مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میری بڑی بہن چاندنی، شادی کے بعد 30برس سعودیہ کالونی، کراچی میں مقیم رہیں۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ شوہر کے انتقال کے بعد مستقلاً ہمارے گھر شاہ فیصل کالونی منتقل ہوگئیں، جہاں ہماری پڑوسن آسیہ عرف ’’چھوٹی خاتون‘‘ سے اُن کی بڑی علیک سلیک ہوگئی۔ مَیں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوں، ایک اسکول مَیں بطور ٹیچر ملازمت کرتی ہوں۔
میری بیٹی صالحہ کی شادی کی عُمر ہوئی، تو ہم نے اُس کے لیے رشتے کی تلاش شروع کردی۔ چند ایک رشتے دیکھنے کے بعد میری بہن نے مجھ سے کہا۔ ’’گھر کے سامنے پڑوسن، آسیہ سے میرے بڑھے اچھے مراسم ہیں، اُن کا بیٹا، عبدالرحمٰن اچھا لڑکا ہے، چاہو تو اُسے دیکھ لو، غریب ہیں، لیکن لڑکا مناسب ہے۔‘‘ بہن کے مشورے پر ہم پڑوسن کے گھر گئے اور عبدالرحمٰن سے ملے، تو جوڑ کے لحاظ سے وہ ہمیں بہتر لگا۔
میکینک کا کام کرتا تھا اور گھر کے حالات سدھارنے کے لیے کسی خلیجی مُلک میں ملازمت کی کوشش کررہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ لڑکا محنتی ہے، خود اپنے حالات سنوار لے گا۔ بس یہی سوچ کر بیٹی کی نسبت وہاں طے کردی۔ خاتون آسیہ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اُن کے گھر میں سب ہی معمولی نین نقوش کے ہیں، لیکن عبدالرحمٰن شکل و صورت کے لحاظ سے کچھ مناسب تھا، جس پر آسیہ کو بڑا ناز تھا، جب کہ میری بیٹی صالحہ سمیت میرے تمام بچّے خُوب صُورت ہیں۔
بہرحال، نسبت طے ہوجانے کے بعد آسیہ نے شادی کے لیے دو سال کا وقت مانگ لیا تاکہ اس عرصے میں وہ اپنی دونوں بیٹیوں کا رشتہ بھی طے کرسکے۔ ہم نے آسیہ کی بات مان لی۔ اس کی ایک بیٹی ممّو کی منگنی ہوچکی تھی، جب کہ دوسری بیٹی نیہا کے لیے رشتہ تلاش کیا جارہا تھا۔ پھر دوسری بیٹی کا رشتہ ہوا، لیکن چند مہینے بعد ہی بوجوہ دونوں کے رشتے ٹوٹ گئے۔ بعدازاں، نیہا کا رشتہ ایک شادی شدہ شخص سے طے کردیا گیا، جو اپنی بیوی کوچھوڑ چکا تھا۔ ہماری بیٹی سے منگنی کے فوری بعد ہی عبدالرحمٰن کو عمان میں ملازمت مل گئی، تو وہ روزگار کی غرض سے وہاں چلا گیا۔
اس کے عمان جانے کے بعد آسیہ کا روّیہ یک سر بدل گیا، اس کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ ایک سال بعد عبدالرحمٰن آیا، تو مَیں نے اپنی بیٹی کی شادی بہت دھوم دھام سے کی، سارے ارمان پورے کیے۔ آسیہ کی فرمائش کے مطابق ہر چیز اُسے دی، لاکھوں کاجہیز دیا، مگر آسیہ نے بَری وغیرہ میں کنجوسی کی حد کردی، انتہائی سستے کپڑے خریدے، لیکن مَیں نے اُس سے کوئی شکوہ نہ کیا۔
وہ ہر معاملے میں چالاکی دکھاتی رہی۔ جہیز میں دی گئی تمام اشیاء اپنے قبضے میں کرلیں۔ میری بیٹی بہت سیدھی سادی ہے، اسے گھریلو سیاست کی کوئی سوجھ بوجھ تھی، نہ اپنی چیزوں کے بارے میں کوئی علم۔ ہم نے عبدالرحمٰن کو سلامی میں ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ لاکھ کے سونے کے سیٹ کے علاوہ تقریباً 10لاکھ کا جہیز دیا۔ اس طرح شادی میں کُل23لاکھ روپے تک کے اخراجات ہوٓئے۔
