• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمال الدین محمد، المعروف عرفی شیرازی (آخری قسط)

تذکرہ نویس، فضل علی خاں نے اس مکالمے کو عرفی و شیخ مبارک سےمنسوب کیا ہے، وہ لکھتے ہیں ۔’’عرفی شیخ مبارک سے ملنے گیا اور اُس نے وہاں کتّوں کو مسند پر رونق افروز پاکر شیخ سے پوچھا کہ ان صاحب زادوں کا کیا نام ہے۔ اس پر شیخ مبارک نے جل کر جواب دیا۔ ’’عرفی‘‘ یعنی عام نام، جو ہوا کرتے ہیں۔ عرفی شیخ کی اس جھلّاہٹ پر مسکرایا اور کہا ’’مبارک باد۔‘‘ جس کے دو معنی تھے۔ ایک تو یہ کہ آپ کو مبارک ہو، دوسرے یہ کہ ان کا نام ’’مبارک‘‘ ہوگا۔ شیخ کو یہ بات ناگوار گزری۔ اُس نے طیش میں آکر کہا۔ ’’تجھ میں اور کتّے میں کیا فرق ہے۔‘‘

اس پرعرفی نے اس فاصلے کو، جو اُس کے اور شیخ کے درمیان تھا، ناپ کر بتایا کہ ’’بالشت بھر۔‘‘ یوں معاملہ بگڑگیا اور جب اس کا علم فیضیؔ کو ہوا، تو وہ عرفی سے سخت ناراض ہوا اور یوں یہ دوستی ختم ہوگئی۔‘‘ تذکرہ نگار یہ بھی لکھتے ہیں کہ ابوالفضل اور فیضیؔ اپنے حسد کی بنا پر یہ یہ خواہش رکھتے تھے کہ عرفی کی اکبر کے دربار تک رسائی نہ ہو، لیکن جب وہ اس ضمن میں کام یاب نہ ہو سکے، تو انہوں نے اُسے بادشاہ کی نظروں میں گرانا چاہا۔

چناں چہ عُرفی کے دربار میں حاضری کے پہلے ہی روز ابوالفضل نے اُس سے پوچھا کہ ’’تمہارے مذہب میں کوّا حلال ہے یا حرام؟‘‘عرفی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، لیکن اتنے میں بادشاہ بھی اُس کی طرف متوجّہ ہوگیا اور دریافت کیا کہ آخر جواب کیوں نہیں دیتے۔ تب عرفی نے لب کشائی کی اور کہا کہ ’’اس مسئلے کا جواب صاف ہے اور ہر شخص کو معلوم ہے کہ ’’دونوں‘‘ گندگی کھاتے ہیں۔‘‘ دونوں سے ا س کی مراد ابوالفضل اور فیضی تھے۔ اکبر کو اس جواب پر ہنسی آگئی اور اُسے انعام و اکرام سے نوازا۔

فیضیؔ سے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد بھی عرفی خانِ خاناں کے پاس نہیں گیا، بلکہ خود کو ابوالفتح گیلانی کے دربار سے منسلک کرلیا۔ ابو الفتح گیلانی، عرفی کا بہت قدردان اور اُسے بے حد اہمیت دیتا تھا۔ اسی لیے عرفی حکیم ابوالفتح کی وفات تک اُس کے ساتھ ہی رہا اور صرف اپنی زندگی کے آخری دو سال خانِ خاناں کے ساتھ منسلک رہا، جب کہ اُس کی راہ بھی حکیم ابوالفتح نے ہم وار کی تھی۔ حکیم کے خانِ خاناں سے گہرے مراسم تھےاور اُسی کے کہنے پر عرفی نے خانِ خاناں کے لیے قصیدہ بھی لکھا۔ عرفی جس وقت شاہی دربار میں پہنچا، اُس وقت تک ا س کی شہرت عالم گیر ہو چکی تھی۔ 

