• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عشبا جمال، کراچی

آج کے مشینی دَور میں لگ بھگ ہر فرد ہی گوناگوں مصروفیات، مسائل اور الجھنوں کے نرغےمیں ہے۔ مَرد اپنےاہلِ خانہ کی کفالت کے لیے دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں، تو خواتین کو بچّوں کی تعلیم و تربیت سمیت دیگر گھریلو امور سے فراغت نہیں ملتی۔ گرچہ یہ بات ایک سو فی صد دُرست ہے کہ ایک عورت میں مَرد سے زیادہ صبر کا مادّہ اور ہمّت و برداشت پائی جاتی ہے، لیکن ہم نے شاید اس بات کا غلط مفہوم اخذ کرلیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہرمیدان ہی میں مَردوں کے مقابلے میں خواتین کی برداشت کا زیادہ امتحان لیا جاتا ہے۔ 

بے شک، عورت کے عزم و استقلال اور ہمّت و برداشت ہی کے سبب اُسے ’’ماں‘‘ جیسے عظیم رُتبے نوازا گیا ہے۔ لیکن، جب ایک عورت بچّے کو جنم دیتی ہے، تو یہ اُس کی زندگی کا سب سے خُوب صُورت، مگر نازک ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ بچّے کی پیدائش کا عمل جاں گُسل ہوتا ہے اور اِس دوران بعض خواتین اپنی جان کی بازی تک ہارجاتی ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ بچّے کے اس دُنیا میں آنے کے بعد بیش تر خواتین کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ گویا اُن کا دوسرا جنم ہوا ہے اور ایک نئی زندگی کی شروعات کے لیے انھیں یقیناً دوسروں کی مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس مرحلے پر ماں بننے والی عورت کو تمام تر مشکلات جھیلنے کےلیے اکیلا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اُسے دن کے چین اور رات کی نیند تک سےمحروم کردیاجاتا ہے، جس کے باعث وہ پوسٹ پارٹم ڈیپریشن (پی پی ڈی) نامی نفسیاتی عارضےکاشکار ہوکر ایک ’’تاریک گلی‘‘ میں داخل ہوجاتی ہے۔

یاد رہے، اِس مرض کی علامات میں سرِفہرست خواتین کا ذہنی دباؤ کی شکار ہو کرمسلسل افسردہ رہنا یا مزاج میں چڑچڑا پن محسوس کرنا شامل ہیں۔بعض دفعہ بچے کی پیدائش کےبعد ہارمونز کےاُتار چڑھاؤ سے مزاج میں اِس طرح کی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے، جب کہ بعض دفعہ مائیں خود کو اس اہم ترین ذمّے داری کے لیے تیار محسوس نہیں کرتیں، تو ایک عجیب سے احساسِ جرم میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ شاید وہ اچھی مائیں نہیں یا اچھی مائیں بن نہیں سکتیں۔ نیز، عموماً پہلی بار ماں بننےوالی خواتین کو لوگوں کی طرف سے ملنے والے طرح طرح کے مشورے بھی اُنہیں خاصی پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں۔

ایک بچّہ جب اس دُنیا میں آتا ہے، تو وہ رو کر ماں کو اپنی بُھوک، پیاس اور دیگر حاجات کا احساس دِلاتا ہے اور ماں، بچّے کے رونے کے انداز سے اُس کی ضروریات اور تکالیف کا اندازہ لگانے کی کوشش و کشمکش میں گرفتار ہوکر خود سے بالکل بےگانہ ہوجاتی ہے اور اگر خدانخواستہ بچّہ کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہوجائے اور ہمہ وقت روتا رہے، تو بےچاری ماں اُس کے ہروقت کے رونے دھونے سے اس قدر پریشان ہوجاتی ہے کہ اس سے دُوری کی خواہش کرنے لگتی ہے۔ 

یاد رہے، بچّے کی پیدائش کےبعد ستّرسے اسّی فی صد خواتین کے مزاج میں تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں اور عمومی طور پر اِن تبدیلیوں کو طبّی اصطلاح میں ’’بےبی بلیوز‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن یہ ’’بےبی بلیوز‘‘ صرف کچھ ایام ہی کے لیے ہوتی ہیں۔ بعد ازاں، طبیعت خود بخود نارمل ہوجاتی ہے۔ ہاں، البتہ اگر یہ علامات ہفتوں یا مہینوں تک چلی جائیں تو پھریہ باقاعدہ مرض کی شکل اختیارکرلیتی ہیں، جو ’’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘‘ کہلاتا ہے۔ 

