• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمال الدین محمد، المعروف عرفی شیرازی (پہلی قسط)

عُرفی شیرازی کا شمار فارسی کے اُن عظیم شعراء میں ہوتا ہے، جن پر بلاشبہ فارسی زبان و ادب فخر کر سکتا ہے اور یقیناً ایسے شاعر کسی بھی خطّے اور قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں کہ جن کے فن کا فیض مختلف ادوار میں مختلف اقوام تک پہنچتا رہے۔ جب جب فارسی شعر و ادب کی تاریخ لکھی جائےگی، اُس میں ہمیشہ عُرفی کا شمار سرِفہرست شعراء میں ہوگاکہ فارسی قصیدہ نگاری میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عرفی شیرازی فارسی قصیدے کا سب سے بڑا شاعر ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ 

جن ایرانی شعراء کی نشوونما ہند میں ہوئی، عرفی ان میں سب سے بلند پایہ شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُردو کے دو انتہائی مایہ ناز شاعر، غالب اور اقبال بھی اُس سے متاثر تھے۔ بقول اقبال؎ محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیّل نے.....تصدّق جس پہ حیرت خانہ ٔ سینا و فارابی.....فضائے عشق پر تحریر کی اُس نے نوا ایسی.....میسّر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی۔

عُرفی شیرازی کے حالاتِ زندگی اور شاعری کا ذکر دسویں صدی ہجری سے لے کر موجودہ دَور تک لکھے جانے والے ہر تذکرے میں پایا جاتا ہے۔ گرچہ سب تذکرہ نگاروں کی آراء عرفی سے متعلق ایک جیسی نہیں، لیکن اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ عرفی اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث فنِ شاعری میں نابغہ ٔ روزگار تھا۔ بقول ڈاکٹر محمد ولی الحق انصاری’’عرفی شیرازی، فارسی زبان کے اُن چند شعراء میں مرکزی حیثیت کے حامل ہیں، جنہیں ایک نئے طرز کا موجد سمجھا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں کہ جن کی شہرت خود اُن کی زندگی ہی میں اس حد تک ہوئی کہ دوسرے شعراء کے کلام کو لوگوں نے دلوں سے بھلادیا۔‘‘

عُرفی کی شہرت خود اُس کی زندگی میں ہندوستان سے لے کر ترکی تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ عرفی کی شاعری ہی کا کمال تھا کہ اُس کی شخصیت کے متنازع ہونے کے باوجود دوست، دشمن، حاسد اور رقیب سب اُس کے فنِ شعر کے معترف نظر آتے تھے۔ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں۔’’عرفی کا کلام کتب فروش گلی گلی، کوچہ بہ کوچہ بیچتے پھرتے ہیں۔ عراق اور ہند کے لوگ اسے تبرک کے طور پر لیتے ہیں۔‘‘اسی طرح فیضی جو دربارِ اکبری کا ملک الشعراء رہا تھا۔ عرفی کو ان الفاظ میں خراج ِتحسین پیش کرتا نظر آتا ہے۔

’’اس فقیر فیضیؔ نے مضمون آفرینی کی بلندی، بیان کی قدرت، الفاظ کی چاشنی، فکر کی تیزی اور خیال کی بلندی جو عرفی کے کلام میں دیکھی، کسی اور کے کلام میں نہیں دیکھی۔‘‘پھر مشہور مورخ E.J.W.Gibb اپنی شہرۂ آفاق تصنیف History of Ottoman Poetry (دورِ عثمانی کی شاعری) میں رقم طراز ہے۔’’عرفی کی شاعری کا اثر ہندوستانی فیضی کے ساتھ جُڑتا ہے، جس نے اپنی تحریروں کے فلسفیانہ لہجے سے متاثر کیا۔ دورِ عثمانیہ کی شاعری کو غیر ملکی عناصر میں ڈھالنے میں اس کا اسلوب بہت توانا تھا۔ اس وقت علی شیر کی بالادستی تھی اور عرفی قریب المرگ تھا۔‘‘

