوچستان کے تین بڑے مسائل اور ان کے حل کے سوال پر اختر مینگل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو اس ملک کا ایک صوبہ تسلیم کیا جائے، 75 سالوں سے بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی ریاست کو بھی بلوچستان کے لوگوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ ریاست کو بلوچستان کے وسائل، سوئی گیس، ریکوڈک، اس کے ساحل اس سے دلچسپی ہے۔
سردار اختر مینگل نے سوال کیا کہ بلوچستان کے ساحل کو بنیاد بنا کر سی پیک لائے اور اس سے بلوچستان کو کیا فائدہ ہوا؟