ہم نے بڑے ارمانوں سے بیٹی کی شادی کی تھی، لیکن بدقسمتی سے شادی کے چند روز بعد ہی اُس کی ساس، آسیہ نے گھر میں لڑائی جھگڑے شروع کردیئے۔ بات بات پر جھگڑے اس قدر بڑھے کہ گھر کے تمام افراد میری بیٹی کے دشمن ہوگئے۔ آسیہ نے نہ صرف عبدالرحمٰن کے کان بھرنے شروع کردیئے، بلکہ محلّے میں بھی اس کی برائیاں شروع کردیں کہ’’صالحہ انتہائی زبان دراز ہے، گھر کا کوئی کام کاج نہیں کرتی، میں اب اسے نہیں رکھوں گی، طلاق دلوادوں گی۔‘‘
عبدالرحمٰن بھی صالحہ کی شکایتیں لے کر ہمارے گھر آتا، تو ہم اُسے سمجھاتے کہ ’’بیٹا! صالحہ تمہارے گھر کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوجائے گی، شادی کو ابھی کچھ ہی دن تو گزرے ہیں۔‘‘ لیکن وہ کہتا ’’نہیں، میری بہن، نیہا تو اپنے سسرال میں پندرہ افراد کا کام کرتی ہے۔‘‘ آسیہ کے گھر کا ماحول بہت عجیب و غریب تھا، وہ چاہتی تھی کہ پورے گھر کا کام صالحہ کرے۔ صالحہ کو مَیں نے بہت ناز نخروں سے پالا تھا، مَیں اُس کی ہر خواہش پوری کرتی تھی۔ آسیہ کے یہاں صرف ایک وقت، خشک دودھ کی چائے بنتی اور ایک وقت کھانا پکتا، کسی بھی قسم کے پھل، دودھ وغیرہ کھانے پینے کا کوئی تصوّر تک نہ تھا۔
خیر، ایک ماہ بعد عبدالرحمٰن، عمان چلا گیا، لیکن صالحہ اپنے سسرال ہی میں رہی۔ عبدالرحمٰن نے جاتے ہوئے ایک عام سا موبائل فون صالحہ کولے دیا کہ اُس سے بات کرنے میں آسانی رہے گی، لیکن وہ فون بھی اُس کی ساس نے اپنے قبضے میں کرلیا۔ ایک روز صالحہ نے اپنے گھر فون کرنے کے لیے اپنی ساس سے موبائل فون مانگا، تو اس نے صاف انکار کردیا، جس پر صالحہ نے غصّے میں کہہ دیا کہ ’’مَیں جہیز میں اتنا سامان لائی ہوں، ایک موبائل فون بھی لاسکتی تھی۔‘‘ صالحہ کی بات آسیہ کو بہت ناگوار گزری، اور اس بات پر اُس نے اُسے خوب باتیں سُنائیں۔
اُس کی نندیں بھی ماں کی طرح سازشی تھیں، قریب ہی موجود اُس کی چھوٹی نند نے اس پورے واقعے کی ویڈیو بناکر اپنے بھائی عبدالرحمٰن کو بھیج دی۔ عبدالرحمٰن، جو ماں اور بہنوں کے بہکاوے میں آکر بیوی سے پہلے ہی بدظن ہوچکا تھا، اُس نے سوچے سمجھے بغیر وہ ویڈیو نہ صرف اپنے خاندان، بلکہ ہمارے پورے خاندان اور رشتے داروں تک کو بھیج دی۔ ساس، نندوں نے بھی اُس کامکمل طور پر بائیکاٹ کردیا۔
اُس کی نند، نیہا اپنے سسرال سے آتی، تو وہ بھی بلاوجہ صالحہ سے لڑائی جھگڑا کرتی اور پَل پَل کی خبروں اورجھوٹی باتوں سے عبدالرحمٰن کے کان بَھرتی رہتی، جس کے بعد وہ صالحہ سے مزید بدگمان ہوتا چلا گیا۔ مختصر یہ کہ میری بیٹی کے لیے وہاں سکون سے رہنا ممکن نہ رہا، تو بالآخر میرے شوہر، بیٹی کو گھر لے آئے۔ ہم فون کرتے، لیکن عبدالرحمٰن ہماری کال ریسیو نہ کرتا۔ صالحہ بے چاری میکے میں بھی بہت افسردہ رہتی۔