عرفی کو بہت جلد ملنے والی شہرت کا نتیجہ تھا یا فطری تفاخر، یہ سچ ہے کہ کسی کوبھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اِس کی ایک وجہ یہ شاید بھی تھی کہ ایران کے اکثر نام وَر شعراء معمولی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً خاقانی، بڑھئی تھا۔ فردوسی باغ بانی کرتا تھا اور باقرکاشانی، بُردہ فروش تھا۔جب کہ ان کے برخلاف عرفی ایک بہت معزّز خاندان سے تھا، اسی لیے اُس نے اپنے تخلص میں بھی فخر کا عنصر برقرار رکھا، وگرنہ عمومی طور پر ایران کے شعراء میں نسبی تفاخر بہت کم پایا جاتا ہے۔ عرفی کی طبیعت میں اَنا تھی، وہ خوددار تھا، اس لیے اُسے قصیدہ نویسی بھی پسند نہیں تھی۔ حالات کے پیشِ نظر اُسے قصیدہ نویسی کرنا پڑتی، مگر اس دوران اُس کی انا ہمیشہ اُس کے آڑے آتی، لہٰذا روایت کے برعکس قصیدے میں پہلے وہ اپنی تعریف کرتا اور اُس کے بعد ممدوح کی۔ 

اُس کی اسی انفرادیت کی وجہ سے قصیدے کی صنف میں اختراع ہوئی، لیکن خوشامد پسند شعراء کو اُس کے ممدوحین کے کان بَھرنے کا موقع ملتا رہا۔ جس کا اسے بہت نقصان بھی ہوا۔ مگر وہ اپنی نخوت پسندی، خود ستائی اور احساسِ برتری کےسبب مجبور تھااور اس کی قصیدہ گوئی کا مقصد بہت زیادہ مالی منفعت یا انعام وا کرام کا لالچ بھی نہ تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ حکیم ابو الفتح اور خانِ خاناں کی مدح میں کہے ہوئے قصائد کے مقابلے میں شہنشاہ اکبر اور شہزادہ سلیم کی شان میں کہے جانے والے قصیدوں کی تعداد کم ہے۔ یہاں اس الزام کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ وہ شہزادہ سلیم کا عاشق تھا اور اسی لیے ہندوستان آیا تھا۔ 

اگر وہ اس غرض سے آتا، تو سب سے پہلے اُس کے دربار تک رسائی کی کوشش کرتا، جو اُس کے لیے کچھ مشکل نہ تھی۔ دوم اُس کی شان میں زیادہ قصیدے لکھتا، مگر اُس نے ایسا نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قصیدہ نگاری اُس عہد کی شاعری میں ایک مقبول صنفِ سخن تھی اور عرفی کو قصیدہ گوئی میں اپنی فطری صلاحیتوں کا علم تھا، اس لیے اُس نے ایسے اعلیٰ قصائد لکھے کہ اس فن میں یکتائے روزگار قرار پایا۔ بلاشبہ، اُس سے قبل اور اُس کے معاصرین میں کوئی اُس کا ہم سر نہ تھا۔

فارسی کے دیگر شعراء کے برعکس عرفی کے آبا و اجداد سے متعلق بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ تقی اوحدی، جسے عرفی کے ساتھ ایران میں کافی قُرب حاصل رہا، دونوں نے ایک ساتھ اتنا اچھا وقت گزارا کہ لوگ اُن کی دوستی پر رشک کرتے تھے۔ اُس نے عرفی کے دادا کا نام جمال الدین سیّد شیرازی اور والد کا نام زین الدین علی شیرازی لکھا ہے۔ عُرفی کےوالد وزیرِ داروغہ تھے اور انھیں اپنی ذمّے داریوں کے باعث امتیازی حیثیت حاصل تھی، جب کہ جمال الدین محمد نے اپنا تخلص عرفی رکھا، تاکہ اُسے شعراء میں امتیازی حیثیت سے پہچانا جائے اوراس تفاخر کا احساس اُسے تاحیات رہا۔ 

