جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ کراچی میں ہونے والے ایک ایکسیڈنٹ میں مرنےوالے غریب اور مظلوم باپ بیٹی ہیں جبکہ گاڑی چلانے والی ایک امیر کبیر شخص کی بیگم ہے ،تو ملک میں تین طرح کے لوگ بیدار ہوئے ایک تو ملک کےعوام جو سمجھتے ہیں کہ یہی امیر لوگ اس ملک کے وسائل پر قابض ہیں اور قانون وانصاف ان امیروں کے گھر کی لونڈی ہے ، دوسرے نمبر پر وہ امیر اور ملک کے وسائل پر قابض طبقہ جسے ہر حال میں اپنے ٹولے کی اس امیر زادی کو کسی بھی سزا سے بچانا تھا جو دن دہاڑے نشے میںسڑک پر اندھا دھند گاڑی چلا کرغریب لوگوں کو کچل کر وکٹری کا نشان بنا کر عوام اور قانون کا مذا ق اڑاتی نظر آرہی تھی ، جبکہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک اور طبقہ بھی جاگا جسے بلیک میلرمافیا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ، کیونکہ اس طبقے کے لوگوں نے نہ صرف اس مظلوم خاندان سے رابطہ کیا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں صرف اس بات پر ڈٹ جائیں کہ ہر حال میں اس امیر زادی کو سخت سے سخت سزا دلواناہی آپ کی زندگی کا مقصد ہے اور عوام کے ساتھ ہم بھی آپ کے پیچھے موجود ہیں ، دوسری جانب اسی بلیک میلر طبقے نے اس امیر زادی کے خاندان سے بھی رابطہ کیا کہ اگر آپ کو اس مظلوم خاندان سے معافی کوئی دلواسکتا ہے تووہ ہمیں ہیں جو اس غریب خاندان سے آپ کے معاملات طے کراسکتے ہیں ورنہ آپ کی بیگم کو سلاخوںکے پیچھے سے کوئی نہیں نکال سکتا ۔دریں اثنا عوام کا غصہ بھی روز بروز بڑھتا جارہا تھا ،عوام اس خاتون کو سخت سے سخت سزا دلوانا چاہتے تھے عوام چاہتے تھے کہ اس عورت کو نشان عبرت بنادیا جائے شاید ان کی نفرت ملک کے وسائل پر قابض اس ایک فیصد طبقے سےبہت زیادہ بڑھ چکی ہے ، صورتحال ہر گزرتے دن کے بعد تبدیل ہورہی تھی کبھی لگتا تھا کہ ایکسیڈنٹ کرنے والی خاتون چھوٹ چکی ہے تو کبھی اس کےخون اور یورین ٹیسٹ سے آئس جیسے نشہ آور اجزا ثابت ہورہے تھے ، پھر تقریباََ ایکسیڈنٹ کے پندرہ دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک رات خاموشی سےاس خاتون کا شوہر ،اسکی والدہ اور ایک اور شخصیت مرنے والے مظلوم باپ بیٹی کے گھر پہنچ گئے ہیں ،جہاں گرفتار خاتون کا نوجوان شوہر مرنے والے کی بیوہ اور بچی کی والدہ کے پیروں میں گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونےلگا ، اس کی والدہ نےبھی اپنی چادر اس بیوہ خاتون کے سامنے بچھا کر اپنی بہو کیلئے معافی کی بھیک مانگی ، ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ حادثہ ہوا ہے ان کے گھر میں کوئی بھی ایک پل کو سو نہیں سکا ، وہ سب اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے ہیں ، وہ اپنی بیگم اور بہو کی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن معافی کے طلب گار ہیں ۔اس موقع پرمارنے والی مذکورہ خاتون کا شوہر یہ بھی بتاتا ہے کہ جب سے ایکسیڈنٹ ہوا ہے اسی دن سے ایک بلیک میلر مافیا ان کے پیچھے لگا ہوا ہے ، کوئی ان سے سوکروڑ مانگتا ہے کہتا ہے کہ وہ سو کروڑ کے بدلے مرنے والے خاندان سے راضی نامہ کرادد گا ، جبکہ کوئی بلیک میلر ان سے فیکٹری نام کرانے کے لیے کہتا ہے ، تو کوئی بنگلہ لیکر معافی نامہ کرانے کی بات کرتا ہے ، لیکن ہم آپ کے سامنے بیٹھے ہیں آپ ہمیں بتائیں کہ ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں ، آپ لوگ جتنی رقم چاہیں ہم سے لے لیں لیکن اس بلیک میلر مافیا سے ہماری جان چھڑا دیں ۔اس موقع پر مرحوم کی بیوہ اور مرحوم کا بھائی حلف اٹھا کر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بھائی اور بیٹی کی موت کے بدلے ایک روپیہ بھی نہیں چاہیے ہم صرف انصاف چاہتے ہیں ، ہم شاید اس دنیا میں آپ کو اپنی غربت اور طاقت ور لوگوں کے شدید دبائو کے نتیجے میں معاف کردیں لیکن آخر ت میں آپ کا گریبان ضرور پکڑیں گے،کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ جو لوگ آپ سے سو کروڑ جیسی رقمیں طلب کررہے ہیں وہی لوگ ہمیں اور ہمارے بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں کہ اگر ہم نے آپ سے معاملات طے نہیں کیے تو ہمارے گھر کے اور بھی لوگ اسی طرح کے ایکسیڈنٹ میں مارے جاسکتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں بھی معلوم ہے کہ ہم اس دبائو اور بلیک میلنگ کے سامنے زیادہ دیر تک کھڑے نہیں رہ سکتے ، اسی گفت و شنید کے بعد دونوں خاندانوں میں اس اصولی موقف پر اتفاق ہوجاتا ہے کہ مظلوم خاندان ظالم خاتون کو ایک صلح نامے کے ذریعے معاف کردے گا تاکہ درمیان کا بلیک میلر ٹولہ جو دونوں خاندانوں کو بلیک میل کررہا ہے اس سے چھٹکارا پایا جاسکے ، جس کے چند دنوں بعد میڈیا پر وہ معاہدہ بھی سامنے آچکا ہے جس میں دونوں خاندانوں کا صلح نامہ اور معافی نامہ موجود ہے ۔ شکر ہے اس صلح نامے کے لیے کسی اور مظلوم کی جان نہیں گئی ۔تاہم یقین ہے دنیا کی عدالت میں غریب او رکمزور خاندان صلح نامے پر دستخط کردے گا لیکن ان بے گناہ مظلو م باپ بیٹی کا انصاف اللہ کی عدالت میں ضرور ہوگا۔