(گزشتہ سے پیوستہ)
آئیے بجلی کے شعبے کے منظر نامے کا جائزہ لیتے ہیں۔ نجی بجلی کی پیداوار کیلئے فراخدلانہ مراعات نے صارفین کیلئے بجلی کی لاگت میں اضافہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، صلاحیت کی ادائیگی کی شرط کے تحت صارفین اس بجلی کی قیمت ادا کرتے ہیں جو وہ استعمال نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر، صارفین ڈسکو کے نقصانات کی ادائیگی کرتے ہیں جن کا تخمینہ کئی سو ارب روپے ہے۔ اور مبینہ طور پر، منصوبے کی لاگت دوسرے مقامات پر کی گئی موازنہ سرمایہ کاری سے 20فیصد زیادہ تھی۔ منصوبے کی لاگت بھی ٹیرف میں شامل ہوتی ہے۔نیپرا کے مطابق، جون 2023 میں، آئی پی پیز کے ذمے 5.1ٹریلین روپے سے زیادہ واجب الادا تھے (پاکستان ہولڈنگز کے ساتھ 765ارب روپے کے علاوہ)۔ 5.1ٹریلین روپے میں سے 700ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹ کیلئے، 560ارب روپے توانائی کی قیمت کیلئے اور 200 ارب روپے سے زیادہ تاخیر سے ادائیگی پر سود کیلئے تھے۔ یہ عوامی پالیسی کو چلانے کا سبق ہے کہ اسے کیسے نہ چلایا جائے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے معیشت خود تباہی کی راہ پر گامزن ہے جس میں پاور سیکٹر اور قرضے کے شوق نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ملک کی معاشی بحالی کے مفاد میں اس معاملے کو حل کریں۔ آئی پی پیز اور بینکوں نے بھاری منافع کمایا ہے۔ کمپنیوں کو منافع کا حق حاصل ہےلیکن یہ معیشت کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت نے پاور سیکٹر میں ایک فطری طور پر ٹوٹے ہوئے نظام کو قائم رکھا ہے۔ آئی پی پیز کا منافع معیشت میں موجود دیگر تمام کمپنیوں اور ملک کے ہر گھرانے کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے۔
ذیل میں ،میں آئی پی پیز کی ہر قسم کیلئے الگ الگ طریقہ کار کی سفارش کرتا ہوں۔ آئی پی پیز کے ہماری معیشت پر گہرے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں حکومت پاکستان سے جرات مندانہ اور اختراعی اقدام کی سفارش کرتا ہوں تاکہ ایک منصفانہ اور دوستانہ معاہدے کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ موجودہ صورتحال آئی پی پیز کے مفاد میں بھی نہیں کیونکہ صارفین یا حکومت کی جانب سے انہیں ادائیگیاں اب ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔ اگرچہ انکے پاس کتابوں میں بڑے منافعے ہیں، لیکن انکے ساتھ ساتھ ان کی تجارتی قابل وصول اور واجب الادا رقوم بھی بہت زیادہ ہیں۔ اسکے علاوہ، بجلی کی مانگ میں کمی کی وجہ سے آئی پی پیز کی آمدنی میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی مینوفیکچرنگ صنعت ختم ہو رہی ہے۔ جو مینوفیکچرنگ کمپنیاں اب بھی منافع کما رہی ہیں، وہ اپنے منافع سے دیگر شعبوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
حکومت مندرجہ ذیل طریقوں سے فوری اقدام کر سکتی ہے: پہلے، خطرات اور فوائد کے بارے میں باہمی رضامندی پر مبنی حل تیار کیا جائے۔ حکومت کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے تمام کاروباری خطرات اور اخراجات کو صارفین اور ٹیکس دہندگان پر منتقل کرتے ہیں۔ اگرچہ معاہدوں سے پیچھے ہٹنا پسندیدہ نہیں ہے، لیکن مسئلے کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ہماری پہلی ترجیح ایک باہمی رضامندی پر مبنی حل ہونا چاہئے جس کا مقصد خطرات اور فوائد کے اشتراک میں توازن پیدا کرنا ہو۔ 2020میں، حکومت پاکستان اور پاور پروڈیوسرز نے بجلی خریداری کے معاہدے کی کچھ شقوں میں تبدیلی پر اتفاق کیا۔ آج بھی، حکومت آئی پی پیز کو بعض شرائط تبدیل کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے، جیسے کہ انڈیکسیشن پر حد مقرر کرنا، خاص طور پر کیپسٹی پیمنٹس کیلئے۔ کم از کم پاکستان کی ملکیت والے آئی پی پیز کیلئے حکومت کی ذمہ داریوں کو کم کرنا ممکن ہے۔ دوسرا، نیپرا کو ٹیرف ریٹس میں نظرثانی کیلئے معیارات کی سفارش کرنی چاہئے اور پروڈیوسر اور صارف کے مفادات کے درمیان توازن تلاش کرنا چاہئے۔ تیسرا، حکومت اور نیپرا کو بجلی خریداری کے معاہدوںمیں تمام توسیعات کو روکنا چاہئے۔ انہوں نے کچھ معاملات میں ایسا کیا ہے۔