جب اُس نے شاعری میں خاصا نام کمالیا اور شہرت پاگیا ،تو اپنی فطرت کے مطابق سب کو فنِ شعر میں خود سے کم تر جانا، سوائے حافظ شیرازی کے، جن کے مرقد کو وہ سخن کا کعبہ قرار دیتا تھا۔ عرفی کو جو لوگ پسند آتے، اُن کی بھی کُھل کر تعریف کرتا اور جو ناپسند ہوتے، اُن کو بھی قلم کی نوک پر رکھتا۔ اپنے اشعار میں اپنے جذبات کا اظہار کھل کر کرتا۔ کسی مخالفت یا دشمن سے بالکل نہیں ڈرتا تھا۔ عُرفی کے تذکرہ نگاروں میں عبدالنبی، واحد تذکرہ نگار ہے، جس نے اُس کے حالات عرفی کے خالو شمس الانام شیرازی سے معلوم کر کے لکھے ہیں۔

عرفی نے عنفوان شباب ہی میں شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ وہ شاعری کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتا تھااور جو شاعر اُس کے اعلیٰ ذوق کے مطابق نہ ہوتا، اُسے گھاس تک نہیں ڈالتا تھا۔ وہ خاصا پڑھا لکھا اور وسیع المطالعہ تھا، جس کا اندازہ اُس کی شاعری سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اُسے مصوری سے بھی خاص شغف تھا اور موسیقی میں بھی اُس کی دل چسپی غیرمعمولی تھی۔ عرفی نے ان علوم میں دل چسپی کا اپنے کلام میں بھی ذکر کیا ہے۔ اُس کی شاعری سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فلسفے کی جانب بھی اُس کا گہرا رجحان تھا اور تصوف سے بھی اُسے خاص لگائو تھا۔

اسی موضوع پر ایک رسالہ ’’نفیسہ‘‘ بھی تصنیف کیا، جس سے پتا چلتا ہے کہ اس نے خود کو صرف فنِ شاعری ہی تک محدود نہیں رکھا ہوا تھا، بلکہ دیگر علوم سے بھی ازحد دل چسپی اور لگن ہی کے سبب اُسے شیراز میں اپنے معاصرین میں نمایاں برتری حاصل تھی۔ ایران میں شاعرانہ مجادلوں اور مباحثوں میں دل چسپی بھی عرفی کا خاص شغل تھا۔ یاد رہے، اس قسم کے مباحثے اُس عہد میں عام تھے۔ ان مباحثوں میں عرفی نے اپنی شاعری کی ابتدا ہی سے حصّہ لینا شروع کردیا تھا اور انہی مباحثوں کی وجہ سے اس کی علمیت اور فنِ شعر سے واقفیت بہت بڑھ گئی تھی۔

عرفی نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ ایران کے شہر، شیراز ہی میں بسر کیا، تاہم کئی دوسرے شہروں کی سیّاحت بھی کی۔ اُس کے ایک قطعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تہران گیا تو وہاں کی گرمی میں بدحال رہا۔ تاہم، اُس وقت تک اُس کی اعلیٰ شاعری کے سبب اُس کی شہرت شیراز سے نکل کر پورے ایران بلکہ ہندوستان تک پھیل چکی تھی۔ اُس کے قصیدوں کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے تعلقات ایران کے شاہی خاندان اور دوسرے معزّزین سے بھی تھے۔ ہندوستان میں خانِ خاناں کے دربار میں پہنچنے سے قبل بھی عرفی کو اُس کی طرف سے انعام و اکرام ملتا رہتا تھا۔ 

تذکرہ نویسوں کے مطابق، عرفی حسن و جمال سے مالا مال تھا، بلکہ کوئی بھی شاعر اپنے اردگرد کی جمالیات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہر تخلیق کار کو حُسن متاثر کرتا ہے کہ دُنیا کا کوئی فن پارہ حُسن سے متاثر ہوئے بغیر فنِ کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ عرفی کی شاعری سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایران میں قیام کے دوران کسی صنفِ نازک اور مرقّعِ حُسن کے لیے بھی اُس کے دل میں ایک خاص جگہ تھی، وہ تادیر اُس کے تصوّر میں گم رہتا۔ 

