• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اوائل عمری ہی سے وہ خطیب اور سیاست دان پسند رہے ہیں جو اپنے خطاب کے درمیان صرف اپنی زبان کا استعمال نہ کریں بلکہ ان کے دکھائی دینے والے تمام اعضاء بھی حرکت میں نظر آئیں، وہ اداکار بھی ہونے چاہئیں، ان کے لفظوں سے ان کی اداکاری زیادہ موثر ہو، کبھی کبھار ان کے منہ سے تھوکیں نکل کر سامعین پر بھی گرنا چاہئیں، میں نے اپنی جوانی کے آغاز میں کچھ خطیب ہو بہو ایسے ہی سنے تھے، مجھے ان دنوں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا، جن کا ’’جمعۃ المبارک کو شاندار افتتاح‘‘ ہوتا تھا اور میں چند دوسرے جانبازوں کی طرح لائن میں لگے شرفاء کے سروںپر سے تیرتا ہوا کھڑکی تک جا پہنچتا تھا اور ہاتھ کھڑکی میں گھسا تو دیتا تھا مگر نکالنا مشکل ہو جاتا تھا کہ کئی اور ہاتھ بھی میرے ’’ہم رکاب‘‘ ہوتے تھے۔لیکن اگر اس روز میرے کسی پسندیدہ خطیب کے پروگرام کی خبر ملتی تو اللہ مجھے فسق و فجور سے صاف بچا کر نکال دیتا اور میں خطیب کی ایمان پرور اور دلربا گفتگو سننے چلا جاتا۔

مگر اس زمانے میں میں کسی ایسے سیاستدان کی تقریر سے محروم ہی رہتا جو ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ سے شروع ہوتی اور آٹھ دس سال بعد نہ مقرر کا پتہ چلتا اور نہ عزیز ہم وطنوں کا کہ وہ کسی نئے بحران میں مبتلا ہوگئے ہوتے تھے۔ البتہ سیاستدانوں میں میرے محبوب مقرر ذوالفقار علی بھٹو تھے جو جوش خطابت میں مائیک کو مُکا مارتے اور سامعین کے علاوہ مائیک کو بھی حال آ جاتا۔ بھٹو کبھی کبھار دوران ِتقریر گندی گالی بھی دے ڈالتے جس پر لاہوریئے عالم سرخوشی میں بھنگڑا ڈالنے لگتے۔ بہت عرصے بعد اس جوش تقریر کی روایت شہبا زشریف نے بھی اپنائی وہ میرے شعر پڑھتے تھے۔ جوش آتا تو مائیک کا پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کہاں گیا، مگر جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں بہت سوبر ہو گئےہیں، تقریر کے دوران اب ان کی روایتی خوش دلی بھی نہیں نظر آتی۔ اب یہ صرف ان کے قریبی دوستوں کا مقدر ہے۔

البتہ ان دونوں ادوار کے درمیانی حصے بلکہ آپ کہہ لیں ماضی قریب میں، دو مقرر ایسے ہیں جو میری پسندیدگی کے معیار پر پورے اترتے ہیں ان میں سے ایک طاہر القادری تھے جو روایتی سیاست سے دستبردار ہو چکے ہیں تاہم الحمد للہ دینی سیاست سے پوری طرح وابستہ ہیں، وہ جب رسول اللہ ﷺسے اپنی گپ شپ روتے ہوئے بیان کرتے ہیں تو ان کے سامع بھی روتے ہیں اور بجا طور پر روتے ہیں۔ بہرحال کنٹینر میں سے ان کی جو شعلہ فشانی دیکھنے میں آئی فلک ناہنجار کو نہ اس سےپہلے اور نہ اس کے بعد سننے کو ملی۔ ان کے چہرے کی رگیں کھنچ جاتی تھیں تاہم اس کے باوجود وہ یہ احتیاط کرتے کہ منہ سے نکلنے والی تھوکیں ان کے عقیدت مندوں کے چہروں پر نہ گریں بلکہ وہ یہ تھوک ٹیشو پیپر میں لپیٹ کر عقیدت مندوں کی طرف اچھال دیتے تھے اور وہ لپک کر یہ تبرک اٹھا لیتے تھے۔ ان دنوں ہمارے یہ شیخ الاسلام کینیڈا میں ہیں کبھی ’’ساحل سمندر‘‘ پر اپنی ویڈیو شیئر کرتے ہیں اور کبھی صبح کی سیر کی ویڈیو، چند روز پیشتر وہ جاپان گئے تھے وہاں انہوں نے پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں کیا عمدہ نصیحت کی کہ آپ نے کسی قانونی مجبوری کے تحت جاپانی عورتوں سے جو شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے حقوق بھی پورے کریں اور بچوں کی تربیت اسلامی ماحول میں کریں وغیرہ وغیرہ ۔

وہ جو شاعر نے کہا ہے ناکہ محبوب کے ذکر سے پہلے ہی راہوار خیال زقندیں بھرنے لگتا ہے اور کہیں کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے ۔سو اس وقت میرے ساتھ یہی ہوا ہے ابھی تک میں نے جو زقندیں بھری ہیں وہ شیخ رشید کی وجہ سے بھری ہیں کہ یہ کالم لکھتے وقت میرے ذہن میں صرف شیخ رشید تھے جو ان تمام صفات کی بنا پر میرے فیورٹ لیڈر ہیں جو میں نے اوپر کی سطور میں بیان کی ہیں ان کی شعلہ بیانیاں میں نے زمان پارک اور کنٹینر سے ہونے والی تقریروں کے دوران ملاحظہ کی ہیں۔مار دو، تباہ کر دو، آگ لگا دو، جو راہ میں آئے اسے ملیامیٹ کر دومگر جب پی ٹی آئی پر برا وقت آیا تو انہوں نے ہلکی پھلکی موسیقی سے کام چلانا شروع کیا موصوف اپنی ہر تقریر میں کہتے تھے کہ میرا تعلق گیٹ نمبر 4سے ہے اور یوں اسٹیبلشمنٹ سے اپنا تعلق بہت فخریہ بیان کرتے تھے مگر ایک دن انہوں نے ’’وہی والی‘‘ پر یس کانفرنس کی اور سمجھے کہ انہوں نے اپنے ماضی کے ’’کارناموں‘‘ سے قطع تعلق کرکے خود کو محفوظ کر لیا ہے مگر یہ چالیس دن کے چلے کا کیا معاملہ تھا جس کا ذکر وہ اب بھی کبھی کبھار کرتے ہیں۔ شیخ صاحب نے ان دنوں چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے البتہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ان سے ایک بیان منسوب کیا گیا ہے جس کے مطابق انہوں نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کی کوشش کی مگر اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔کیونکہ اپنے جس ازار بند سے انہوں نے رسی کا کام لینا تھا وہ چھوٹا نکلا وہ صرف گردن کے گرد لپیٹا جاسکتا تھا یا پنکھے کےساتھ، تاہم مجھے سوشل میڈیا کی خبر دوسری بہت سی خبروں کی طرح من گھڑت لگتی ہے کیونکہ ازار بند اگر ان کی گردن کے سائز کا تھا تو پھر پنکھا چلانے کی ضرورت نہ تھی خواہ مخواہ یونٹ گرتے اور شیخ صاحب کوبل زیادہ آتا۔ ازار بند کو گردن کے گرد لپیٹ کر صرف زور سے گانٹھ باندھنے کی ضرورت تھی اور یوں ان کی غیرت کا تقاضا پورا ہو جاتا اب افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے ایک منحوس خبر کو کالم کا موضوع بنایا، اللہ تعالیٰ انہیں اتنی زندگی دے جتنی وہ چاہتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے اینکر اور ناظرین اتنے عرصے سے ان کی چٹپٹی گفتگو سننے سے محروم چلے آرہے ہیں اب اس غیر حاضری کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہونا چاہئے۔

افسوس میں نے خواہ مخواہ ایک ایسی خبر پر چند لائنیں ضائع کیں جس پر مجھے یقین نہیں، اس نوع کی من گھڑت خبروں کا سرابھی ان کی سابقہ حلیف پارٹی سے جاملتا ہے جس کا اولین مقصد من گھڑت خبریں پھیلانا اور گالی گلوچ کرنا تھا آج اس کی زد میں خود شیخ صاحب آ گئے ہیں اللہ ان کی عمر دراز کرے کہ اب ان ایسا صرف ایک دانہ ہمارے پاس رہ گیا ہے۔

تازہ ترین