قومی کرکٹ ٹیم خاصی مدت سے جس قدر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے ،بنگلہ دیش سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر دو ٹسٹ میچوں کی سیریز میں شرمناک شکست نے اسے آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ اپنے ملک کی کشیدہ سیاسی صورت حال کی وجہ سے بڑی افرتفری میں پاکستان کے دورے پر آنے والی مہمان ٹیم نے میزبان ٹیم کی نسبت کم تجربہ اور مہارت رکھنے کے باوجود دونوں میچوں میں اسے شکست فاش دے کر قومی ٹیم کے مداحوں اور ہم وطنوں کے پاس اس طرح کی باتیں کرکے دل کو تسلی دینے کی بھی کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی ہے کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتی ہے اور یہ کہ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں۔ پہلے میچ میں دس وکٹوں سے ہارنے کے بعد دوسرے ٹیسٹ کے آخری روز پاکستانی باؤلرز 185 رنز کے ہدف کے دفاع میں ناکام ر ہے اور مہمان ٹیم نے دوسرے ٹیسٹ میں 6 وکٹوں سے تاریخی فتح حاصل کرلی ۔اس سے پہلے انگلینڈ نے 2022 میں پاکستان کو 3 میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔قومی کرکٹ ٹیم کی یہ مایوس کن کارکردگی نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ چیئر مین سمیت پاکستان کرکٹ بورڈ کے تمام ذمے داروں کی اہلیت اور اپنے فرائض منصبی کی درست انجام دہی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ٹی 20 ورلڈ کپ میں ہماری ٹیم نے امریکہ جیسی نوآموز ٹیم سے شکست کھا کر اور پھر پے درپے میچ ہارکر ترقی معکوس کا ریکارڈ بنایا تھا۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے اس پر قوم کو یہ کہہ کر دلاسا دیا تھا کہ معمولی سرجری کے بجائے اب معاملات کی درستگی کیلئے وہ بڑی سرجری کریں گے لیکن بنگلہ دیش سے ایسی رسواکن شکست سے واضح ہے کہ ٹیم کا حال تو مزید خستہ و خوار ہوگیا ہے۔ کیا بہتر نہیں کہ کرکٹ کے معاملات اب کسی غیرمتنازع اور باصلاحیت پروفیشنل شخصیت کے سپرد کیے جائیں اور موجودہ چیئرمین کرکٹ بورڈ بحیثیت وفاقی وزیر داخلہ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے پر اپنی تمام صلاحیتیں اور توجہات مرتکز فرمائیں۔