شدید اضطراب اور اُداسی کےعلاوہ پی پی ڈی کی دیگر علامات میں نیند کی کمی، بلاوجہ غصّہ کرنا، بھوک نہ لگنا، بچّے کے ساتھ جذباتی لگاؤ محسوس نہ ہونا، خود کو یا بچّے کو نقصان پہنچانے کے خیالات اور بے سبب بہت زیادہ رونا دھونا وغیرہ شامل ہیں۔ اور اس ضمن میں بڑا المیہ یہ ہے کہ عموماً اِس موقعے پر گھر کے دیگر افراد اُس ماں کی کرب ناک صورتِ حال کا احساس یااُس کی مدد کرنے کی بہ جائے اُسے ’’ناشُکری‘‘ اور’’بدتمیز‘‘جیسے القابات سے نوازنے لگتے ہیں، حالاں کہ اس مرحلے پر اُسے اُن کی ہم دردی اور دل جوئی کی جتنی شدید ضرورت ہوتی ہے، شاید زندگی میں کبھی نہیں ہوتی۔

ایک ریسرچ کے مطابق پی پی ڈی کی شدّت کم ہونے میں دو سےڈھائی برس لگتے ہیں، جب کہ اِس عرصے کے دوران اہلِ خانہ کے سنگین رویّوں اور لاپروائی کے باعث ماں کی حالت ناگفتہ بہ ہوچُکی ہوتی ہے، یہاں تک کہ پی پی ڈی کی شکار 35 فی صد مائیں ہوش و خِرد سے یک سر بےگانی ہو کر اپنے بچّوں کی جان تک لینے کی کوشش کر ڈالتی ہیں۔ تاہم، کوئی بھی ماں بخوشی یہ انتہائی قدم نہیں اُٹھاتی اور نہ ہی کفرانِ نعمت کرتی ہے، بلکہ بچّے کی پیدائش کے بعد اُس کے دن کا چین اور رات کی نیند چِھن جانے کے سبب نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے۔ 

لہٰذا، اگر ہم اس قسم کے افسوس ناک واقعات سے بچنا چاہتے ہیں، تواہلِ خانہ کو چاہیے کہ وہ بچّے کی پیدائش کے بعد اُس کی ماں کو سنبھلنے کا موقع دیں۔ اُس کی ذہنی و جسمانی کیفیات کو سمجھیں اور اُسے آرام اور اپنی نیند پوری کرنے کا موقع فراہم کریں۔ یاد رہے کہ اس مرحلے پر ایک ماں کے لیے نیند بھی اُتنی ہی ضروری ہے، جتنا کہ کھانا پینا۔ بچّے کی پیدائش کےبعد یہ کہہ کر کہ ’’ہم نے بھی بچّے پیدا کیے ہیں۔ 

تم نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔‘‘ ماں پر گھر کے سارے کاموں کا بوجھ ڈال دینے سے زیادہ زیادتی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ اس قسم کے کڑوے، تیکھے جملے بھی پی پی ڈی کی شدّت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ماں بننے والی خواتین سے بھرپور شفقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اچھی اور مثبت باتوں سے اُن کا دل بہلانے کی کوشش کی جائےاوراُن کے آرام و سکون کا ہر ممکن حد تک خیال رکھا جائے۔ نیز، اُنہیں تنہا نہ ہونے کا احساس دلایا جائے۔

واضح رہے، ہمارے معاشرے میں پہلے ہی تنگ نظری کے ساتھ دیگر منفی رویّے بہت عام ہیں، جن کی وجہ سے ایک عام انسان بھی ذہنی مریض بن کے رہ جاتا ہے اور ایسے میں اگر پی پی ڈی جیسے نفسیاتی عارضے میں مبتلا کسی خاتون کی بروقت کاؤنسلنگ نہ ہوسکے، تو اُس کا مرض شدّت اختیار کر کے جارح مزاجی، او سی ڈی، بائی پولر ڈس آرڈر، پرسنیلٹی ڈس آرڈر اور شیزوفرینیا سمیت دیگر ذہنی امراض میں بدل سکتا ہے۔ 

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بچّے کی پیدائش کے بعد مائوں کو لاحق ہونے والے نفسیاتی مرض، ’’پوسٹ پارٹم ڈیپریشن‘‘ کے ضمن میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اگر ہم اپنے مُلک کو خوش حال، آسودہ دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہمیں اپنی خواتین اور آئندہ نسل کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کو پی پی ڈی سے متعلق آگہی فراہم کرنا ہوگی۔ نیز، اس ضمن میں متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