وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت ن لیگ کی نہیں بلکہ اتحادیوں کی ہے، وکلاء نے عدالتی نظام کی اصلاح کےلیے مطالبات رکھے تھے۔
اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل سے خطاب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی عدالت 184 اور دیگر دفعات کے تحت آئینی مقدمات کی سماعت کرتی، تجویز یہ تھی کہ چاروں صوبوں سے ایک ایک جج آئینی عدالت میں موجود ہو۔
انہوں نے کہا کہ جنوری مارچ میں پیپلز پارٹی سے مذاکرات شروع ہوئے، میں اس مذاکراتی کمیٹی کا رکن تھا، پیپلز پارٹی نے اس وقت بھی میثاق جمہوریت کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی بات کی۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ وکلاء نے عدالتی نظام کی اصلاح کیلئے مطالبات رکھے تھے، ہماری رہنمائی کی جائے کہ جج کی عمر کی حد 65 سال ہونی چاہیے یا 68 سال؟
ان کا کہنا تھا کہ جو آئینی ترامیم کا پیکیج گردش کر رہا ہے وہ محض تجاویز کا ڈرافٹ ہے، بل کابینہ کی منظوری کے بغیر حکومتی بل نہیں کہلاتا۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے یہ بھی کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہے، آئین میں ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک اتحادی حکومت میں ہیں، یہ مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، پیپلز پارٹی کا مطالبہ تھا کہ عدالتی اصلاحات کی جائیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نے عدالتی اصلاحات کےلیے کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، مجوزہ آئینی ترمیم میں وفاقی اکائیوں کی نمائندگی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے نامکمل ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ ہوا، دنیا کے بہت سارے ملکوں میں آئینی عدالتیں ہیں۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلوچستان میں جب پنجابی بھائیوں کو بےدردی سے قتل کیا گیا تواس وقت فوجی عدالتوں کی بات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پوچھا کہ کیا قوم کے محافظوں کا خون خون نہیں ہے، سول نظام انصاف میں دہشت گرد، سہولت کاروں کو بری اور قانون کے محافظوں کو سزا دی گئی، راہ حق کے شہیدوں کے ترانے پر محض آنسو نہیں بہاسکتے، ذمہ داروں کو سزا ہونی چاہیے۔