چوتھا، حکومت کی ملکیت والے آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے منسوخ کر دیے جائیں۔ ان کی ایکویٹی اور بقایا قرض وفاقی حکومت یا حکومت پنجاب کے زیر ملکیت ہو سکتا ہے۔ ان کی موجودہ انتظامی ترتیب جاری رہ سکتی ہے، حالانکہ نیپرا/حکومت ان کیلئےکارکردگی کے معیارات مقرر کر سکتی ہے۔
پانچواں، ایک عمومی اصول کے طور پر، آر ایل این جی سے چلنے والے پلانٹس فی یونٹ بجلی کی پیداوار پر زیادہ لاگت آتی ہے۔ لاگت کا انحصار پاور پلانٹ کی عمر اور کارکردگی پر ہوتا ہے۔ نجی شعبے میں موجود زیادہ تر پلانٹس گیس کی فراہمی کم ہونے کی وجہ سے گیس سے آر ایل این جی کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا حصہ حکومت کی ملکیت ہے۔ وہ سفارش نمبر چار کے تحت آتے ہیں۔
نجی مفادات کے زیر ملکیت پلانٹس کے پی پی اے کی اختتامی تاریخیں 2026سے 2040تک ہوتی ہیں۔ ان کے پاس طویل مدتی قرضہ کم ہوتا ہے۔ حکومت کو ہر ایک کیلئے کیس ٹو کیس اپروچ اپنانا چاہئے۔ کچھ معاملات میں، پہلی سفارش (اوپر) کافی ہے۔ دیگر معاملات میں، حکومت پاکستان ان میں ایکویٹی دلچسپی خریدنے اور ان کے قرض کی ادائیگی کیلئے روپے کے بانڈز جاری کر سکتی ہے۔ اس کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
چھٹی سفارش یہ ہے کہ تین سے پانچ سال کے عرصے میں، حکومتِ پاکستان نئے قائم شدہ آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (IPPs) میں ایکویٹی شیئر لے سکتی ہے۔ ان کا باقی ماندہ پروجیکٹ قرض تقریباً 4.5 بلین ڈالر ہے۔ چونکہ یہ ادارے غیر ملکی ملکیت میں ہیں، حکومت کو یہ تجویز پیش کرنے سے پہلے شریک حکومت کو حمایت کیلئے قائل کرنا ہو گا۔
حکومت اس حصول کیلئے ایک شریک حکومت سے طویل المدتی رعایتی دو طرفہ قرض کے ذریعے فنڈز فراہم کر سکتی ہے۔ چونکہ قرضے کی لاگت ٹیرف میں شامل ہوتی ہے، قرضے کو ایکویٹی میں تبدیل کرنے سے ٹیرف میں کمی واقع ہو گی۔ ایکویٹی شیئر لینے سے حکومتِ پاکستان کو بورڈ میں ایک نشست ملے گی تاکہ صارف کے مفاد میں فیصلے کیے جا سکیں۔
ساتویں، ٹیرف کو کم کرنےکیلئے جیسے ہی تھر میں پیداوار بڑھے، درآمدی کوئلے سے کوئلے کے بجلی گھر تھر کے کوئلے پر منتقل کریں۔ آٹھویں، صلاحیت کی ادائیگیوں کو کم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن کی صلاحیت میں اضافہ جاری رکھیں۔ اور آخری سفارش: حکومت نے تمام بڑی کمپنیوں پر ایک سپر ٹیکس متعارف کرایا ہے۔ اگرچہ آئی پی پیز کو کارپوریٹ ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، حکومت ان پر دیگر کمپنیوں کی طرح سپر ٹیکس عائد کر سکتی ہے۔
بجلی کے شعبے میں بدنظمی کا نتیجہ لگاتار حکومتوں کی قلیل مدتی سوچ کے ساتھ عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔ ان کے فیصلوں میں وہ اصولی تنظیم نہیں ہے جو حکومت کے تمام فیصلوں کی رہنمائی کرے۔ حکومتِ پاکستان کا ہر عمل عام آدمی اور قوم کے مفاد میں ہونا چاہیے۔ اس کیلئے، ہمیں مقامی حلوں پر انحصار کرنا چاہیے اور غیر ملکی مشورے کو قومی اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔
(مصنف چیئرمین اور سی ای او، انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز ہیں)