• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مون سون کا موسم اختتام پذیر ہو رہا ہے، اب سیلاب کا فیز شروع ہو نے کوہے۔ایک اندازے کے مطابق جنوبی پنجاب میں دس بڑی بارشیں ہوئی ہیں جن کا اوسط ڈیڑھ سو ملی میٹر فی بارش رہا۔آبی ماہرین کی جانب سے حسب سابق بارش اور سیلاب کے قیمتی پانی کو ڈیمز کے ذریعے محفوظ بنانے پر زور دیا گیا ہے جبکہ بارش اور سیلاب کے قیمتی پانی کو ٹیوب ویل بور Boreکے ذریعے زیر زمین ذخیرہ کرنے کا نظام بھی بنایا جا سکتا ہے جو ڈیمز کے مقابلے میں انتہائی سستا محفوظ اورسائنٹفک ہوگا۔قدرت کے نظام سیپج کےذریعے بارشوں ،سیلاب دریائوں، نہروں اور برساتی ندی نالوں کا پانی زمین کے قانون ثقل کے ذریعےسیپپج ہو کر ذخیرہ ہونے کا عمل خود کار انداز میں بغیر لاگت کے جاری رہتا ہےجسےٹیوب ویلوں کے ذریعے انسانی ضرورتوں اور کاشتکاری کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔میرے لیےیہ حیرانی کا باعث ہے کہ سرکاری سطح پر آبی ماہرین نے بارشوں اور سیلاب کےپانی کو نان سیم زدہ علاقوں میں جہاں پانی پچاس فٹ سے گہرا ہے ٹیوب ویل بورز Boresکے ذریعے سیپیج کے عمل کو تیز کرکے ذخیرہ کرنے کاآئیڈیا کیوںپیش نہیں کیا ۔

پانچ سال پہلے بہاولپور جنرل بس اسٹینڈ کی بیرونی نشیبی سڑک کئی فٹ پانی میں ڈوب گئی تھی اورپھر پانی میں ڈوبی سڑک کے ساتھ کئی فٹ لمبائی اور چوڑائی میں کچی سڑک پھٹ گئی تھی جس میں کچھ ہی دیر میں ٹھہرا پانی چلا گیا ۔ میں آبی انجینئرتو نہیں ہوں لیکن اس جستجو میں لگ گیا تھاکہ فلٹرنگ کے ساتھ ٹیوب ویل بور Bore کے نظام کے ذریعے بارش اور فلڈ کے قیمتی پانی کوزیر زمین اسٹور کرنے کا نظام بنایا جا سکتا ہے پاکستان کی اندرونی زمین کی ساخت کے مطابق پچیس سے پچاس فٹ کی گہرائی پر ریت کی پہلی پرتیں پائی جاتی ہیں جہاں تک ٹیوب ویل بورز کو اتارنا ہوگا ۔ 2022 کے خوف ناک سیلاب سے جس میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور سرکاری سطح پرتیس ارب ڈالرز کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا۔ میں نے اپنے اس آئیڈیا کی افادیت کو سمجھنے کیلئےآبی ماہرین سے رابطے کیے ، اس دوران ریٹائرڈ ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب غازی امان اللہ خان جتوئی کے توسط سے راجن پور کے واٹر مینجمنٹ کے فارن کوالیفائیڈ انجینئر سیف الرحمان خان سے رابطہ ہوا میرے اس آئیڈیا پر انہوں نے مجھے اپنا تجربہ یوں بیان کیا کہ میرا رقبہ نہر کےٹیل پر اور نشیب میں واقع ہے۔ زیر زمین پانی کھارا ہے نہری پانی کی کمی کے دوران کاشتہ فصل کو بچانے کیلئے ٹیوب ویل لگا رکھا ہے جس سے دو تین بار کھارا پانی لگا لیتا ہوں۔ دو سال پہلے شدید بارش کی وجہ سے میرے کھیتوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا تھا میں فصل ضائع ہونے کے حوالے سے سخت پریشان تھا کہ ٹیوب ویل کا بورBore بیٹھ گیا اور کھیتوں میں کھڑا بارش کا پانی اس کے ذریعے زمین میں چلاگیا ، اس طرح میری فصل بچ گئی ۔ مجھے خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب ٹیوب ویل بورBore کے ذریعے زمین میںبارش کا پانی جانےسے نلکے کا کھاراپانی میٹھا ہو گیا ۔ میں اپنے رب کی اس عنایت پر سجدہ شکر بجا لایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ آبی ماہر ہونے کے باوجود میرا اس آئیڈیےکی جانب دھیان نہیں گیا تھا کہ اس کے ذریعے بارشوں اور سیلابوں کے پانی کو انتہائی کم لاگت سے زیر زمین ذخیرہ کرنے کا نظام بنایا جا سکتا ہے انہوں نے تخمینہ لگاتے ہوئے بتایا تھا کہ دس ارب روپے کی لاگت سے ٹیوب ویل بورز Bores کا نظام بناکرڈی جی خان ڈویژن میں بارش اور سیلاب کے پانی کو زیر زمین ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ پانی کا ذخیرہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کے آبی ذخیرےجتنا بڑا ہوگاجس سے ڈسٹرکٹ راجن پور کی چھبیس لاکھ ایکٹربنجر زمین کو ٹیوب ویلوں کے ذریعےسیراب کیا جا سکے گا۔