مگر اس صورتِ حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے حالات تھے کہ عرفی، شیراز جیسا جنّت نظیر خطّہ چھوڑ کر ہندوستان کے گرم خطّے میں جا آباد ہوا، حالاں کہ اُس کی طبعِ نازک پر تو تہران کی گرمی بھی گراں تھی۔ اس ضمن میں مختلف تذکرہ نویسوں نے الگ الگ قیاس آرائیاں کی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اُس کے شاعرانہ مرتبے اور علمی کمال کی وجہ سے اُس کے بہت سے حاسدین اور دشمن پیدا ہوگئے تھے، چوں کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، اپنے معاصرین، خاص طور پر کم درجے کے شعراء کا مذاق اُڑایا کرتا تھا، تو کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ چیچک کا شکار ہوگیا، اور تب اُس کے ان معاصرین اور حاسدین نے، جو اُس کی شاعری پر تو انگلی نہیں اٹھاسکتے تھے، اُس کے چہرے کو مذاق کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ 

عرفی چوں کہ حسّاس طبیعت کا بھی مالک تھا، خصوصاً اپنی ذات کے حوالے سے۔ تو اسی سبب وہ اپنے وطن ایران کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان جابسا۔ بعض تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں چوں کہ اُس کے ہم عصر شعراء کی بہت قدر و منزلت تھی، خانِ خاناں بھی اُس کا بہت قدردان تھا، اِس لیے اُس نے ایران سے ہندوستان کی طرف رختِ سفر باندھ لیا۔ 

مگر بعض کے نزدیک اُسے ہندوستان کی سیّاحت کا شوق وہاں کشاں کشاں لے گیا۔ وہ خانِ خاناں کے دربار جانے سے قبل دکن، بیجاپور اور احمد نگر میں تقریباً چھے ماہ قیام پذیر رہا اور جب شمالی ہندوستان گیا، تب بھی خانِ خاناں کے پاس نہیں گیا، بلکہ کافی عرصے تک فتح پور سیکری میں اُس وقت کے عظیم شاعر، فیضی کے پاس مقیم رہا۔ فیضی نےعرفی کی اس قدر خاطر مدارات کی اور اتنی محبت دی کہ یہ تعلق بہت جلد بے تکلفانہ دوستی میں بدل گیا۔ وہ ایک دوسرے سے ہر طرح کا مذاق کر لیتے۔ اُن کے بیچ ادبی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی۔ لیکن، جہاں اس قدر بے تکلفی ہو، وہاں آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا خطرہ بھی ہر گھڑی موجود رہتا ہے۔ 

سو، ایک چھوٹی سی بات نے دونوں کے تعلقات خاصے کشیدہ کردیے۔ اس حوالے سے مُلّا عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں۔’’ایک روزعرفی، شیخ فیضیؔ کے مکان پر گیا اور اُس نے فیضیؔ کو ایک کتّے کے پِلّے کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا۔عرفی کوو فیضی کی یہ حرکت معیوب معلوم ہوئی، اُس نے طنزیہ پوچھا کہ اس مخدوم زادے کا کیا نام ہے۔ فیضیؔ فوراً اس طنز کو سمجھ گیا، اُس نے عرفی پر جواباً چوٹ کرتے ہوئے کہا۔ ’’عرفی‘‘ یعنی یہی مشہور ناموں میں سے ایک۔ یہ سن کر بھلا عرفی کب چوکنے والا تھا۔ 

اُس نے فوراً جواب دیا۔ ’’مبارک باشد۔‘‘ یعنی مبارک ہو، لیکن حقیقتاً اس نے فیضی پر چوٹ کی تھی، اس لیے کہ فیضی کے باپ کا نام شیخ مبارک تھا اورعرفی کے جواب کا مطلب یہ بھی نکلتا تھا کہ پِلّے کا نام ’’عرفی‘‘ نہیں، مبارک ہوگا۔ اس بات پر فیضیؔ سخت ناراض ہو گیا اور یوںعرفی اور فیضی کی دوستی، مستقل ناراضی میں تبدیل ہوگئی۔‘‘ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید