بین الاقوامی سطح پر سیاحت کی صنعت کا مجموعی سالانہ حجم تقریباً 9ٹریلین ڈالر سے زائد ہے جو اقوام عالم کے مجموعی جی ڈی پی کا دس سے 11فیصد بنتا ہے۔ تاہم سیاحت کی اس عالمی صنعت میں پاکستان کا حصہ 0.05 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بیش بہا تفریحی مقامات اور موسموں سے نوازا ہے۔ ایسے میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس اہم شعبے کی ترقی اور فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ اس حوالے سے حالیہ برسوں میں حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں حکومت اور پاک آرمی کے اشتراک سے گرین ٹورازم پاکستان کے نام سے کمپنی کا قیام اہم اقدام ہے۔ اس آئیڈئیے کو عملی شکل دے کر اس پر تیزرفتاری سے عملدرآمد کا تمام تر کریڈٹ پاک آرمی کو جاتا ہے۔ اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق یہ کمپنی ابتدائی طور پر سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو عالمی معیار کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے 150 ہوٹل قائم کرے گی۔ اس سلسلے میں تقریباً ~15 سے 20 ہوٹلوں کے قیام کا کام مکمل ہو چکا ہے اور جلد ہی ان کی لانچنگ متوقع ہے۔ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے تحت پہلے سے موجود ہوٹلز بھی یہ کمپنی اپنے انتظام میں لے کر ان کی دوبارہ سے تزئین و آرائش کرکے ری لانچ کرنے جا رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہوٹل بہت اہم سیاحتی مقامات پر موجود ہیں لیکن ان کے ڈیزائن، اندرونی تزئین وآرائش اور سب سے بڑھ کر خدمات کی فراہمی کا معیار وہ نہیں تھا جو کہ ہونا چاہیے تھا۔ گرین ٹورازم کمپنی نے اب ان ہوٹلز کو ناصرف عالمی معیار کے اداروں کی مشاورت اور مدد سے ری ڈیزائن کیا ہے بلکہ ان کی مینجمنٹ اور خدمات کی فراہمی کے معیار کو بھی عالمی معیار سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پروفیشنل اسٹاف اور مینجمنٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
اس اقدام سے جہاں پاکستان میں عالمی سیاحت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی وہیں مقامی سیاحوں کو بھی بہتر خدمات اور سہولیات دستیاب ہوں گی۔ قبل ازیں پی ٹی ڈی سی کا ادارہ سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کو عالمی معیار کی سہولیات کی فراہمی میں وہ معیار برقرار رنہیں رکھ سکا تھا جس کی اب ضرورت ہے۔ ایسے میں گرین ٹورازم پاکستان کے نام سے نئی کمپنی کا قیام اس شعبے میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے جس کی پیروی میں سیاحتی مقامات پر پہلے سے موجود مقامی ہوٹل انڈسٹری کا معیار بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں مقامی شراکت اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لئے مختلف جوائنٹ وینچرز پر بھی کام ہو رہا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کے کاروبار اور خدمات کی فراہمی کے معیار میں بہتری آئے گی۔
اس طرح نہ صرف ملک بھر سے شمالی علاقوں کا رخ کرنے والے مقامی سیاحوں کو وہ ماحول میسر آئے گا جس کا تجربہ وہ دیگر ممالک کی سیاحت کے دوران کر چکے ہیں بلکہ مذہبی سیاحت کے شعبے میں بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی فوری طور پر نمایاں اضافہ ہو گا جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کے حصول کا ایک نیا اور مستقل ذریعہ میسر آئے گا۔ قبل ازیں مذہبی سیاحت کے موضوع پر اپنے گزشتہ کالم میں بھی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ سکھ کمیونٹی اپنے مذہبی مقامات کی زیارتوں کے لئے پاکستان آنے میں ناصرف دلچسپی رکھتی ہے بلکہ وہ ان مذہبی مقامات کی سیاحت کے سلسلے میں سہولیات کی فراہمی اور دستیابی کے لئے سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے سکھ کمیونٹی کے بااثر افراد اور اہم کاروباری شخصیات سے جب بھی کہیں ملاقات ہوتی ہے وہ اس حوالے سے اپنی دلچسپی کا اظہار لازمی کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پاس اس شعبے میں ترقی اور سرمایہ کاری کے بہت زیادہ مواقع میسر ہیں۔
تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مذہبی سیاحت کی غرض سے بیرون ملک سے آنے والی سکھ کمیونٹی کو ترجیحی بنیادوں پر ویزوں کے اجرا کو یقینی بنایا جائے۔ علاوہ ازیں پشاور اور دیگر شہروں میں سکھ کمیونٹی کے بعض ایسے مذہبی مقامات موجود ہیں جہاں ان کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ اگر اس حوالے سے حکومتی سطح پر سکھ کمیونٹی سے رابطہ کرکے ان مذہبی مقامات تک رسائی یا آمدورفت بھی آسان بنا دی جائے تو اس سے انہیں اچھا پیغام جائے گا۔ اس حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم سکھ کمیونٹی اپنے مذہبی مقامات کی بحالی و تزئین وآرائش کے لئے بھی حکومت سے ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہے۔ اس سلسلے میں بھی حکومت اور پاک فوج کو مشاورت سے ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ جس سے کم از کم پہلے مرحلے میں’’نان ریذیڈنٹ انڈین‘‘ سکھ اور ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ویزوں کے اجرا میں آسانی فراہم کی جا سکے۔ اس کے لئے دیگر ممالک کی طرح آن لائن ویزہ کی سہولت فراہم کرنے کے علاوہ سعودی عرب میں حج اور عمرہ پر جانے والے گروپس کو خدمات فراہم کرنے والی ٹورازم کمپنیوں کو یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے کہ وہ سکھ اور ہندو زائرین کو پاکستان میں ان کے مذہبی مقامات کی زیارتیں کروائیں۔ یہ کمپنیاں بیرون ملک سے آنے والے سکھ اور ہندو زائرین کے ہوٹلوں میں قیام سے لے کر مذہبی مقامات تک ان کی آمدورفت کے انتظامات کرنے اور واپس روانگی تک کے تمام مراحل کو حکومتی ہدایات کے مطابق مکمل کرنے کی ذمہ داری باآسانی ادا کر سکتی ہیں۔ اس سے جہاں حکومت کی انتظامی مشینری پر بوجھ کم ہو گا وہاںمقامی طور پر ٹورازم انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا اور اس شعبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