• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ کل سنائے جانے کا امکان

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کےخلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں پر فیصلہ کل سنائے جانےکا امکان ہے، سپریم کورٹ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ فیصلہ سنائے گا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دور حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں، نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14, 15, 21, 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔

نیب ترامیم کے خلاف بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 15ستمبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں۔

بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں دائر اپیلوں پر ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست دائر کی تھی، سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو انٹراکورٹ اپیلیں سماعت کےلیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔

نیب ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا، نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا، نیب ترامیم کے تحت نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا، ترمیم کے تحت نیب دھوکا دہی مقدمے کی تحقیقات تب ہی کر سکتا ہے جب متاثرین 100 سے زیادہ ہوں۔

نیب ترامیم کے تحت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے جسے بعد میں 30دن تک بڑھا گیا، ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا، ترامیم کے تحت ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو نیب دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا، افراد یا لین دین سے متعلق زیر التواء تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو منتقل ہوئیں۔

قومی خبریں سے مزید