اُسے کسی بھی شاہی دربار تک رسائی کے لیے، چاہے وہ اکبر کا ہو یا شہزادہ سلیم کا، کسی سفارش کی ضرورت نہیں تھی۔ اکبر کے دربار سے وابستگی اور اس کی شمالی و مغربی صوبوں کی مہم کے دوران وہ کشمیر بھی گیا اور اکبر کی شان میں ایک معرکۃ الآراء قصیدہ بھی لکھا۔ فلسفے کی طرف تو عرفی کا رجحان شروع ہی سے تھا، مگر آخری چند برسوں میں حکیم ابوالفتح اور عبدالرحیم خانِ خاناں کا قُرب میسّر ہوا، تو اس فن کی بھی معراج تک پہنچ گیا۔ وہ فنِ شاعری میں مولانا حسین کاشی کا معتقد تھا، لیکن ہندوستان جانے کے بعد شاعری کو بامِ عروج تک پہنچانے میں اُسے حکیم ابوالفتح گیلانی سے بھی مدد ملی، جس کا اظہار اس کے اشعار سے بھی ہوتا ہے۔ عرفی سے راہ و رسم رکھنے، اُس کی خوشامد کرنے والے بہت تھے، لیکن اُسے منافق شعراء سے نفرت تھی۔ 

یہی وجہ تھی کہ اُس کے اکثر حاسدین اور دشمن اُس کے خلاف سازشیں کرتے رہتے۔ اس صورت ِحال سے عرفی خود بھی بخوبی آگاہ تھا، لیکن وہ اُن جیسا نہیں بن سکتا تھا اور اُسے اپنے معاصرین کی ریشہ دوانیوں کے درمیان ہی زندہ رہنا تھا۔ اس کے خلاف ہونے والی مختلف سازشوں میں سے ایک سازش وہ بھی تھی کہ جب اُس کے 6000اشعار پر مشتمل اُس کا ایک غیر مطبوعہ قلمی نسخہ، ایک شخص عاریتاً مانگ کرلے گیا اور پھر اُسے غائب کردیا۔

گرچہ یہ ایک بہت اوچھی حرکت تھی، مگر عرفی بہت باہمّت اور حوصلہ مند شاعر تھا۔ اُس نے اس سازش کو بھی خاطر میں لائے بغیر اپنا شعری سفر اُسی ذوق و شوق سے جاری رکھا بلکہ ایک قطعے میں اس نسخے کے گُم ہونے کا ذکر کیا، توساتھ ہی اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ ہمّت نہیں ہارے گا۔ بعدازاں، اپنے قصائد اور قطعات میں اُس نے معاصرین اور حاسدین کی دشمنیوں کا بھی بطورِ خاص ذکر کیا۔

عرفی کے قصائد و غزلیات برِصغیر پاک و ہند کی جامعات کے فارسی کے نصاب میں شامل ہیں۔ واضح رہے ’’کلیاتِ عرفی‘‘ میں تقریباً پندرہ ہزار اشعار ہیں۔ ڈاکٹر محمد ولی الحق انصاری اپنی کتاب ’’عرفی شیرازی‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’عرفی ان بدنصیبوں میں تھا، جو دل و دماغ کی تمام خوبیوں کے باوجود اپنی زندگی میں وہ ہردل عزیزی اور قدر، جس کا وہ متمنی و مستحق تھا، حاصل نہ کرسکا۔ وہ ایک ایسے دَور میں پیدا ہوا، جب شہنشاہیت عروج پر تھی اور دربار داری کے لیے خوشامد اور جی حضوری لازمی شرائط مانی جاتی تھیں۔ شعراء سے یہ اُمید کی جاتی تھی کہ وہ قصیدے لکھ لکھ کر اپنے ممدوحین کی شان میں اضافہ کرتے اور مصاحبت کی روٹی کھاتے رہیں۔‘‘

البتہ غیور، حسّاس طبیعت خود کو اس کا عادی نہ بناسکی۔ اُس کے ضمیر نے اُسے صرف انہی لوگوں کی مدح کرنے کی اجازت دی، جو اُس کے نزدیک واقعی کچھ خوبیوں کے مالک تھے، بلکہ ایسے لوگوں کی مدح میں بھی اُس کی عزتِ نفس نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ وہ ممدوح کی خوبیوں کے سامنے اپنی ذات اور خودی ہی فراموش کردے۔ وہ بحیثیت انسان، خود کو اقبال کے الفاظ میں ’’شاخِ نہالِ سدرہ‘‘ سمجھتا تھا اور ’’خار و خسِ چمن‘‘ بننے کو تیار نہ تھا۔ وہ ایک حقیقی شاعر تھا اور ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کا قائل تھا۔ وہ اپنے شاعرانہ مرتبے سے بھی واقف تھا کہ وہ اپنے عہد کا بڑا شاعر ہے، بلکہ فارسی قصیدہ گوئی میں کوئی بھی اُس کا ہم مرتبہ نہیں۔

