گزشتہ ہفتے چار ستمبر کی رات سوا گیارہ بجے جب میں کراچی اپنے گھر واپس آرہا تھا تو میری گاڑی راستے میں ایک دوسری گاڑی کو بچاتے ہوئے سڑک پر واقع ایک پُل کے ساتھ اچانک ٹکرا کر ایک خطرناک حادثے کا شکار ہوگئی،مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ دوران سفر اچانک ہی جیسے کوئی دھچکا لگا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، چند منٹ بعد جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے اپنے آپ کو خون سے لہولہان حادثے کی شکار گاڑی کے اندر پایا جہاں میرا ڈرائیور زخمی حالت میں کراہ رہا تھا جبکہ گن مین بے ہوش تھا۔بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو گاڑی سے باہر نکالا تومیں ایک آنکھ میں خون آجانے کی بنا پر دیکھنے میں دِقت محسوس کررہا تھا، اس حادثے کے بعد مجھے جوافسوسناک تجربہ ہوا وہ لوگوں کی جانب سے شدید حد تک بے حسی کا مظاہرہ تھا، بچانے والی دوسری گاڑی چلانے والاایک پولیس افسر کا بھتیجا تھاجو حادثے میں محفوظ رہا لیکن وہ ہمیں ہسپتال لے جانے پر تیار نہ ہوا بلکہ ایکسیڈنٹ کی ویڈیو بنانے لگ گیا۔ہماری گاڑی کے پیچھے تین اور گاڑیاں رُک گئیں لیکن کسی نے خون پونچھنے کیلئے کپڑا تک نہیں دیا، میں وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کو روکنے کیلئے خدا کا واسطہ دیتا رہا، کچھ نے اپنے موبائل فون سے فوٹوز اور ویڈیوز بھی بنائیں لیکن ہسپتال لے جانے کو کوئی تیار نہ ہوا، بہت مشکل سے گن مین کو بے ہوشی کی حالت میں باہر نکالا گیا۔پانچ منٹ بعد ایک موٹرسائیکل سوارنے مجھے خون پونچھنے کیلئے کپڑا دیا اور مجھے پہچانتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ میرے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھیں، میں آپ کو ہسپتال لے جاتا ہوں۔ تاہم، میں نے اسے یہی جواب دیا کہ میں اپنے زخمی اسٹاف کو ایسے سڑک پر بے یار ومددگارچھوڑ کرکیسے جاسکتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد میری بینائی بحال ہوئی تو سب سے پہلے میں نے اپنے دوسرے ڈرائیور کو کال لگائی جو اگلے پانچ منٹ میں دوسری گاڑی لیکر پہنچ گیا۔تاہم میرے لئے یہ لمحات شدید اذیت ناک تھے کہ پندرہ منٹ کے اس دورانیہ کے دوران نہ کوئی پولیس موبائل پہنچی نہ کوئی ایمبولینس اور نہ ہی کسی دردمند انسان نے ریسکیو کیلئے اپنی گاڑی روکی۔ جب ہمیں طبی امداد کیلئے کراچی سائوتھ کلفٹن میں واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال پہنچایا گیا تو انتظامیہ نے ہمیں ایڈمٹ کرتے ہوئے پیسہ بنانے کا سنہری موقع سمجھا،مالک کا شکر ہے کہ میری فیملی بھی اطلاع ملتے ہی ہسپتال پہنچ گئی، میری فیملی میں میرے سمیت سب لوگ ڈاکٹر ہیں، ہم نے ہسپتال والوں کو بتایا کہ زخم سر اور سینے پر لگے ہیں اسلئے سی ٹی اسکین برین اور چیسٹ ایکسرے کیا جائے، تاہم ہسپتال انتظامیہ نے بغیر بتائے میر ے ڈرائیور اور گن میں کے غیرضروری ٹیسٹ بھی کرنا شروع کردیے اور یوں ہمیں لاکھوں روپے کا بل تھما دیا۔یہ ٹریفک ایکسیڈنٹ میری زندگی کا ایک ایسا ناقابل فراموش واقعہ ہے جس نے نہ صرف مجھے زندگی کی اصل حقیقت سے روشناس کرایا بلکہ مجھے بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا۔ جب میں نےہسپتال میں ٹریٹمنٹ کے بعد آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو مجھے 29مئی 1989ء کا وہ المناک دن ایک مرتبہ پھریاد آگیا جب میں نے اپنے پیارے والد ڈاکٹر سیتل داس وانکوانی کو ایک ٹریفک ایکسیڈنٹ میں ہمیشہ کیلئے کھو دیا تھا، میرے مہان بابا کا سپر ہائی وے پر ایک معمولی حادثہ ہوا تھا، بابا کے ہمراہ چار اور لوگ تھے جنہیں خراش تک نہ آئی لیکن بابا کے سر سے بہتے خون کو روکانہ جا سکا، حادثے کے بعد کسی نے سڑک پر مدد نہ کی، ایک گھنٹے بعد جب انہیں ہسپتال پہنچایا گیا تو وہ زیادہ خون بہنے کی بنا پر جان کی بازی ہار چکے تھے، تب بھی کسی نے سڑک پر بے یار ومددگار میرے بابا کی مدد نہیں کی اور آج پینتیس سال بعد مجھے بھی ایسے ہی شدید بے بسی کے عالم کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم مالک کامجھ پر خاص کرم ہوا کہ میرے ہوش و حواس جلد بحال ہوگئے اور میں نہ صرف اپنے دوسرے ڈرائیور کو بلا سکا بلکہ اپنے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک سانحہ کی روئیداد بھی آپ سب کے سامنے رکھنے کے قابل ہوگیاہوں، یہاں میں اپنی کوتاہی بھی تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے ویدک علم جیوتش کے ماہرِ نجوم نے رواں ماہ چاند کی شروع کی تاریخوں میں سفر کرنے سے منع کیا تھااور محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ مجھے میری ماں اور اپنوں کی دعائوں نے موت کے منہ میں جاتے جاتے تو بچا لیا لیکن معاشرے کی اس سرِعام بے حسی نے شدید افسردہ کردیاہے۔بطور پاکستانی شہری ہماراقومی المیہ ہے کہ ہم لوگ باہر کے ملکوں کے بہترین طرز زندگی سے متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن اپنے ملک میں ترقی یافتہ معاشروں کے مثبت پہلوئوں کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کوسڑکوں پرموت کا شکار ہوتے دیکھتے ہیں اور پھرحادثے کو قسمت کا لِکھا قرار دیکر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔میری نظر میں ٹریفک کے بڑھتے حادثات پر قابو پانا ایک ایسا سماجی ایشو ہے کہ جس پر معاشرے کے تمام مکاتب فکر کو ایک صفحے پررہتے ہوئے یکساں موقف اپنانا چاہیے۔ میرے ساتھ جو ٹریفک حادثہ ہوا، میری مالک سے دعا ہے کہ ایسا کبھی کسی کے ساتھ نہ ہو، تاہم معاشرے میں چھائی شرمناک بے حسی کا خاتمہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام میں روڈ سیفٹی سے متعلق آگہی وشعور اجاگر کیا جائے، معصوم جانوںکو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کیلئے بروقت ریسکیو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور وقت کے بدلتے تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے ٹریفک قوانین بالخصوص حادثہ متاثرین کی فوری طبی امداد سے متعلقہ امور پر نظرثانی کی جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)