کچھ ماہ پہلے روزنامہ جنگ میںدو کالمی خبر رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بارانی یونیورسٹی فیصل آبادکے وائس چانسلر نے اپنے بیان میں اس آئیڈیے کو سپورٹ کیا تھا کہ دریائے راوی کے سیلابی پانی کوٹیوب ویل بورز کے ذریعے زیر زمین ذخیرہ کرنے کا نظام بنایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ 28 اگست کو جنرل ضیاء دور میں کوٹ لکھپت جیل میں نظر بند رہنے والے اپنے ساتھی سینیٹر مسرور احسن جو سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی براے فوڈ و ریسرچ کے چیئرمین بھی ہیں سے پارلیمنٹ لاج میں ہونے والی ملاقات میں جب میں نے بارش اور سیلاب کے پانی کو ٹیوب ویل بور Bore کے ذریعے زیر زمین ذخیرہ کرنے کا خیال پیش کیا تو انہوں نے بھی انجینئر سیف الرحمان کےانداز میں اپنا تجربہ یوں بیان کیا کہ کئی سال پہلے کراچی میں جہاں میری رہائش ہے گرائونڈ بارش کے پانی سے بھر گیا تھا تو ایک سینئر انجینئر نے فوری نکاسی آب کیلئے دو مشورے دیے تھے ایک تو پمپ کے ذریعے دوسرا گرائونڈ کے نشیبی مقامات پر چار کنویں بنوا نےکاکہا۔ اس کا کہنا تھا کہ تم نے ٹیوب ویل بور کا ایڈوانس آئیڈیا دیا ہے جس پر سینٹ کمیٹی برائے فوڈ و ریسرچ کے ذریعے ریسرچ کروائی جاسکتی ہے۔ میں نے چیئرمین سینٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کو اپنی ریسرچ سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پچاس سے ستر ارب روپے کے تخمینہ لاگت سے پاکستان بھر کے نان سیم زدہ علاقوں میں جہاں پانی پچاس فٹ کی گہرائی سے زیادہ ہو ٹیوب ویل بور کے ذریعے ایسا نظام قائم کیا جا سکتا ہے جس کا پانی کا ذخیرہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کے ذخیرےپانی سے تین گنا بڑا ہو۔جس سے پاکستان کی دو کروڑ اسی لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جا سکے گا۔ ٹیوب ویل بور نظام کی خوبی میںیہ بھی بتایا تھا کہ یہ زمین کے قانون کشش ثقل سے ہمہ وقت مفت فنکشنل رہے گا اور جہاں کہیں پانی کی مقررہ سطح بلند ہو جائے گی وہاں ٹیوب ویل بور کے نظام کوبا آسانی معطل کیا جا سکے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملےجانب فوری توجہ دینی چاہئے۔

تازہ ترین