اور ان حالات میں اُس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ رؤسا، امراء کی دولت سے مرعوب ہوجاتا۔ ان کی مدح کرتے وقت بحیثیت ’’شہنشاہِ اقلیمِ سخن‘‘ اگر وہ خود اپنے کردار و شاعری سے متعلق بلند بانگ دعوے کرنے لگتا تھا، تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہ تھی، لیکن اُس عہد کے لوگوں کے لیے، جن کا ایک شاعر کے متعلق تصوّر ہی یہ تھا کہ بس ممدوح کی مدح میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا رہے اور اُس کے صلے میں اپنا پیٹ پالتا رہے، عرفی کی باتیں بالکل نئی تھیں۔ 

وہ تصوّر بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایک شاعر، ممدوح کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا بھی اظہار کرے، چناں چہ اُس کے بیش تر معاصرین نے اُس کی خودداری کو اُس کے غرور ہی پر محمول کیا۔ خوشامد سے نفرت کو اس کا پندار سمجھا اور اس کی فخریہ شاعری کو کوتاہ بینی اور گزشتہ دَور کے شاعروں پر چوٹ سے تعبیر کیا۔ یہاں تک کہ کئی تذکرہ نگاروں نے اُس کی فطرت کے ان ہی اوصاف کو، جنہیں وہ اُس کی ذات کے عیوب سمجھتے تھے، اُس کی قبل از موت کی وجہ بھی قرار دیا۔

عرفی نے عالمِ شباب میں داعئ اجل کو لبیک کہا، وفات کے وقت اس کی عمر محض35 برس تھی۔ اس کے آخری ایام لاہور میں گزرے اور یہیں اُس کا انتقال ہوا۔ کچھ تذکرہ نگاروں کے نزدیک عرفی کی موت کا سبب اسہال کی بیماری بنی، کچھ کے نزدیک اسے زہر دیا گیا، جس کی وجہ شہزادہ سلیم کا عشق تھا۔ کچھ لوگ زہر دیے جانے کا الزام فیضی پر لگاتے ہیں، جو کہ بظاہر بے بنیاد معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ فیضی،عرفی کے حاسدین میں سے نہیں تھا، نہ ہی اُسے اس سے کوئی خطرہ تھا۔ فیضیؔ، اُس کے آنے سے قبل ملک الشعراء کے عہدے پر فائز تھا،اورہر چھوٹے بڑے کی نظر میں اُس کی عزت و حرمت تھی۔ وہ شہزادہ سلیم کا اتالیق اور اکبر کا ذاتی دوست تھا۔

ایران کے بڑے بڑے شاعر اُس کی قدر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دشمنیاں پالنا یا انتقام لینا، اُس کے مزاج کے بھی خلاف تھا۔ اُس کی زندگی سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عرفی سے اُس کی ناراضی ضرور ہوئی تھی، جس کے باعث دوستی ختم ہو گئی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ اسے زہر ہی دے دیتا، جب کہ وہ فطرتاً اچھا انسان تھا۔ ملا عبدالقادر بدایونی، فیضی کے دشمن تھے، مگر جب اُن پر برا وقت آیا، تو جو تنہا شخص ان کے کام آیا، وہ فیضیؔ ہی تھا۔ اسی طرح عرفی کی بھی فیضیؔ نے بہت مدد کی، یہاں تک کہ دربار تک رسائی میں بھی اُس کی مہربانی کارفرما تھی۔

فضل علی خاں نے’’ بُستانِ بے خزاں‘‘ میں ایک قصّہ تحریر کیا ہے، جس سے عرفی کی ظرافتِ طبع سے زیادہ اس کی ذہانت آشکار ہوتی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ عرفی کے ایک دوست نے اپنے خادم کو ایک سو اشرفیاں دیں اور کہا کہ مُلّا عرفی کو دے آئے اور اُس سے کہے کہ ’’یک کف زرِ سُرخ‘‘ لے لیجیے۔ خادم نے راستے میں اُس میں سے ساٹھ اشرفیاں نکال لیں اور جو پیغام اس کے مالک نے اُسے عرفی تک پہنچانے کو کہا تھا، بقیہ چالیس اشرفیوں کے ساتھ پہنچادیا۔ یعنی ’’یک کف زرِ سُرخ فرستادہ شد۔‘‘ عرفی کا ذہن فوراً اُس طرف گیا کہ اگر ابجد کے قاعدے سے دیکھا جائے، تو ’’یک کف‘‘ کا مطلب ایک سو ہوتا ہے، تو اشرفیاں چالیس کی بجائے ایک سو ہونی چاہئیں۔ 