ہر وقت دعائیں، وظیفے کرتی رہتی، لیکن عبدالرحمٰن نے بالآخر اپنی ماں، بہنوں کے بہکاوے میں آکر میری معصوم بیٹی کو طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔بدفطرت ماں کے چالاک بیٹے نے ہمیں فون کیا کہ صالحہ کا نکاح نامہ، تصویریں اور پاسپورٹ گھر بھجوادیں، مَیں صالحہ کو عمان بلوارہا ہوں۔‘‘ ہم سب تو خوشی سے نہال ہوگئے۔ صالحہ روزے کی حالت میں خوشی خوشی تصویریں بنواکر آئی۔
تھوڑی دیر بعد عبدالرحمٰن کے والد کا فون آیا کہ نکاح نامے کی ایک کاپی رہ گئی ہے، مَیں ابھی خود آکر لے جائوں گا۔ اُس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے، رمضان کا مہینہ تھا، اُس کے والد آئے، تو مَیں نے اُنھیں عزت سے بٹھا کر خُوب خاطر تواضع کی۔ وہ کاپی لے کر چلے گئے اور پھر طلاق نامہ تیار کروالیا۔ ہمیں اس ساری کارروائی کا کوئی علم نہیں تھا۔ دوسری صبح موبائل فون پر عبدالرحمٰن کے اسٹیٹس سے معلوم ہوا کہ وہ پاکستان آرہا ہے، تو صالحہ بہت خوش ہوئی، اپنی سہیلی کو فون کیا کہ ’’مجھے تیار کردینا، مَیں سسرال اپنے شوہر کے پاس جارہی ہوں۔‘‘
دوسرے روز میں اپنی بہن چاندنی اور چند قریبی رشتے داروں کے ساتھ صالحہ کے سسرال پہنچی، تو آسیہ نے بڑے روکھے پن کا مظاہرہ کیا اور ہم سے کوئی بات نہ کی، ہم خود ہی بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد عبدالرحمٰن بھی آگیا اورسب ادب، لحاظ بالائے طاق رکھ کر کہنے لگا۔ ’’تم نے میرے ماں باپ کی بے عزتی کی ہے، تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟‘‘ پھر اس نے طلاق نامہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہوگئے، صالحہ آپے سے باہر ہوکر چیخ، چیخ کر رونے لگی۔ ہم نے بھی کافی شور شرابا کیا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، مجھ سے اپنی بیٹی کا رونا دھونا نہیں دیکھا جارہا تھا۔
ہم نے 4اکتوبر 2023ء کوبڑے ارمانوں سے اپنی بیٹی کی تھی اور شادی کے ایک ماہ بعد اُس کا شوہر عمان چلاگیا تھا اور اب31جولائی 2024ء کو انتہائی بدتمیزی اور بے رحمی کے ساتھ ہمارے ہاتھ میں طلاق نامہ تھمادیا گیا تھا۔ بہرحال، ہم نے پولیس کارروائی کی، تو بڑی مشکلوں سے جہیز کا کچھ سامان واپس ملا، لیکن انھوں نےایک لاکھ روپے سلامی اور دولھا کو خریداری کے لیے دیئے گئے 60ہزار روپے واپس دینے سے انکار کردیا۔
جب جہیز کا سامان واپس ہمارے گھر آیا، تو محض چند ماہ کی شادی کا داغ لگنے پر میری بیٹی نے رو رو کر اپنی حالت خراب کرلی۔ قصّہ مختصر، مَیں اپنی بیٹی کی بربادی کی یہ رُوداد صرف اس لیے لکھ رہی ہوں کہ خدارا! اپنی بیٹیوں کی شادیاں بہت سوچ سمجھ کراور مکمل چھان پھٹک کے بعد کریں۔ محض اس لیے کہ بیٹی، گھر بیٹھی بوڑھی ہوجائے، انھیں کم ظرف، نیچ اور ناقدر شناس لوگوں کے ہتّھے نہ چڑھنے دیں۔ بے شک، شادی سنّت رسولؐ ہے، لیکن اس ضمن میں جوڑ کا خیال رکھنا بھی احکاماتِ خداوندی اور سنّت رسولؐ سے ثابت ہے۔ (رضیہ بانو، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ،
شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