• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کو ئی شخص بغیر کسی معائنے کے خو ن کے عطیات دیتا ہے تو اُ سے رضا کارانہ عطیہ کہا جاتا ہے اور ایک شخص سال میں کم از کم تین/چار بار خون کا عطیہ دے سکتا ہے ۔ 2005میں پاکستان میں رضا کارانہ خون کے عطیات کی شرح 1%تھی جو گزشتہ 17سال میں بڑھ کر 10-12فیصد ہو گئی ہے مگر یہ شرح دوسرے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے ، کیو نکہ پاکستان میں خون کی ضروریات کو پورا کرنےکیلئے 25-30لاکھ خو ن کے عطیات کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت مختلف سرجری، بچے کی پیدائش کے دوران خون کی منتقلی، حادثات اور تھیلیسیمیا کے مریضوں کیلئے ہے صرف تھیلیسیمیا کے بچو ں کیلئے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ خون کے عطیات کی ضرورت ہے اس لیے بچوں کے والدین اپنے بچو ں کیلئے خون کا عطیہ حاصل کرنے کیلئے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ محدود آگاہی عطیہ دہندگان کی دلچسپی میں کمی کے بارے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ دیگر محدود عوامل میں رضا کارانہ عطیہ دہندگان کیلئے حوصلہ افزائی، شناخت اور تعریف کی شدید کمی شامل ہے۔ ہماری آبادی کا بڑا حصّہ یعنی خو اتین کم ہیمو گلوبین ، کم وزن اور سوئی کی چبھن کے خوف سے خون دینے کی اہل نہیں ہو پاتا۔ یاد رہے خواتین کی تعداد پاکستان میں مردوں کے مقابلےمیں زیادہ ہے اسکے علاوہ پاکستان میں ذیابطیس، ہیپا ٹائٹس اور HIVکی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ خون دینے کے اہل نہیں ہو پاتے۔ دیگر نااہلی میں تعلیم، جنس، عمر، ازدواجی حیثیت اور رہائشی علاقے جیسے سماجی و آبادیاتی عوامل بھی رضاکا رانہ خون دینے کے راستے کی رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ ثقافتی اصو ل اور طرز عمل بھی بعض اوقات رضاکارانہ خو ن کے عطیات کی حو صلہ شکنی کرتے ہیں۔

خاندانی اور متبادل نظام صرف کچھ حد تک کمی کو پورا کر سکتا ہے، خاص طو رپر کسی ہنگامی صورت ِحال کو پورا کرنے کیلئے 62%فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ خون دینے کے نتیجے میں کمزوری، سو ئی کی چبھن کا احساس اور خون کے انتقال کی صورت میں ہو نے والا انفیکشن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں 40%لو گ ایسے ہیں جن سے کبھی بھی خون کا عطیہ نہیں مانگا گیا۔ طریقہ کار کا خوف رضاکارانہ طور پر خو ن کے عطیات کے بارے میں منفی رویوں کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں خو ن کی خدمات صرف ہنگامی نظام کے طو ر پر تیار کی گئی ہیں۔

بدقسمتی سے رضاکا رانہ طو رپر خون دینے والے حضرات ایک دفعہ خو ن دے کر تسلسل برقرار نہیں رکھ پاتے، پھر یہ لو گ صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ جس کی وجہ سے چھوٹے شہر اور گائوں میں شدید خون کی کمی کا سامنا ہے۔ ہماری رضاکا رانہ خون کے عطیات والوں کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی میں بھی کافی نقائص ہیں۔ اس طرح نئے رضا کارانہ خون دینے والوں کو بھرتی کرنے اور عارضی طو رپر موخر /غیر فعال ہو نے والے افراد کو دوبارہ یاد دہانی بھی نہیں کروائی جاتی تاکہ وہ فعال ہو سکیں۔ دیگر مسائل میں غیر تربیت یافتہ، طبی عملہ اور غیر معیاری خون کی منتقلی کا سامان شامل ہے یہ مسائل اگر چہ اہم ہیں لیکن ناقابل تسخیر نہیں، آگاہی پیدا کرنے، خرافات دور کرنے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی کو ششوں کے ذریعے ان کو دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں رضاکارانہ طو رپر خون کے عطیات کو زیادہ کرنے کے لیے کچھ اقدام یہ ہیں۔

۱۔کالجوں/یونیورسٹی کی سطح پر خون کے عطیات کے متعلق آگاہی فراہم کی جائے، خون کے عطیات کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اس کے فوائد سے آشنائی کی جائے ۔

۲۔ یو نیورسٹی میں داخلے سے پہلے لازمی طور پر رضا کارانہ خون کا عطیہ، ڈرائیونگ لائسنس کیلئے درخواست پر اور اس طرح کے دیگر معاملا ت/ حالات کے ذریعے رضاکارانہ خون دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔

۳۔ سوشل /الیکٹرونک میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھایا جائے، ممکنہ عطیات دہندگان کو ضرورت مندوں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، فیس بک وغیرہ بھی اس مقصد کیلئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

۴۔ کمیونٹی پر مبنی خون کے کیمپس کا آغاز کیا جا سکتا ہے اسکے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ترغیب دی جا سکتی ہے، یہ تقریبات شعور اجاگر کرتی ہیں اور افراد کو اس نیک کام کی طرف راغب کرتی ہیں۔

۵۔ سرکار ی اور نجی خون جمع کرنے کیلئے اچھی طرح سے تربیت یافتہ اور خوش مزاج عملے اور ایک بہت ہی فعال بلڈ ڈونیشن حکمت عملی مرتب کی جائے تاکہ رضا کارانہ خون کے عطیات دینے والوں میں خو ن دینے کا تسلسل برقرار رہے۔

۶۔رضاکارانہ خون کے عطیا ت دہندگان کی جہاں تک ممکن ہو حوصلہ افزائی، تعریف اور انعام اور مراعات دینے پر بھی زور دینا چاہیے۔

۷۔ بہت سی رضاکار تنظیمیں حکو مت کی طرف سے فنڈز اور لوگوں کی حمایت سے بہت اچھا کام کر سکتی ہیں اور اس معاملے میں فعال ہو سکتی ہیں۔

۸۔ شادی سے پہلے جوڑوں کا تھیلی سیمیا کا ٹیسٹ /اسکرینگ لازم قرار دی جائے۔ اس سے ملک میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد میں کمی ہو گی، یاد رہے اس وقت ان مریضوں پر 33%خون استعمال ہوتا ہے اگر پاکستان تھیلیسیمیا جیسی موذی بیماری سے پاک ہو جائے تو یہ خو ن دیگر امراض کے کا م آسکتا ہے۔

یادرکھیں! ہر رضاکارانہ خون کا عطیہ زندگیاں بچاتا ہے۔ قرآن شریف میں آتا ہے کہ ’’جس نے ایک جان بچائی گو یا اُس نےساری انسانیت کو بچایا‘‘۔

(صاحبِ تحریرڈائریکٹر سندس فائونڈیشن ہیں)

تازہ ترین