اس نے فوراً خادم سے کہا کہ ہمارا سلام اپنے مالک کو پہنچا دینا اور کہہ دینا کہ ’’کم از کف نہ بود‘‘ یعنی ایک مٹّھی سے کم نہ تھیں۔ خادم اس جواب سے مطمئن ہوگیا اور سمجھا کہ اس کی چوری پکڑی نہیں جاسکی۔ اُس نے عرفی کے الفاظ اپنے مالک کے سامنے دُہرا دیے، لیکن اس کا آقا عرفی کے جواب یعنی ’’کم ازکف‘‘ سے فوراً سمجھ گیا کہ عرفی کو صرف چالیس اشرفیاں ملی ہیں کہ کم کے اعداد بہ حسابِ ابجد ساٹھ ہوتے ہیں، لہٰذا کف کے اعداد یعنی ایک سو میں سے اگر کم کے اعداد ساٹھ گھٹادیئے جائیں، تو چالیس ہی باقی بچیں گے۔ اور اس نے خادم سے وہ باقی ساٹھ اشرفیاں وصول کرلیں۔‘‘

عرفی کی حالتِ نزع سے متعلق فضل علی خاں نے ایک اور دل چسپ قصّہ رقم کیا ہے۔ جس سے اُس کی ظرافتِ طبع کا علم ہوتا ہے کہ جو پہلے دن اکبر کے دربار میں ظاہر ہوئی تھی، وہ آخری دَم تک برقرار رہی۔ ’’بیماری کی حالت میں جب لوگ اُس کی عیادت کو آتے، تو وہ دل میں اُس کے لیے جذبۂ خیرسگالی نہیں رکھتے تھے، بلکہ اُن کے جملوں میں طنز ہوتا تھا۔ بیماری کے باعث وہ اگرچہ بے بس تھا، مگر پھر بھی حساب برابر کرنے کی کوشش کرتا اور اس موقعے پر اس کیفیت کو ایک قطعے میں اس طرح بیان کیا کہ؎ خدائے عزوجل صحتم دید بینی.....کہ ایں منافقہ گان راچہ آورم برسر۔ 

یعنی عالم ِنزع میں بھی عرفی اپنی طبعِ ظرافت سے باز نہ آیا۔ کہا جاتا ہے، جب اُس کی حالت زیادہ خراب ہوئی، تو کچھ لوگ اُس کی عیادت کو آئے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اُس کے ہوش و حواس باقی ہیں یا نہیں۔ اُس سے پوچھا ’’ماکیا نم؟‘‘ یعنی پہچانتے ہو کہ ہم کون ہیں، لیکن ماکیان کے معنی مرغی کے بھی ہوتے ہیں، جس سے یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ ہم مرغیاں ہیں۔تو عرفی نے سخت بیماری میں بھی فوراً جواب دیا؎ ’’حالا مرغ روحم شوق پرواز وارد رو بہ ماکیان نامی آورد‘‘یعنی ’’میرا مرغِ رُوح اب مائل بہ پرواز ہے۔ اب وہ مرغیوں کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

عرفی کی وفات پر اُس کے دوستوں نے جو تاریخی قطعے کہے۔ اُن کے مطابق ’’اُستاد البشر‘‘ اور ’’معنی از عالم رفت‘‘ سے 999ھ بنتا ہے۔عرفی کے جسدِ خاکی کی عارضی تدفین مقبرۂ میر حبیب اللہ لاہور میں ہوئی۔ لیکن28سال بعد اُس کی دعا قبول ہوئی اور اُس کا جسد خاکی نجف اشرف منتقل کردیا گیا۔ جیسا کہ اُس نے اپنے قصیدہ ’’ترجمۃ الشوق‘‘ کے ایک شعر میں پیش گوئی کی تھی؎ بکاوش مژہ از گور تا نجف بروم.....اگر بہ ہند ہلاکم کنند و گر بہ تتار۔ 

واضح رہے، میر صابر اصفہانی نے کسی درویش کو زادِ راہ دے کر نجف اشرف کے لیے 1027ھ میں روانہ کیا۔ نجف اشرف میں دفن ہونے سے پہلے یہ جسدِ خاکی دو ماہ تک مشہد مقدّس میں سپردِ خاک رہا۔ اُس کے بعد 1028ھ میں نجف کے حصار کے باہر، اُس زمین پر، جو بحیرہ کہلاتی ہے، دفن کیا گیا۔